تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     14-03-2018

آنے والے دنوںکی ذَرا سی جھلک

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کو آنے والے عام انتخابات کی ڈریس ریہرسل سمجھنا چاہیے۔ سینیٹ کے انتخابات میں واضح اکثریت کسی پارٹی کو نہیں ملی۔ مینڈیٹ ٹوٹا ہوا یا فریکچرڈ تھا۔ جو ہوائیں ملک میں چل رہی ہیں‘ وہ بتاتی ہیں کہ عام انتخابات میں بھی یہی کچھ ہو گا۔ مینڈیٹ ٹوٹا ہی رہے گا اور واضح اکثریت کسی ایک پارٹی کو ملنا تقریباً ناممکن ہو گا۔
نون لیگ پہ پچھلے سال جب پانامہ پیپرز کی افتاد پڑی تھی تو اس کی قیادت حالات کو نہ سمجھ سکی۔ یہ لوگ اَب بھی حالات کے دھارے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ عجیب زُعم میں مبتلا ہیں۔ اِدھر اُدھر کے جلسوں سے نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ حالات کا رُخ اپنی طرف موڑ سکیں گے۔ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ سیاسی اُفق پہ فیصلہ کن تبدیلیاں کچھ تو ہو چکی ہیں‘ اور کچھ ہونے والی ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے کی تلوار قیادت کے سروں پہ لٹکی ہوئی ہے‘ اور جلسوں یا مریم نواز کی تقریروں سے یہ خطرہ نہیں ٹلے گا۔ سینیٹ الیکشن کے دوران اور پھر چیئرمین کے چناؤ کے وقت یوں لگتا تھا کہ لیگی قیادت فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ بلوچستان میں جب وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کا اقدام لیا گیا‘ تو لیگی قیادت گُم صُم ہو کے رہ گئی تھی۔ جواب میں اُس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ سینیٹ کے چناؤ کے وقت بھی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی صلاحیت لیگی قیادت میں نظر نہیں آئی۔ بلوچستان میں اکثریتی سینیٹر اُسی آزاد گروپ کے ہوئے جو عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور سب سے زیادہ ووٹ لے گئے اور لیگی قیادت سمجھ نہ سکی کہ یہ کیسے ہوا۔ کے پی میں پی پی پی کے دو سینیٹر منتخب ہو گئے۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ 
چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے وقت لیگی قیادت کے چہرے بتا رہے تھے کہ اِن کے ذہنوں میں کوئی ترکیب نہیں آ رہی۔ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ کیا کرنا ہے۔ آخر کار اُس محترم کو اپنا اُمیدوار چُنا جس کی قسمت میں جیت لکھی ہی نہیں تھی۔ دوسرے نام جن پہ غور ہو رہا تھا اُن سے بھی کامیابی کی اُمید لگانا عَبث تھا۔ پرویز رشید، مشاہداللہ خان اور اِس قسم کے کارتوس۔ کچھ خوش فہموں نے مشاہد حسین کا نام بھی لیا حالانکہ اَبھی تک وہ اُس شرمندگی پہ مکمل قابو نہیں پا سکے جو اُن کے حصے میں آئی‘ جب (ق) لیگ سے چلتے چلتے نون لیگ کے سینیٹر بن گئے ۔ (ق) لیگ کے عام رکن نہ تھے بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک اُس کے باقاعدہ سیکرٹری جنرل تھے۔ غرضیکہ اس سارے شطرنج کے کھیل میں نون لیگ ایک اناڑی پن کا مجسمہ دکھائی دی حالانکہ اتنے لمبے عرصۂ اقتدار کے بعد اُسے سب سے زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لہٰذا جو نعرہ سینیٹ ہال میں سب سے زیادہ گونجا وہ تھا ''ایک زرداری، سب پہ بھاری‘‘۔ نون لیگ کے جلسے اِس صورتحال کا خاطر خواہ جواب مہیا نہیں کرتے۔
یہ واقعات نون لیگ کے لئے نفسیاتی ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اِس سے لیگی مورال کو دھچکا لگا ہو گا اور بہت سارے ذہنوں میں یہ سوال اُبھرے گا کہ یہی کچھ نون لیگ کے ساتھ زیادہ وسیع پیمانے پر آنے والے انتخابات میں تو نہیں ہو گا۔ انتخابات کو اَبھی پانچ ماہ باقی ہیں۔ بقول ایک سیانے کے سیاست میں ایک ہفتے کا وقت بھی لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ پانچ ماہ تو ایک عمر لگتی ہے۔ لیگی اِس بات پہ خوش ہو رہے ہیں کہ اُن کی پارٹی قائم ہے اور جس پیمانے پہ سمجھا جا رہا تھا کہ لوگ چھوڑ کے جائیں گے‘ ایسا نہیں ہوا۔ یہ تو اَب کی صورتحال ہے جب لیگی حکومتیں اسلام آباد اور لاہور میں براجمان ہیں اور اُوپر نیچے لیگیوں کا حکم چلتا ہے۔ لیکن اگر احتساب عدالت کی تلوار سروں پہ گرتی ہے تو صورتحال مختلف ہو گی۔ ایک اَمر تو اب سے واضح ہے کہ خادمِ اعلیٰ کے مُنہ سے کوئی بات نہیں نکل رہی۔ سپریم کورٹ کی کارروائیوں سے بھی نون لیگ کو زک پہنچ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے تقریباً حکومتوں کو ڈانٹا ہے کہ سرکاری پیسوں سے ذاتی تشہیر نہ کی جائے۔ پنجاب حکومت تو چل ہی اشتہاری مہمات پہ رہی ہے اور اُس کی ساری گڈ گورننس کی کہانی اشتہارات پہ مبنی ہے۔ سرکاری اشتہار بازی سے تو یوں پتہ چلتا ہے کہ تاریخِ عالم میں خادمِ اعلیٰ جیسا ایڈمنسٹریٹر پیدا نہیں ہوا۔ اَب اُن سے ذاتی تشہیر پہ صرف کی گئی رقوم کی واپسی کا چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے۔ یہ بات لیگی قیادت کو کہاں اچھی لگی ہو گی؟ اِن سے تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، اَب اِنہیں ایسی حرکتوں پہ سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آسمانوں کا رنگ کیسے بدل چکا ہے۔ لیکن نواز شریف کا اَلمیہ ہے کہ پارٹی کے متعلق سوچنے کی بجائے اپنی ذات میں گُم ہیں۔ فکر اُنہیں جماعت کی ہونی چاہیے لیکن فکر صرف اپنے اُوپر مرکوز ہے۔ اسی لیے ذات سے ہٹ کے باقی معاملات پہ جو نظر رکھنی چاہیے وہ نہیں ہو پا رہی۔ یہ کیفیت سینیٹ انتخابات میں واضح تھی۔ 
نون لیگ کے لئے یہ بھی کوئی اچھی خبر نہیں کہ اُن کے نمبر وَن حریف عمران خان اُس سیاسی سُوجھ بُوجھ کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے بارے میں ناقدین کہا کرتے تھے کہ یہ اِن کا موضوع ہی نہیں۔ سینیٹ انتخابات میں ہر پتّہ اُنہوں نے صحیح کھیلا اور وہ کچھ کیا جس سے نون لیگ کی شکست یقینی ٹھہری۔ پیپلز پارٹی سے اتحاد کے زہر سے بچے رہے لیکن عملاً اپنے ووٹ اُسی پلڑے میں ڈالے جس میں پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹ ڈالنے تھے۔ فارمولا واضح تھا کہ سینیٹ چیئرمین جو بھی ہو نون لیگ کا نہ ہو۔ اِسی فارمولے پہ جناب آصف علی زرداری کاربند رہے اور یہی نکتہ عمران خان کے سامنے رہا۔ یعنی دونوں اطراف سے یہ دیکھا گیا کہ ہماری لڑائی کس سے ہے۔ ماضی میں کئی ایسے موڑ آئے جب عمران خان نے یہ سوال اُلجھا دیا لیکن اِس دفعہ توپوں کا رُخ ایک ہی طرف رکھے رکھا۔ اسی لئے دونوں کو جیت ملی اور شرمندگی نون لیگ کے حصے میں آئی۔ 
اَبھی سیاسی اُفق پہ اکھاڑ بچھاڑ بہت ہونا ہے۔ کئی اہم سنگ میل سامنے ہیں‘ جن میں بہت اہمیت رکھنے والا احتساب عدالت کا فیصلہ ہو گا۔ نہال ہاشمی، طلال چوہدری، دانیال عزیز، سب عدالت عظمیٰ کی نظروں میں ہیں۔ تینوں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی چل رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ تو نکلا کہ لیگی زبانیں نسبتاً بند ہو گئی ہیں۔ چنگھاڑ ایک ہی طرف سے آ رہی ہے‘ اور وہ مریم نواز کی تقریروں کی شکل میں ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ وہ سیاستدان کے طور پہ اُبھری ہیں۔ تقریر کا فن بھی خوب آ گیا ہے اور جس انداز میں وہ بول رہی ہیں نون لیگ میں اور کوئی ایسی آواز نہیں۔ نون لیگ کا جو بھی بنے وقت آنے پر قیادت اُس کی بہرحال مریم نواز کے ہاتھوں میں جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ سزا کی تلوار اُن کے سر پہ بھی گرے‘ لیکن اس سے اِن کی پارٹی قیادت کی پوزیشن مزید پختہ ہو جائے گی۔ 
یہ دُور کی باتیں ہیں۔ فی الحال آسمانوں کے تیور بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پانامہ پیپرز سے لے کر اب تک جو ہوا ہے اور جو ہونے جا رہا ہے وہ اس لئے نہیں ہوا کہ اقتدار دوبارہ نون لیگ کے حصے میں آئے۔ بہرحال دلچسپ صورتحال ہے۔ مخصوص لابیاں جمہوریت کا شور مچا رہی ہیں‘ لیکن حقیقت میں جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے مثبت پہلو رکھتا ہے۔ ایک سیاسی دور ختم ہو رہا ہے اور نیا جنم لے رہا ہے۔ یہ کہاں کی بُری بات ہے؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved