تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-03-2018

ایک صحرائی بگولا

صحرائی بگولے کا عربی اور اصلی نام محمد بن سلمان ہے‘ انگریزی مخفف ہے MBS۔ سعودی عرب کا 32 سالہ ولی عہد سات مارچ کو تین دن کے مختصر سرکاری دورہ پر اپنا روایتی عرب لباس پہن کر آیا تو برطانوی حکومت نے نہ صرف سرخ قالین بلکہ دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ اُنہوں نے ملکہ معظمہ کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تو عرب کھانوں کے ساتھ حلال گوشت سے پکے ہوئے کھانوں کا بالخصوص اہتمام کیا گیا۔ لندن میں لاتعداد اشتہاری بورڈ آویزاں کئے گئے جن پر صرف ایک سطر لکھی گئی تھی۔ ''آنے والا مہمان سعودی عرب میں تبدیلی لا رہا ہے‘‘۔ یہ سرکاری دورہ اُس مشکل وقت میں ہو رہا ہے جب برطانیہ یورپ کی مشترکہ منڈی (یعنی اپنے پرانے گھر) کو چھوڑ کر اَن دیکھے سمندروں میں اپنی خود مختاری کے جہاز کے بادبان کھول کر اک نیا پُرخطر سفرشروع کرنے والا ہے۔ اب برطانیہ کو یورپی برادری کی ہمہ گیر سرپرستی کے بجائے اپنے زورِ بازو پہ بھروسہ کرنا ہوگا اور اس منظر نامہ میںبرطانیہ کے سعودی عرب سے‘ پہلے سے زیادہ قریبی تعلق اور مزید گہری دوستی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ انگریزوں کو اپنے مہمانوں کا دل جیتنے کا فن آتا ہے۔ جس جس سڑک سے عرب شہزادے نے گزرنا تھا اُسے سعودی پرچموں سے اس طرح سجا دیا گیا تھا کہ جس طرف بھی دیکھیں برطانیہ کی برفیلی ہوائوں میں وُہ پرچم (جن کے درمیان مسلمانوں کا پہلا کلمہ نمایاں طور پر لکھا ہوتا ہے) لہراتے نظر آتے۔ مجھے اپنے قارئین کو سعودی عرب کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں چونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ سعودی عرب دُنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ دُنیا بھر میں تیل کے جتنے ذخائر کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے‘ اُس کا قریباً ایک چوتھائی (22فیصد) سعودی عرب کے ریگستانوں میں دفن ہے۔ جب سے سر زمین حجاز تاریخ کے نئے دور میں داخل ہوئی ہے‘ وہ آئین نَو سے ڈرنے اور طرز کُہن پر اَڑنے کے میدان میں دُوسرے تمام قدامت پسند ملکوں پہ بازی لے گئی ہے۔ اتنا جامد ساکت نظام ہے کہ زمین ہل پائے مگر کیا مجال کہ یہ گل محمد اپنی جگہ سے ذرا بھی سرکے۔ خواتین پر ہر طرح کی قدغن اُن کے کار چلانے پر پابندی سے شروع ہو کر سیاسی آزادیوں اور مروجہ انسانی حقوق کے فقدان پر ختم ہوتی ہے۔
سعودی عرب کو دورِ جدید میں لانا، ضروری اصلاحات کرنا، بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو مرمت اور رفو گری سے قابل استعمال بنانا، اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنا، یہ کام اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہیں۔ قفل پرانے ہو جائیں تو زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور پھر اُنہیں کھولنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی صورت حال قدیم اور ترقی کی دُشمن روایات کی ہو جاتی ہے۔ جو ہاتھ کا ہتھیار ہونے کے بجائے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ تیل کی پیداوار اور تیل کی تجارت سے ارب پتی اور کھرب پتی افراد کا طبقہ اُبھرا تو ہر طرح کی مالی بدعنوانی (عرف عام میں کرپشن) کی لعنت زمین کی سطح پر اُگنے والی گھاس سے بڑھتی بڑھتی تن آور درخت بن گئی۔ نومبر 2017ء میں ولی عہد محمد بن سلطان کے نادر شاہی حکم کی تکمیل میں نہ صرف بڑی تعداد میں امیر ترین لوگ (Ritz-Carltoai) بلکہ شاہی خاندان کے افراد بھی ایک بڑے شاندار ہوٹل میں اُس وقت تک قید رکھے گئے جب تک وہ لوٹ مار سے حاصل کردہ اربوں ڈالر حکومت کو واپس کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ سعودی عرب میں اب کون سی نئی تبدیلیاں آئی ہیں اور کون سی آنے والی ہیں؟ اشیائے صرف پر پہلی بار VAT(Value Added Tax) لگایا گیا تاکہ حکومت اِس ٹیکس سے حاصل کردہ آمدنی کو عوامی فلاح و بہبود کے بڑے منصوبوں پر خرچ کر سکے۔ سال رواں کے آخر تک خواتین پر کا چلانے کی پابندی ختم کر دی جائے گی۔ بحیرہ قلزم کے کنارے 500 بلین ڈالر خرچ کر کے دُنیا کا جدید ترین شہر آباد کرنے کی بنیاد رکھی جائے گی۔
ایک بار تبدیلی کی ہوا چل پڑے تو پھر تمام بوسیدہ اور خزاں آور پتے باری باری جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ کے دانشور حلقے ولی عہد کے سر پر تبدیلی کے اس عمل کو شروع کرنے کا سہرا باندھتے ہیں۔ اس کی ہمت، جرأت اور فراست کی بے حد تعریف کرتے ہیں‘ جس کا وہ بجا طور پر مستحق ہے۔ مگر دیانتداری سے اُن تمام بڑی رکاوٹوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو سنگ گراں بن کر ولی عہد کے راستے کو دُشوار گزار بناتی ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ (سلمان) کی عمر 82 سال ہے۔ سعودی شہزادوں کی تعداد درجنوں میں نہیں‘ سینکڑوں میں ہے۔ بادشاہ کے لئے اپنے جانشین کا انتخاب کوئی آسان کام نہ تھا مگراس نے محمد بن سلمان جیسے کم عمر نوجوان کو ولی عہد بنا کر ایک ایسا فیصلہ کیا جس سے اس ریاست کے شب و روز بدل گئے۔ مثال کے طور پر سڑکوں پر مذہبی پولیس کا نظر نہ آنا‘ ایک نئے دور کے طلوع ہونے کی ابتدائی علامت ہے۔ اس نئے دور میں تحمل، رواداری اور زیادہ برداشت دکھائی جائے گی۔ خطرہ یہ ہے کہ نیا معاشرتی اور سماجی نظام جدید (یعنی ماڈرن) ہونے کے شوق میں مغرب کی اندھا دھند تقلید شروع نہ کر دے۔ یہ کالم نگارکئی بار لکھ چکا ہے کہ جب کوا ہنس کی چال چلنے (یعنی اس کی نقل کرنے) کی کوشش کرتا ہے وہ نہ صرف نئی چال سیکھنے میں ناکام رہتا ہے بلکہ (ستم بالائے ستم) اپنی چال بھی بھول جاتا ہے۔ میں نے یہ مثال ترکی کے حوالے سے دی ہے۔ پچھلی صدی میں ترکی میں خلافت ختم ہوئی اور مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ایک جدید دور کا آغاز ہوا مگر بڑا المیہ یہ رُونما ہوا کہ (ایک انگریزی محاورہ کے مطابق) ترکی کی نئی قیادت نے نہانے کے ٹب کا استعمال شدہ گدلا پانی پھینکا تو اس کے ساتھ (بدقسمتی سے) اس بچے کو بھی دور پھینک دیا جس کو اس ٹب میں غسل دیا گیا تھا۔ جدیدیت کا مطلب مغربیت ہرگز نہیں اور سعودی عرب کے تمام خیر خواہوں کی یہی دُعا ہے کہ سعودی عرب کا نیا حکمران اور اس کے ساتھی اپنی قوم کو مغرب زدہ ہونے سے بچائیں۔ میں کئی بار پہلے بھی ان کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان اُٹھانے کی بجائے سفالِ پاک سے اپنا جام (یعنی اپنا نظام) بنانا چاہیے۔
نپولین کی انگریزوں کے بارے میں رائے قطعاً اچھی نہ تھی۔ وہ انہیں دکانداروں (یعنی چھابڑی فروشوں اور ریڑھیاں لگانے والوں) کی قوم کہتا تھا۔ ضروری نہیں کہ یہ کالم نگار ہر معاملہ میںنپولین سے اتفاق کرے مگر اس سچائی کو ماننا پڑے گا کہ انگریز اپنے تجارتی مفاد کی خاطر ہر پاپڑ بیل سکتے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد سے تین دنوں کے اندر جن تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے ان کی کل مالیت کا تخمینہ ڈیڑھ بلین پائونڈ لگایا جاتا ہے۔ سعودی حکومت جتنی بڑی تعداد میں اپنے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو برطانیہ اور امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظائف دیتی ہے‘ اس کی دُنیا بھر میں کوئی مثال نہیں دی جا سکتی ۔
آپ یقین کریں کہ اب سعودی عرب کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ سعودی عرب میں خلیل خان تو بہت سے ہوں گے اور فاختائوں کی تعداد بھی کم نہ ہو گی مگر اب خلیل خان اتنے بڑے مالی بوجھ کے نیچے دب گیا ہے کہ وہ فاختہ اُڑانے کی عیاشی (اور وہ بھی ہمہ وقت) کا ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت نے لغات کھول کر کفایت شعاری کا لفظ غور سے پڑھا ہے اور اس کا مطلب سمجھنے کے تکلیف دہ مگر ناگزیر عمل کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا ہے۔ سعودی عرب کی تیل کی پیداوار دُنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی Aramco کے ہاتھ میں ہے۔ محمد بن سلطان نے اس کمپنی کے پانچ فیصد حصہ جات فروخت کر کے دو ٹریلین (دس ہزار بلین) ڈالر کمانے کا بہادرانہ فیصلہ کیا ہے۔ ولی عہد کے ترکش میں جو تیر ہیں‘ ان میں بحیرہ قلزم میں واقع جزیروں کو سیر و تفریح کے جدید ترین مقامات میں تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ولی عہد نے اس منصوبے کے لیے 63 بلین ڈالر کی رقم مختص کر دی ہے اور اسے پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے برطانوی اور امریکی کمپنیوں سے شرکت کی جو مہم شروع کی ہے‘ برطانوی دورہ اس مہم کا حصہ ہے۔ 
لندن میںیمن میں سعودی فوجی مداخلت اور شہری آبادی پر بمباری کے خلاف اور انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کرنے کے لیے مظاہرے کیے گئے۔ ابھی چند ہفتے پرانی بات ہے کہ ایک بلند پایہ کالم نگار (Al-Shehi Saleh) کو سرکاری کاروبار میں کرپشن کے خلاف لکھنے پر پانچ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ برطانوی وزیراعظم پارلیمان کے ایوان زیریں (دارالعوام) میں سوالوں کا جواب دینے گئیں تو لیبر پارٹی اور گرین پارٹی کے قائدین نے ان کے مہمان کو خوب جلی کٹی سنائیں اور پوچھا کہ انسانی حقوق پامال کرنے والوں کو اُنہوں نے یہ کیوںنہیں کہا کہ وہ مغرب کی طرف پرواز کرنے کی بجائے مشرق کی طرف جائیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved