تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-03-2018

فیس بک کا کن ٹٹا گروپ اور بیوائیں

میڈیا کے لوگ جب کسی جماعت کی طرف سے ہنگامہ آرائی، تشدد اور بدتمیزی پر لکھتے ہیں تو ان سیاسی جماعتوں کا ردّعمل ہمارے معاشرے کی بنیادوں تک اتری ہوئی جہالت عیاں کر دیتاہے ۔ نومبر2007ء میں عمران خان نے جب پنجاب یونیورسٹی آنے کا اعلان کیاتو وہاں کی سب سے بڑی تنظیم نے انہیں وہاں نہ آنے کا حکم دیا۔ کپتان ضد کا کتنا پکا ہے ، یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں ۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر وہاں گیا۔ عمران پر تشدد ہوا ۔پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ اس پر میرے والد ہارون الرشید اور عباس اطہر مرحوم نے تنظیم کے خلاف مضامین لکھے۔ ایک بدترین طوفانِ بدتمیزی برپا ہوگیا۔ تین دن میں سینکڑوں لڑکوں کے فون موصول ہوئے، بدتمیزی، گالم گلوچ اور دھمکیاں۔ دونوں تسلسل سے لکھتے رہے ۔ تین چار دن کے بعد ہی وہ تھک گئے ۔ آخر تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں نے معافی مانگی اور یا للعجب اس معافی کے ساتھ ہی ان فون کالز کا سلسلہ ایک دم رک گیا۔
مجھے یا دپڑتاہے کہ جب ہم کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے تو والد صاحب کو ایم کیو ایم کی طرف سے شدید بدتمیزی اور دھمکیوں کاسامنا کرنا پڑا ۔ جب عمران خان کی پرجوش حمایت اور شریف خاندان کی مخالفت کی تو ان کے اپنے اخبار میں درجنوں مضامین میں بدتمیزی اور مذاق اڑایا گیا ۔ جب طالبان کی شدید مخالفت اور فوج کی بھرپور حمایت کی تو طالبان کی طرف سے دھمکیاں ملیں۔ فوج والے دوستوں نے والد صاحب کو متنبہ کیا کہ خطرہ بہت سنگین ہے ۔ یہ سب حالات تو گزر گئے ۔ اب آج کپتان ، جس کے لیے بدستور ایک نرم گوشہ ہمارے دلوں میں موجود ہے اور اس شکوے کے باوجود کہ فردوس عاشق اعوان ، نذرگوندل اور ان دوسرے لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا، جو سخت بدنام ہیں ۔ہر پارٹی میں یہ لوگ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں ۔ فوزیہ قصوری اور جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے لوگ پسِ منظر میں جا چکے ۔ اس سب کے باوجود یہ نرم گوشہ ہمارے دلوں سے ختم نہیں ہو پارہا۔ کیا اس کپتان کے پیروکار اب ہمیں کردار کشی کی دھمکیاں دیں گے ؟ 
انہی دنوں نیویارک سے میرے چچا محمد امین مسلم پاکستان آئے۔ بتایا کہ امریکی میڈیا میں اگر کوئی طاقتور یہودی لابی کے خلاف منفی الفاظ استعمال کرے تو وہ ہو بہو یہی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں ۔ تین چار سو یہودی فون لے کر بیٹھ جاتے ہیں او راپنے خلاف لکھنے والے کو فون کر کر کے برا بھلا کہتے ہیں ۔ یہ اس کے اعصاب توڑنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ 
چار پانچ سال پہلے عمران خان کے جس سوشل میڈیا بلاگر نے تحریکِ انصاف کے دوست اکھٹے کر کے وہاں یہ پوسٹ کی کہ بلال الرشید ایک سفارشی اور نا اہل لکھاری ہے‘ اس نے چند روز قبل ہارون الرشیداور ان کے درویش کی کردار کشی کی دھمکی دی ہے ۔ یہ کہ ہارون صاحب کی کچھ باتیں ہمارے علم میں ہیں ، فی الحال ان پر بات نہیں کریں گے ۔ یہ بھی کہ ہارون صاحب کے درویش نے ہمیں بڑا خراب کیا، اس پر بھی پھر کبھی ۔ دو سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا، جو اس بلاگر کے دل سے ابھی تک نکلا نہیں ۔ اس نے پروفیسر صاحب کے سیکرٹری سے رابطہ کیا اور ملاقات کی خواہش کی۔ پروفیسر صاحب کے اردگرد لوگوں کا ایسا جمگھٹا لگا ہوتاہے کہ کئی بار ہمیں بھی کئی دنوں تک جہدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ 76سال ان کی عمر ہو چکی ہے ۔ دن میں بمشکل چند گھنٹے سونے کا وقت ملتاہے ۔میں اپنی بیٹی کا نام رکھوانے ان کے پاس گیا تو بولے ، ابھی تھکا ہوا ہوں ۔ بعد میں بتائوں گا۔ دو تین دفعہ چکر لگانے کے بعد مشکل سے یہ نام حاصل کیا ۔ قصہ مختصر یہ کہ ۔۔۔ان کی ملاقات نہ ہو سکی ۔ ۔۔۔وہ بلاگر صاحب سوشل میڈیا پر اچھے خاصے حامی رکھتے ہیں ۔ان کا خیال یہ ہے کہ اب جسے چاہے وہ عزت بخش سکتے ہیں اور جسے چاہے ذلیل کر ڈالیں ۔ پروفیسر صاحب کے خلاف تو لکھنا شروع کیا ہی ، ساتھ ہی دیگر کے خلاف بھی ۔ یہ کہا کہ یہ سب لوگ بیرونِ ملک مزے لوٹتے ہیں؛حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔اپنے شوق سے او راپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے شبیر بھائی پروفیسر صاحب کے لیکچرز ریکارڈ کر تے رہتے ہیں ، جس پر ہم سب ان کے مقروض ہیں ۔ 
یہ وہ صورتِ حال ہے ، جس میں ایک کن ٹٹا بریگیڈ فیس بک پر متحرک ہے ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ یا تو ہمارے سامنے submissiveہو کر عمران خان کی تعریف کرتے رہو ۔ ہمیں اہمیت دو۔ہماری تحریروں پر ''سبحان اللہ،واہ وا‘‘لکھتے رہو، یا پھر ہم تمہاری اور تمہارے بزرگوں کی بے عزتی کریں گے ۔ یہ بریگیڈ بہت دلچسپ انداز میں کام کرتی ہے ۔ 70، 80لوگ آپس میں طے کرتے ہیں کہ آج فلانے پر حملہ کرنا ہے ۔ ایک پوسٹ کی جاتی ہے ، جس میں اسے اور اس کے اہل و اقارب کو نشانہ بنایا جاتاہے ۔یہ سب لوگ ایک دوسرے کی پوسٹ پر لازماً حاضری دے کر حمایتی ریمارکس پاس کرتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس پر حملہ کیا گیا ہے ، اسے مشتعل کر کے اس کے منہ سے کچھ الٹے سیدھے الفاظ نکلوا لیے جائیں ۔ بس ، جیسے ہی یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں ، ساتھ ہی یہ کن ٹٹا بریگیڈ بیوائوں کے گروپ میں بدل جاتی ہے ۔ ''فیس بک کی یہ بیوائیں ‘‘فوراً سکرین شاٹ لیتی ہیں ۔ یہ دیکھیے ، نامور دانشور، صحافی اور کالم نگار کے بیٹے نے بدتمیزی کر دی ۔ اتنے برے الفاظ ، توبہ توبہ ، استغفر اللہ، نعوذ با اللہ ۔ آسمان کیوں نہیں گر گیا۔ یہ کیسی تربیت کی انہوںنے اپنی اولاد کی ۔ یہ الفاظ سننے سے پہلے ہم مر کیوں نہیں گئے ؟ آپ کو یقین نہیں آئے گا ، جیسے کسی مرگ پر بیوائیں دریاں بچھا کر نہیں بیٹھ جاتیں ، بالکل وہی انداز اور میں اس سے کافی محضوظ بھی ہوا۔ یہ تماشہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ 
اب رائونڈ ٹو شروع ہوتاہے ۔ جس بندے کی تذلیل کی گئی، اب ا س کے اہل و اقارب اور دوستوں سے رابطہ کیا جاتاہے ۔ انہیں کہا جاتاہے کہ آپ اپنے دوست کو سمجھائیں ۔ وہ شریف بندہ ہے ۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ شریف بندے کو روز روز تو ان چیزوں سے واسطہ نہیں پڑتا ۔جب کہ ان بیوائوں کا یہ روز کا کام ہے ۔ پھر اس کے دوست احباب اور رشتے دار جب بار بار اس سے رابطہ کرتے ہیں کہ بھائی چھوڑو، کیوں گند میں ہاتھ مار رہے ہو تو وہ ان کی با ت مان لیتا ہے ۔ یوں آئندہ وہ کھل کر اپنا موقف دینے کے قابل نہیں رہتالیکن یہاں میں ایک خوشخبری دیتا چلوں کہ میں ایسا نہیں کرنے والا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ سوچتا رہتا ہوں ۔ پہلے اس بات کا جائزہ لیتا ہوں کہ یہ ہو کیا رہا ہے ۔ جب یہ بات سمجھ آجاتی ہے تو پھر مسئلے کا حل نکالنا مشکل نہیں ہوتا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت شمالی وزیرستان آپریشن کی سخت ترین مخالف تھی۔آپریشن کے حامی ان کے نزدیک امریکی پٹھو تھے۔ طالبان کا ہر موقف وہ دل و جان سے قبول کرتے اور اسے پھیلانے میں مدد کرتے ۔ طالبان نے جب یہ کہا کہ ہمارے قیدیوں کو پولیس اور فوج کی تحویل میں مارا جا رہا ہے ، اس لیے ہم مذاکرات کے باوجود سکیورٹی فورسز کو قتل کر رہے ہیں تو انہوں نے فوراً اسے قبول کیا ؛حالانکہ یہ سفید جھوٹ تھا۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved