مارچ کی سہ پہروں کی اپنی مہک ہوتی ہے، اوائل بہار کی مہک جو کبھی کبھی انگلی تھام کر ان جانے کُوچوں میں لے جاتی ہے۔ یہ بھی مارچ کا مہینہ ہے اوا ئلِ بہار کی مہک میری انگلی تھام کر مجھے ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ لے آئی ہے۔ سطح زمین سے بلندی پر واقع ایک کشادہ قلعہ۔ اراضی جہاں پر پرانے قلعے کے آثار ہیں۔ یہیں پہ حضرت بہائو الدین زکریا اور حضرت شاہ رکن عالم کے مزارات ہیں۔ بالائی منزل پر وہ عمارت ہے جسے دمدمہ کہتے ہیں یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھیں تو اردگرد کا علاقہ آپ کے قدموں میں نظر آتا ہے۔
دمدمہ کی عمارت پر کھڑے ہوکر میں نے سوچا کئی سو برس پہلے جب بلند عمارتوں کی بھیڑ نہیں ہو گی دور دورکے راستوں پر نظر جاتی ہو گی۔ اور شاید یہی اس عمارت کا مقصد تھا کہ قلعے کی طرف بڑھتے ہوئے لشکر کی نقل وحرکت کی پہلے سے خبر مل جائے۔ دمدمہ میںکھڑے کھڑے مجھے یوں لگا وقت دو سو سال پیچھے کو پلٹ گیاہے۔ یہ 2018ء نہیں بلکہ 1818ء ہے۔ میں چشمِ تصور سے دیکھتا ہوں کہ رنجیت سنگھ کا لشکرکھڑک سنگھ اور مصر دیوان چند کی زیر قیادت قلعے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ملتان کے گورنر نواب مظفر خان سدوزئی کو پھر ایک معرکہ درپیش ہے‘ یہ ایک فیصلہ کن معرکہ ہو گا۔ اس کے ہونٹوں پر تبسم آکے گزر جاتا ہے۔ وہ توسمجھا تھاکہ ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد اب وہ آرام کرے گا۔ ملتان کی نوابی سے دست کش ہو گا اور باقی زندگی ذکرِ الٰہی میںگزارے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے 1807ء میں اپنے بڑے بیٹے سرفراز خان کو اپنی گدی پر بیٹھایا اور حج کے لیے روانہ ہو گیا۔ اس زمانے کے سفر مہینوں اور سالوں پر محیط ہوتے تھے۔ حج کے سفر سے واپس آتے آتے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ آرام اور سکون کی خواہش تشنہ ہی رہی۔ ملتان کے حالات اسے پھر میدانِ عمل میں لے آئے تھے۔
اسے اپنے والد شجاع خان کی یاد شدت سے آئی وہ جو اپنے نام کی طرح شجاع تھا، جس نے اسے حکمرانی کی تربیت دی تھی۔ اسے افغانستان کے بادشاہ تیمور شاہ کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ شاہی دربار کے آداب سیکھ سکے لیکن 1775ء میںجب شجاع خان کا انتقال ہوا تو مظفر خان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ اب وہ زمانے کی تند و تیز آندھی میں اکیلا تھا لیکن اس کی رگوں میں جری قبیلے سدوزئی کا خون تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایک روز وہ ملتان کا حکمران بنے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتان پر سکھوں کا قبضہ تھا۔ یہ صورتحال نوجوان مظفر خان کو قبول نہ تھی۔ اس نے افغانستان کے حکمران تیمور شاہ سے درخواست کی کہ وہ ملتان کو سکھوں سے چھڑانے کے لیے اس کی مدد کرے۔ کامیاب سفارت کاری رنگ لائی اور تیمور شاہ 1780ء میں ملتان آیا۔ یہاں مظفر خان کے ساتھی تیمور شاہ کے لشکرکاحصہ بن گئے۔ ایک طویل محاصرے کے بعد قلعے کو سکھوں سے چھڑا لیا گیا۔ جنگ میں مظفر خان نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ تیمور شاہ نے 23 سال کے نوجوان مظفر خان کو ملتان کا گورنر بنا دیا۔ آج مظفر خان کو اپنے والدشجاع خان کی یاد بے طرح آئی۔ آج اس کا والد زندہ ہوتا تو اپنے ہونہار بیٹے کی کامیابی پرکتنا خوش ہوتا۔
مظفر خان نے سکھوں کے زخم خوردہ ملتان کو نئے سرے سے آراستہ کیا۔ عمارتوں کی تعمیر نو کی، مظفرگڑھ میں نیا قلعہ اور شہر آباد کیا، مساجد کو پھرسے آباد کیا۔ نوجوان مظفرخان کئی چیلنجز کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ ایک طرف افغانستان کا بادشاہ تھا، جسے باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم بھیجنا ہوتی تھی۔ دوسری طرف دہلی کا تخت‘ جہاں کے بادشاہ ملتان کو حریصانہ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ تیسری طرف بہاولپور کی ریاست تھی‘ جس کے حکمران کی نظریں ملتان کے کچھ حصوں پر تھیں۔ چوتھی طرف رنجیت سنگھ کی جارحانہ حکومت تھی۔ مظفر خان ایک بہادر جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سفارت کار بھی تھا۔ اس نے بہاولپور، دہلی اور کابل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے لیکن رنجیت سنگھ کا سیلابِ بلاخیز پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
رنجیت سنگھ نے کم عمری میں ہی اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوا لیا تھا۔ 19 برس کی عمر میں اس نے لاہور پر قبضہ کر لیا تھا۔ سکھوں کی بارہ مثلوں کے اتحاد سے اس نے پنجاب حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ اپنی فوج کو جدید ترین اسلحہ اور تربیت دی اور غیرملکی ماہرین کو فوج کی تربیت پر فائز کیا۔ مظفر خان کے لیے سب سے بڑا خطرہ رنجیت سنگھ کی فوج تھی۔ ادھر رنجیت سنگھ اپنی سلطنت کی سرحدیں کشمیر اور پشاور تک پھیلا چکا تھا۔ اس کی اگلی منزل ملتان تھی۔ اس نے ملتان پر 1816,1810,1808,1807,1804,1803 میں حملے کیے۔ ہر بار کچھ رقم لے کر اس کا لشکر واپس چلا جاتا لیکن اب رنجیت سنگھ ملتان پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنا چاہتا تھا۔ 1818ء میں اس نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو ہندو کمانڈر مصر دیوان چند اور ایک لشکر کے ہمراہ ملتان کی مہم پر بھیجا۔ لشکر کے ہمراہ زمزمہ نامی توپ بھی تھی جس کاملتان کی لڑائی میں اہم کردار تھا۔
چند لمحوں میں مظفر خان کی آنکھوں کے سامنے اس کی زندگی کے واقعات آئے اور گزر گئے۔ اب فیصلہ کن لمحہ آ چکا تھا۔ وہ اپنے پانچ بیٹوں‘ ایک بیٹی اور اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دادِ شجاعت دینے لگا۔ ایک گھمسان کا رن تھا، توپوں کے گولے قلعے کی فصیلوں سے ٹکرا رہے تھے۔ طویل محاصرے کے بعد سکھوں نے یہ پیشکش کی کہ اگر نواب مظفر سکھوںکے زیرِنگیں آ جائیں تو ان کو امان مل جائے گی۔ نواب مظفر نے اپنے رفقا کا اجلاس بلایا اور ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور آخر دم تک قلعے کا دفاع کریںگے۔ لڑائی پھر سے شروع ہو گئی۔ زمزمہ توپ کے گولوں سے قلعے کی فصیل میں شگاف پڑ گئے اور سکھ فوج وہاں سے اندر داخل ہو گئی۔ مظفرکو دوران جنگ سینے پر گولی لگتی ہے۔ مظفر خان کی ہنگامہ خیز زندگی اختتام کو پہنچتی ہے۔ لیکن اس کی ڈوبتی آنکھوں میں اطمینان کی لہر ہے۔ آنے والا زمانہ اسے ایک بہادر اور جری سپہ سالار کے طور پہ یاد رکھے گا۔ جس کے اڑتیس سالہ دورِ حکومت نے ملتان کی معاشرت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ جس نے غلامی کا طوق پہننے کے بجائے آخری دم تک مزاحمت کی۔ اچانک توپوں کی گھن گرج، تلواروں کی جھنکار تھم جاتی ہے۔ میں جانے کب سے دمدمہ کی عمارت میں کھڑٖا تھا۔ یہاں کھڑے کھڑے مجھ پر دو سو سال بیت چکے تھے۔ ضیاء المصطفیٰ کے بلانے پر وقت کا طلسم ٹوٹا۔ ضیاء محکمہ اوقاف میں ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ ایک شفیق اور مہربان شخصیت۔ مجھے کہنے لگے : بہت دیر ہو گئی۔ آپ کب سے یہاں کھڑے ہیں۔ آئیں نواب مظفر کی قبر پر چلتے ہیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں۔ ہم دہلیز پر جوتے اتار کر بہائوالدین زکریا کے مزار کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں۔ ذرا آگے جائیں تو دائیں جانب ایک مختصر سی قبر‘ جس پر سبز رنگ کی چادر پڑی ہے‘ سرہانے دیوار پر ایک کتبہ ہے جس پر نام اور تاریخ شہادت درج ہے‘ جون 1818ء۔ اور یہ2018 ء کا سال ہے۔ مظفر خان کی شہادت کو پورے دو سو سال گزر گئے۔ آج مارچ کے مہینے کی مہک نے کتنی پرانی یاد تازہ کر دی۔ سچ کہتے ہیں مارچ کی سہ پہروں کی اپنی مہک ہوتی ہے، اوائل بہار کی مہک جو کبھی کبھی انگلی تھام کر ان جانے کوچوں میں لے جاتی ہے۔