سینیٹ میں جو تقریر حاصل بزنجو نے کی‘ اس پہ مجھے واقعی حیرانی ہو رہی ہے‘ اتنا غصہ کیوں؟ بولے بلوچستان سے چیئرمین صادق سنجرانی بننے سے پارلیمنٹ کا منہ کالا ہوگیا ہے۔
میں پندرہ برس سے پارلیمنٹ جا رہا ہوں، وہاں کئی رنگ دیکھے ہیں، کئی بہاریں اور کئی خزاں کے موسم بھی۔ پارلیمنٹ کے عروج و زوال کے سب موسم دیکھے ہیں۔ لیکن یہ عجیب موسم ہے جو اس وقت پارلیمنٹ پہ آیا ہوا ہے۔ نیا جمہوری بیانیہ یہ ہے اگر نواز شریف کا سپیکر یا چیئرمین سینیٹ بن جائے تو ملک میں جمہوریت ہے‘ اگر اپوزیشن کا بن جائے تو وہ شرمناک دن ہے اور ہم سب کو ڈوب مرنا چاہئے۔ اب یہ نیا بیانیہ ہمارے پختون اور بلوچ قوم پرستوں نے بھی اپنا لیا ہے کہ اگر مرضی کا بندہ ملک کا وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ نہیں بن رہا تو پارلیمنٹ کا منہ کالا ہو گیا ہے۔ جب یہ بات اچکزئی، بزنجو اور مینگل جنرل مشرف دور میں کرتے تھے تو ہم سب کو سمجھ آتی تھی۔ اس وقت‘ آج کی جوان نسل شاید سکولوں میں پڑھتی تھی لہٰذا انہیں علم نہ تھا کہ کون کیا کرتا ہے اور کس کا کیا کردار ہے۔
مارشل لا کا سب سے زیادہ فائدہ سیاستدانوں کو ہی ہوتا ہے کیونکہ ان کے تمام کرتوت پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اکثر سیاستدان ڈیل کر کے فوجی حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور باقی اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کا احتساب ہوا بھی تو بھی وہ ہیرو ہی بنیں گے اور جیل جاتے اور آتے وقت دونوں انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر نکلیں گے اور عوام پھولوں کے ہار گلے میں ڈالیں گے‘ خواہ آپ کرپشن یا چوری پر سزا بھگت کر ہی کیوں نہ نکلیں۔ اس لیے جب آج کل قومی حکومت اور مارشل لاء کی باتیں ہوتی ہیں تو میں کہتا ہوں: شریف خاندان دن رات دعائیں کر رہا ہے کہ کسی طرح فوجی مارشل لا لگے۔ جس دن مارشل لا لگ گیا یا قومی حکومت بن گئی‘ اس دن یہ سب شکرانے کے نفل ادا کریں گے۔ نواز شریف کا رونا یہ ہے ان کی برطرفی کسی فوجی آمر نے نہیں کی۔ وہ اس وقت برطرف ہوئے جب ملک میں سیاسی حکومت تھی۔ کسی فوجی آمر نے انہیں وزیراعظم ہائوس سے گرفتار نہیں کیا۔ انہیں وزیراعظم ہائوس سے پکڑ کر سیدھا لانڈھی یا اڈیالہ جیل نہیں لے جایا گیا۔ اور اب جب ان کی مرضی کا وزیراعظم‘ اس وقت ملک کا سربراہ ہے اور وہ ان عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں جہاں ان کا مقدمہ سنا جارہا ہے اور کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جا رہے لہٰذا زیادہ امکان یہ ہے کہ انہیں سزا ہو۔ اور یہ بات شریف خاندان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گی کیونکہ وہ پھر اس طرح رولا نہیں ڈال سکیں گے جیسے انہوں نے جنرل مشرف دور میں سزا پانے کے بعد ڈالا تھا۔ اُس وقت ان کا بیانیہ یہ تھا فوجی آمر نے اپنی مرضی کے ججوں سے سزا دلوائی ہے۔ یوں انہوں نے اس سزا کو متنازع بنایا اور دس برس بعدتمام سزائوں کو ختم کرا لیا۔
تاہم اب کی دفعہ نواز شریف کو فکر ہے کہ اگر پورے خاندان کو سزائیں مل گئیں تو پھر وہ رولا نہیں ڈال سکیں گے۔ اس لیے ہر وقت فوجی مداخلت اور بالادست قوتوں کی بات ہوتی رہتی ہے تاکہ عوام کو بتایا جائے کہ ان کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے وہ بالادست قوتیں یا فوج کرا رہی ہے۔ وہ دراصل وہی پرانا حربہ اس بار بھی آزمانا چاہتے ہیں۔
نواز شریف اور ان کے حواریوں کو داد دیں کہ یہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کا پورا پورا رنگ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ سب کام کرتے ہیں جو سیاسی طور پر حرام ہیں لیکن چونکہ وہ کام نواز شریف کر رہے ہیں لہٰذا حلال کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔ لندن میں کتنی دفعہ ان کے بھاشن سنے کہ جس نے جنرل مشرف سے ہاتھ بھی ملایا‘ اسے بھی اپنی پارٹی میں نہیں لائیں گے اور پاکستان لوٹتے ہی جنرل مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو سیالکوٹ سے ٹکٹ دیا۔ پھر امیر مقام‘ جسے جنرل مشرف کا پستول بدل بھائی کہا جاتا ہے، کو واپس لیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ جب زرداری کو خفیہ پیغام بھیجا کہ چھوڑیں ربانی یا سلیم مانڈوی والا کو‘ مل کر مشاہد حسین کو چیئرمین سینیٹ بناتے ہیں۔ حالانکہ خود کالا کوٹ پہن کر گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے جبکہ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو جی ایچ کیو بھیجا تھا کہ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کے نئے ریکارڈز قائم کریں۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ نواز شریف کب آمریت یا فوجی بالادستی کے خلاف لڑ رہے تھے؟ نواز شریف نے کب فوجی قیادت کے اقدامات کے خلاف سٹینڈ لیا‘ جب وہ وزیراعظم تھے؟ تاکہ ہمیں پتا چلتا کہ آج سیاہ دن ہو گا کیونکہ بالادست قوتوں کا چیئرمین سینیٹ جیت گیا ہے؟ پہلے جب مشاہد اللہ خان کو کہا گیا کہ وہ فوجی قیادت پر دھرنے کی ذمہ داری ڈالیں اور پھر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا اور لینے والے اور کوئی نہیں نواز شریف خود تھے۔ پرویز رشید کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔ استعفیٰ لینے والے پھر نواز شریف ہی تھے۔ طارق فاطمی بھی ڈان لیکس میں سائیڈ پر کیے گئے۔ یہ سب کام نواز شریف کے دستخطوں کے بغیر نہیں ہو سکتے تھے۔ پھر نواز شریف نے کب مزاحمت کی کہ آج وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک میں بالادست قوتوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں؟ جنرل راحیل کو وہ برابر والی کرسی پر بٹھاتے تھے۔ وہ خود اپنی مرضی سے‘ خفیہ ملاقاتوں اور بہت ساری سفارشوں کے بعد‘ جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کو آرمی چیف کے طور پر لائے۔ اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی لائے۔ اگر آپ پھر بھی ایسے جنرل نہیں لا سکتے کہ جو آپ کی مرضی پہ چلیں تو پھر کس کا قصور ہے؟ نواز شریف شاید وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے جنرل آصف جنجوعہ، جنرل کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل مشرف، جنرل بٹ، جنرل راحیل، جنرل باجوہ جیسے آرمی چیف یا خود لگائے یا ان کے دور میں لگائے گئے... اور ہر ایک سے ان کو شکایت رہی... یا ان جرنیلوں کو ان سے شکایت رہی۔ اگر نواز شریف چاہتے تھے کہ جنرل ان کے ماتحت رہیں تو پھر انہیں اپنا گھر صاف رکھنا چاہیے تھا۔ انہیں وہ آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے ڈسمس نہیں کرانی چاہیے تھی کہ وزیراعظم ہر دفعہ وقفہ سوالات میں ایم این ایز کے سوالات کے جوابات دیا کرے گا۔ نواز شریف اتنی جرأت نہ کر سکے کہ وہ اسمبلی کے فلور پر کسی ایم این اے کے سوال کا جواب دے سکیں اور آج لگتا ہے کہ پارلیمنٹ گر پڑی ہے کیونکہ نواز شریف وزیراعظم نہیں رہے۔ حاصل بزنجو بھول گئے کہ جس وزیراعظم کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں ہوں گی‘ اس کی فوج عزت نہیں کرے گی۔
جس پارلیمنٹ کا منہ کالا کرنے کی بات حاصل بزنجو نے کی‘ وہ بہت اہم ہے۔ خود نواز شریف چار سال میں دو دفعہ سینیٹ میں گئے اور وہ بھی تب‘ جب بہت احتجاج ہوا۔ وہاں ایک آدھ جگتیں ماریں اور پھر لوٹ کر نہ گئے۔ قومی اسمبلی کا سب کو علم ہے کہ آٹھ آٹھ ماہ تک نہ گئے، کابینہ کے اجلاس چھ چھ ماہ نہ ہوتے تھے۔
ویسے حاصل بزنجو کو اس وقت کیوں یہ غصہ نہ آیا جب ایک عدالتی مفرور اسحاق ڈار، منی لانڈرنگ کیس میں ایف بی آئی کے نیویارک میں ملزم، لندن میں کریڈٹ کارڈ فراڈز کا بدنام زمانہ کردار، سندھ ہائی کورٹ سے عدالتی سزا یافتہ ایک سابق پولیس افسر کو سینیٹ کی ٹکٹیں دی گئیں؟ ایسے بدنام زمانہ کرداروں سے پارلیمنٹ کا منہ روشن ہو رہا تھا کہ اب کالا ہوگیا ہے؟
پارلیمنٹ کو نیچا نواز شریف نے ہی دکھایا ہے۔ انہوں نے کبھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ روز وزراء غیر حاضر ہوتے تھے، رضا ربانی تو وزراء کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر استفعیٰ دے کر چلے گئے تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق روز خالی ہائوس کی صدارت کرتے۔ کورم تک پورا نہیں ہوتا تھا۔ اگر نواز شریف پارلیمنٹ کو سپریم سمجھتے تو وہ ہائی پروفائل منی لانڈرنگ کے ملزمان اور جرائم پیشہ بیک گرائونڈ رکھنے والے لوگوں کو سینیٹر نہ بنواتے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ سے طویل غیرحاضر رہتے۔ نواز شریف پارلیمنٹ صرف وزیراعظم بننے جاتے ہیں‘ اس سے جڑے فرائض پورے کرنے نہیں۔ اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ سے برطرف اور نااہل کردہ کو دوبارہ پارٹی سربراہ بنانے کا قانون پاس کیا۔ پارٹی قیادت دونوں بھائی ایک دوسرے کو پاس کرتے رہتے ہیں، کوئی اہل بندہ نواز لیگ کے اندر نہیں رہا۔
اگر میرے دوست حاصل بزنجو کسی وقت اپنی وزارت اور نوکری کی پروا کیے بغیر منجی تلے ڈانگ پھیریں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ پارلیمنٹ کا منہ کالا کس نے کیا!