دو سال بیت گئے مگر ہنوز معطر یادیں دل میں تازہ ہیں۔ 5؍مارچ2016ء بروز ہفتہ تحریک اسلامی کا وہ گوہر نایاب دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر عالم جاودانی کی وسعتوں میں جا بسا۔ یہ ہمارا پیارا بھائی، شیریں مقال ساتھی اور خوش خصال داعیٔ اسلام معراج الدین خان تھا۔ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ عموماً چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی، مگر پیچیدہ اور غور طلب مسائل زیر بحث ہوتے تو انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ مکمل تجزیہ کرکے ان پر اپنی فکرانگیز رائے پیش کرتے۔ یاد نہیں پڑتا کہ مرحوم سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب وہ ناظم اعلیٰ بنے تو میں ایک مرتبہ کینیا سے پاکستان آمد پر منصورہ، مہمان خانے میں ایک رات کے لیے مقیم ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے، ان میں ان کے ناظم اعلیٰ جناب معراج الدین خان صاحب بھی تھے۔ گٹھا ہوا جسم، درمیانہ قد، سیاہ داڑھی، سرپہ سفید ٹوپی اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ۔ تعارف سے قبل ہی علیک سلیک پر میں نے کہا کہ آپ جماعت اسلامی کے صحیح کارکن نظر آتے ہیں کہ ہاتھ میں تھیلا ہے اور شاید اس میں کچھ اسلامی کتابچے بھی ہوں گے۔
ابھی معراج بھائی نے کچھ کہا بھی نہ تھا کہ ان کے رفقا میں سے ایک نے کہا ''یہ اسلامی جمعیت طلبہ میں ہمارے ناظم اعلیٰ معراج الدین خان صاحب ہیں۔‘‘ اس دوران معراج الدین صاحب نے جو کتاب اپنے تھیلے میں سے نکالی وہ تھی ' کارکنوں کے باہمی تعلقات‘۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ناظم اعلیٰ اس اہم موضوع پر اتنی موثر کتاب اپنے تھیلے میں رکھے ہوئے کارکنان کے ہمراہ دورہ کررہے تھے۔ اس نشست کی کچھ زیادہ باتیں یاد نہیں، تاہم معراج الدین صاحب کی ایک بات ذہن میں محفوظ ہے۔ فرمانے لگے: ''اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنے سابقین کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سرپرستی فکری اور معاشی دونوں میدانوں میں درکار ہے۔‘‘ اس مختصر بیانیے سے مزید خوشی ہوئی کہ ناظم اعلیٰ کا ذہنی افق ایک تحریکی رہنما کی عکاسی کررہا تھا۔ میں نے کہا خاکسار ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہے۔
چند ہی سالوں بعد نومبر1985ء میں راقم الحروف بیرون ملک سے مستقل طور پر پاکستان واپس آگیا۔ اس دور میں محترم امیر جماعت میاں طفیل محمد مرحوم ومغفور کے حکم کے مطابق میں مرکز جماعت میں بطورِ نائب قیم ذمہ داری ادا کررہا تھا۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے کثیر اور طویل دورے کرنے کا شرف حاصل ہوتارہا۔ اسی زمانے میں پروفیسر محمد ابراہیم صاحب سے بہت قریبی برادرانہ تعلق قائم ہوا۔ وہ اکثر دوروں میں میرے ہمراہ ہوتے تھے۔ اسی طرح برادران شبیراحمد خان اور معراج الدین خان سے بھی بھرپور ملاقاتیں رہیں۔ بزرگان میں سے جناب مولانا غلام حقانی مرحوم، مولانا گوہررحمان مرحوم، جناب ارباب محمد سعید خان مرحوم، جناب ڈاکٹر مراد علی شاہ، محترم غلام عباس خان مرحوم اور مولانا سلامت اللہ مرحوم کے علاوہ حکیم عبدالوحید صاحب اور جناب محمداقبال مرحوم سے بھی بہت بے تکلفانہ تعلقات رہے۔ معراج الدین صاحب کا آبائی تعلق خیرآبادضلع نوشہرہ سے تھا۔ اس زمانے میں اسلام آباد سے پشاور جانے کے لیے موٹروے نہیں ہوتا تھا۔ دریائے اٹک کو عبور کر کے جی ٹی روڈ پر خیرآباد میں معراج الدین خان صاحب سے ملاقات کی خواہش اکثر پوری ہوجایا کرتی تھی۔ وہ بڑے ہنس مکھ اور مجلسی آدمی تھے۔
مرحوم نے ایک دن اپنا تعارف نئے انداز میں کروایا۔ فرمانے لگے کہ آپ کوہاٹ کے دورے پر جاتے ہیں تو مولانا محمد سلیم صاحب سے آپ ضرور واقف ہوں گے۔ میں نے کہا کہ یقینا مولانا سے کوہاٹ کے علاوہ منصورہ میں بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ایک بار سنگھوٹہ (سوات) میں بھی ان کے ساتھ تین دن مسلسل ایک تربیت گاہ میں شرکت کا موقع ملا۔ میں ان کے اخلاص اور شخصیت کی جامعیت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ وہ ایک عالم ربانی اور ان تھک مجاہد ہیں۔ ان کے اندر عالمانہ وقار، مومنانہ فراست اور دانش مندانہ سنجیدگی ہر شخص کو متاثر کرتی ہے۔ مذاق میں کہنے لگے: ہم بھی ان کے متاثرین میں سے ہیں۔ میں نے کہا کیا مطلب؟ تو کہا کہ ان کی صاحبزادی میری اہلیہ ہیں۔ پھر اپنی اہلیہ کی تحریک اسلامی کے ساتھ وابستگی اور لگن کا تذکرہ کیا جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ یہ ایک پر لطف مزاح بھی تھا اور معلوماتی خبر بھی۔
معراج بھائی ضلع نوشہرہ کے امیر مقرر کیے گئے اور پہلی مرتبہ 1997ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ اب مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کے دوران ان سے بھرپور ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ شوریٰ کے اجلاسوں میں جچی تلی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ مرحوم سٹیج کے دائیں جانب دوسری یا تیسری صف میں بیٹھتے تھے۔ میں نے ایک دن ازراہِ مذاق کہا عموماً کہا جاتا ہے کہ دائیں ہاتھ والے حزب اقتدار سے تعلق رکھتے ہیں اور بائیں ہاتھ والے حزبِ اختلاف سے، تو کھل کھلا کرہنسے اور کہنے لگے: یہاں نہ کوئی حزب اقتدار ہے اور نہ کوئی حزبِ اختلاف۔ مرحوم دوبارہ 2000ء میں اور سہ بارہ2003ء میں رکنِ شوریٰ بنے۔ کچھ وقفے کے بعد 2013ء میں پھر شوریٰ میں ان کا انتخاب ہوا۔ جب معراج بھائی کا انتقال ہوا تو شوریٰ2016-2019ء کا انتخاب ہوچکا تھا اور وہ رکن شوریٰ منتخب ہوگئے تھے، مگر حلف اٹھانے سے قبل ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔ حق مغفرت فرمائے مرحوم اللہ کے دین کے سچے سپاہی اور قافلۂ حق کے ان تھک سالار تھے۔ مرحوم 1997ء اور2000ء کے دوران دوبار مجلس عاملہ کے رکن نامزد کیے گئے۔
مرحوم صوبائی نائب امیر تھے۔ مارچ کے آغاز میں ہزارہ کے دورے پر نکلے اور گاڑی ہی کے اندر دل کا دورہ پڑا۔ اس دورے کے دوران ان کی زبان پر مسلسل اللہ کا ذکر اور حمدوتسبیح کے کلمات جاری رہے۔ فطری طور پر ان کا ڈرائیور بہت فکرمند ہوا۔ وہ ان کی زبان سے یہ کلمات بھی سن رہا تھا اور اللہ سے ان کی صحت کی دعائیں بھی مانگ رہا تھا۔ ایمرجنسی میں ہسپتال لے جائے گئے، مگر ہزارہ کی سنگلاخ وادیوں میں اجل مسمّٰی نے اپنی آغوش میں لے لیا اور یہ اللہ کا بندہ جنت کی وادی میں اتر گیا۔ یوں معراج الدین مرحوم اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے۔ نبیٔ مہربان ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوگیا وہ بھی شہید ہے اور جو اللہ کی راہ میں (جدوجہد کرتا ہوا) موت سے ہم کنار ہوا وہ بھی شہید ہے۔
مرحوم اپنے سکولوںکے اساتذہ کو باقاعدہ اس تربیت گاہ میں شرکت کے لیے بھیجتے اور اکثر ان کے ساتھ خود بھی شرکت فرماتے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنے خاندانی پیشے (ماربل اور بجری) میں قسمت آزمائی کی، مگر اس میں اپنے آپ کو زیادہ ایڈجسٹ نہ کر پائے۔ اس عرصے میں اور بعد ازاں بھی جب کبھی بجری اور ماربل وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو میں معراج بھائی سے درخواست کرتا۔ وہ بہترین اور معیاری مال نہایت ہی مناسب نرخوں پر بھجوا دیا کرتے تھے۔ اس فیلڈ کو چھوڑا تو اس کے بعد انھوں نے تعلیم کی طرف توجہ دی اور پہلا تعلیمی ادارہ اپنے آبائی شہر کے قریب جہانگیرہ میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام میں ان کو اتنی کامیابی عطا فرمائی کہ اب اللہ کے فضل وکرم سے پورے صوبے میں ایک تعلیمی زنجیر (Chain) بن گئی ہے، جس سے درجنوں ادارے ملحق ہیں، ہزاروں طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ معیاری تعلیم اور باعزت روزگار سے مستفید ہورہے ہیں۔ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
معراج الدین خان صاحب کی پہلی شادی حضرت مولانا محمد سلیم مرحوم کی بیٹی اور ہماری تحریکی بہن محترمہ زینب صاحبہ سے ہوئی۔ زینب بہن کافی عرصے تک جماعت اسلامی حلقہ خواتین صوبہ خیبرپختونخواہ کی ناظمہ رہی ہیں۔ بہت اچھی مدرسہ اور قرآنی علوم پر دسترس رکھنے والی اس خاتون نے اپنی شادی کے بعد خیرآباد میں جامعۃ المحصنات قائم کی۔ معراج الدین صاحب نے دوسری شادی مالاکنڈ ڈویژن سے کی۔ ان کی دوسری بیوی بھی خالص تحریکی خاتون اور ان کی پہلی بیوی کی تلمیذہ اور انھی کی تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں بیویوں سے معراج الدین صاحب کو اولاد صالح عطا فرمائی۔ زینب سے اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں دیں۔ یہ تینوں شادی شدہ ہیں، جبکہ دوسری بیوی سے چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور اپنے عظیم والد کے نقشِ پا پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم کا پورا خاندان جماعت اسلامی سے وابستہ ہے۔ ان کے بیٹے سلمان معراج ایل ایل ایم شریعہ کرنے کے بعد سوات یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ بچوں میں کئی حفاظ قرآن ہیں اور کئی حفظ کرنے میں مصروف ، اللہ ان سب کو معراج بھائی کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔