تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-03-2018

ملتان تین سو دس کلومیٹر

مجھے اس بات کی رتی برابر خوشی نہیں کہ خادم اعلیٰ کے زور زبردستی سے بنائے گئے پراجیکٹ کے ساتھ وہی ہو رہا ہے جو اس عاجز نے اپنے کالم کے ذریعے کئی بار وزیر اعلیٰ کو بتانے کی کوشش کی تھی۔ ایک معمولی سا کالم نویس یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس نے وزیر اعلیٰ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کیونکہ سمجھانے والے جس مرتبے پر فائز ہوتے ہیں یہ عاجز اس مرتبے پر فائز نہیں ہے۔ اٹھائیس ارب روپے کی بربادی پر کم از کم میں تو ہرگز خوش نہیں ہو سکتا کہ یہ پیسے کسی کے باپ کے نہیں تھے‘ ہمارے اور آپ کے تھے۔ ملک پاکستان کے تھے۔ مملکتِ خداداد کے تھے، ان پیسوں کی بربادی پر کسی صورت بھی خوشی منانا‘ خواہ اس میں اپنی انا کی تسکین ہی کیوں نہ ہو‘ کسی پاکستانی کیلئے جائز نہیں۔
ملتان میٹرو کے ساتھ تو کم از کم وہی کچھ ہو رہا ہے جس بارے میں‘ مَیں بارہا نشاندہی کی تھی لیکن تب خادم اعلیٰ پر ملتان میٹرو بنانے کا بھوت سوار تھا‘ سو انہوں نے میٹرو بنا کر دم لیا۔ ستائیس اٹھائیس ارب روپے انہوں نے اپنی ضد کی نذر کر دیئے لیکن پراجیکٹ تقریباً تقریباً فلاپ ہے۔ کم از کم آج کے دن تک تو فلاپ ہے اور میں یہ بات سنی سنائی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ۔میں نے اپنے اس تیقن پر بیس روپے‘ جی ہاں! مبلغ بیس روپے سکہ رائج الوقت خرچ کئے ہیں‘ تب یہ بات اتنے یقین سے کہہ رہا ہوں۔ میں نے بیس روپے کا پلاسٹک والا سکہ خرید کر بذات خود میٹرو میں سفر کیا ہے، تب یہ بات لکھ رہا ہوں۔
میٹرو اور اس کی معاونت کیلئے چلائی جانے والی فیڈر بسوں کی کہانی بڑی دلچسپ اور درد ناک ہے۔ فیڈر بسوں کا جو حال ہے وہ تو میں شہر میں چلتے پھرتے دیکھ ہی رہا تھا۔ میٹرو میرے سر کے اوپر سے گزرتی تھی اس لئے اس کا اندرونی حال ٹھیک سے معلوم نہ تھا اور سنی سنائی پر سو فیصد یقین نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اکثر سنانے والے خود سنی سنائی سنا رہے ہوتے تھے لہٰذا ان کی بات کو سچائی کے اس مرتبے پر نہیں رکھا جا سکتا تھا جو لکھنے کیلئے درکار ہے۔ سو اس بات کو حقیقت کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنے کی غرض سے میں نے خود میٹرو پر سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ نواز کو کہا کہ وہ مجھے چھ نمبر چونگی والے میٹرو سٹیشن پر اتار دے‘ واپسی کیلئے میں اسے فون کر کے بتا دوں گا کہ مجھے کہاں سے لینا ہے۔ اس بات کا میں کئی دوستوں سے پتہ کر چکا تھا کہ میٹرو پر سب سے زیادہ رش (جتنا بھی ہے) کس وقت ہوتا ہے۔ دوستوں نے بتایا کہ ساڑھے دس گیارہ بجے سے لے کر دو اڑھائی بجے تک اور پھر چار بجے سے پانچ ساڑھے پانچ تک نسبتاً زیادہ سواریاں ہوتی ہیں۔ میں میٹرو پر سوار ہوا اور پھر مزے مزے سے درمیان میں اترتا ہوا۔ اگلی بس پکڑتا ہوا۔ سٹیشنوں کا جائزہ لیتا۔ وہاڑی چوک پر جا اترا۔ چھ نمبر چونگی سے وہاڑی چوک تک درمیان میں نو سٹیشن آئے۔ اس پورے روٹ کے اکیس سٹیشن ہیں‘ جن میں سے میں نے گیارہ کے درمیان سفر کیا اور واپسی پر نو نمبر چونگی پر آ گیا۔
میں اس دوران تقریباً ہر سٹیشن پر بس رکنے کے بعد اترنے اور سوار ہونے والے نئے مسافروں کا نہ صرف اندازہ لگاتا رہا بلکہ بس چلنے کے بعد باقاعدہ سواریاں گنتا رہا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ صورتحال نہایت ہی مایوس کن تھی۔
ملتان میٹرو کیلئے غالباً پینتیس بسیں موجود ہیں۔ یہ میں اپنی یادداشت کے زور پر کہہ رہا ہوں‘ جو زیادہ اچھی بھی نہیں اور مجھے اس کا ادراک بھی ہے۔ ایک دوست نے‘ جو میٹرو بس سے متعلق ہے‘ بتایا کہ جمعہ اور ہفتہ والے دن سواریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ سو میں نے ہفتے والا دن منتخب کیا تاکہ زیادہ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جا سکے۔ جمعہ اور ہفتہ والے دن بتیس سے پینتیس بسیں چلتی ہیں جبکہ دیگر ایام میں تقریباً پچیس بسیں چلتی ہیں۔ ان پچیس بسوں کو چلانے کے لئے سو فیڈر بسیں بطور ہیلپر اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی ہیں۔ پچیس بسوں کو بھرنے کیلئے سو بسیں چلانے والی صورتحال پر ایک سرائیکی محاورہ بڑا مناسب ہے لیکن یہ محاورہ ایسا مناسب نہیں کہ لکھا جا سکے۔ ایسے محاورے صرف سینہ بہ سینہ چلنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بلا مسافر بسیں ایک پنجابی لفظ کے شہر میں ''لُور لُور‘‘ پھر رہی ہیں۔
میں نے گزشتہ سے پیوستہ روز میٹرو بسوں اور ان کے سٹیشنوں پر تقریباًً ایک گھنٹے سے زائد وقت گزارا۔ اس دوران بارہا مسافروں کو گنا۔ سٹیشن ابھی تک بفضل خدا صاف ستھرے تھے۔ لفٹیں بھی چل رہی تھیں۔ ایسکیلیٹر بھی سب جگہ ٹھیک تھے۔ خلاف توقع بسیں بھی نہ صرف صاف تھیں بلکہ اعلان کردہ اوقات کار کے مطابق آ جا رہی تھیں، ٹکٹنگ کا نظام بالکل ٹھیک، بلکہ شاندار تھا۔ سٹیشنوں کے اندر کا موسم بھی ابھی بہت مناسب تھا۔ مسافروں کے اندر جانے اور باہر آنے والے الیکٹرانک دروازے بھی بہترین طریقے سے چل رہے تھے۔ دروازوں اور دیگر جگہوں پر کھڑا عملہ بھی مناسب طریقے سے لوگوں کی رہنمائی کر رہا تھا۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر عملے کا رویہ بھی خوشگوار تھا۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن سواریاں نہیں تھیں۔ میرا مطلب ہے جتنا اندازہ لگایا گیا تھا اس سے کہیں کم مسافر تھے۔ یہ وہ اصل خرابی ہے جس بارے ہمیں شروع سے ہی اندیشہ تھا اور ہمارا یہ اندیشہ درست ثابت ہو رہا تھا۔
میں نے مسافروں کو تقریباً ہر سٹیشن پر اترنے اور چڑھنے کے بعد گنا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو مصروف اوقات میں اور ہفتے والے دن‘ جو مصروف ترین دو دنوں میں سے ایک تھا‘ بس کی سیٹیں ایک بار بھی فل نہ ہوئیں۔ میری گنتی کے مطابق بس میں تقریباً چوالیس مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ بس کی کل استعداد سو مسافروں سے زیادہ ہے یعنی بیٹھے اور کھڑے مسافر ملا کر ایک بس میں سو سے زیادہ مسافروں کی گنجائش ہے۔ ان میں سے چوالیس بیٹھ کر اور چھپن سے زیادہ مسافر کھڑے ہو کر سفر کر سکتے ہیں۔ میں نے گنتی نہایت احتیاط سے کی کہ کہیں کوئی غلطی نہ رہ جائے۔ میں نے یہ گنتی تقریباً چار پانچ بسوں میں سولہ سترہ سٹیشنوں پر کی۔ کم سے کم مسافر انیس اور زیادہ سے زیادہ مسافروں کی تعداد سینتیس نکلی۔
حکومتی سروے اور اس کے نتیجے میں زبردستی میٹرو بس منصوبہ بناتے وقت کہا گیا تھا کہ ملتان میٹرو پر ترانوے ہزار مسافر روزانہ سفر کریں گے لیکن آج اس منصوبے کو مکمل ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ ملتان میٹرو کا افتتاح گزشتہ سال چوبیس جنوری کو تب کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا۔ آج قریب چودہ ماہ گزر جانے کے باوجود یہ منصوبہ عوام کی وہ توجہ حاصل نہیں کر سکا‘ جو حکومتی اندازوں میں بتایا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ملتان میٹرو پر روزانہ سفر کرنے والوں کی تعداد کسی صورت بھی تیس پینتیس ہزار سے زیادہ نہیں۔ یعنی پراجیکٹ کیلئے تخمینہ لگائی گئی تعداد کا تقریباً ایک تہائی۔
اس کے علاوہ ابھی تک روٹ کے نیچے کی ساری خرابیاں جوں کی توں ہیں۔ تخت لاہور میں بنی میٹرو کی خرابیاں دور کرنے پر تو دوبارہ اربوں روپے خرچ کر دیئے گئے کہ لاہور والوں کی تکلیف خادم اعلیٰ کی اپنی تکلیف ہے لیکن ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ صرف فیروز پور روڈ پر بعد میں بنائے جانے والے فلائی اوورز کی لاگت ہی اربوں روپے میں ہے۔ اِدھر یہ حال ہے کہ پندرہ بیس کروڑ سے معاملات کسی حد تک درست ہو سکتے تھے مگر ...
خادم اعلیٰ کی ساری مہربانیاں ٹھوکر نیاز بیگ سے چند کلومیٹر آگے ختم ہو جاتی ہیں جبکہ ملتان وہاں سے تین سو دس کلو میٹر دور ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved