یہ کتاب بک ہوم نے چھاپی اور قیمت 900 روپے رکھی ہے۔ انتساب اپنی پیاری بیٹی امارا کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں میں طارق ہاشمی‘ عابد سیال‘ کاشف نعمان‘ طاہر اسلم گورا اور نوید صادق ہیں۔ فلیپ نگاروں میں ابوالکلام قاسمی اور سہیل احمد (اداکار) ہیں۔ کتاب میں کل 199 غزلیں ہیں۔
کاشف نعمان کے مطابق : ''ایک عام ادبی محاورے کے مطابق افضال نوید شاعروں کا شاعر ہے۔ اس میں قصور اس کا نہیں‘ اس کی اُفتادِ طبع کا ہے کہ اس نے قبول عام کی آسان اور ہموار شاہراہ کو چھوڑ کر ایک سنگلاخ اور ناہموار راستے کا انتخاب کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس راستے نے افضال نوید کا انتخاب کیا۔ افضال نوید کا کمال یہ ہے کہ اُس نے اس انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا اور منزلوں پر منزلیں مارتا چلا جاتا ہے۔ اُسے جس بنجر زمین میں حرف و معنی کی کاشت کا جاں گسل فریضہ سونپا گیا تھا وہاں اب خونِ جگر کی آبیاری کے نتیجے میں گل ہائے رنگ رنگ کی فصلِ تازہ لہلہاتی نظر آتی ہے‘‘
ابوالکلام قاسمی کی رائے کا آخری حصہ : ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے روایتی ذخیرے کو اپنی تخلیقی قوت میں شامل کر لینا ایک بات ہوتی ہے اور مواد اور ہیئت میں کسی اور کے اثرات سے محفوظ رکھنا دوسری بات۔ افضال نوید دراصل غالب کے اس خیال کے قائل ہیں کہ ع 'اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو‘۔ وہ اپنی شعری روایت کی یافت سے زیادہ بازیافت کے قائل ہیں۔ وہ اپنی ہر غزل میں تازہ کاری کی طرف مائل نظر آتے ہیں‘ جس کی تشکیل ان کے کلام میں بعض اجنبی الفاظ‘ نئی تراکیب اور اچھوتے استعماروں کی مدد سے سامنے آتی ہے۔ موسیقی سے گہری واقفیت نے ان کی شاعری میں نُدرت پیدا کی ہے۔ وہ نہ تو کسی تجربے سے ڈرتے ہیں اور نہ نئے تجربے کے اظہار میں کسی پیش و پس سے کام لیتے ہیں۔ یہی افضال نوید کی شناخت ہے اور یہی روّیہ انہیں دوسرے ہم عصروں سے منفرد اور ممتاز بنائے رکھتا ہے۔
طارق ہاشمی لکھتے ہیں ''کائنات کی پراسراریت کی تفہیم میں جہاں مکانی پردے حائل ہیں وہاں زمانی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ شام و سحر اور ماہ و سال کے مخصوص ریاضیاتی دائرے میں اسیر انسان قرنوںکو محیط مسائل و معاملات کا ادراک کیسے کر سکتا ہے۔ تاریخ میں کیا کچھ ہُوا اور مستقبل میں کیا کچھ ہونے جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب حدودِ علم میں ایک حد تک تو ہے لیکن اس سے ماروا بھی اتنا کچھ ہے کہ محض حیرت ہی اس کا جواب دے سکتی ہے‘‘
عابد سیال کے مطابق: ''معاصر غزل میں اپنا راستہ بنانا آسان نہیں۔ اس میں بہت کچھ نیا ہے‘ بلکہ اس سے زیادہ نئے کا التباس ہے۔ نیا شاعر قادر الکلامی اور ہنر وری کے باریک فرق کا ادراک کرنے کی زحمت اُٹھانے سے گریزاں ہے۔ اسے معنی آفرینی اور مضمون تازہ سے زیادہ قدرت کلام کا لپکا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شاعر معنی کی طرف متوجہ نظر آئے تو اُس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ شاعری غزل کا رس ڈھونڈنے والے قاری کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گی۔
افضال نوید کا یہ غالباً پانچواں مجموعہ غزل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے پہلے مجموعے ''ترے شہر وصال میں‘‘ کا دیباچہ لکھ کر اس کا اعتراف کیا تھا بلکہ میں نے اپنے تئیں غزل کے جن پانچ سات عمدہ شاعروں کی فہرست بنا رکھی ہے‘ افضال نوید اس میں بھی شامل ہیں۔ پہلے مجموعے کے کم و بیش بعد سے ہی موصوف نے مشکل گوئی اور پیچیدہ بیانی کو شعار بنا لیا تو میں نے اس کا بھی نوٹس لیا تھا۔ تاہم‘ میرا کہا ہُوا کوئی سند بھی نہیں ہے کیونکہ میں تو اپنی ذاتی رائے ہی دیا کرتا
ہوں۔ میں نے اس کتاب پر نظر دوڑاتے ہوئے سب سے پہلے ان منتخب اشعار پر غور کیا ہے جو ان معزز مضمون نگاروں نے اپنی تحریر میں بطور خاص درج کئے ہیں اور جن کی تعداد کوئی 117 بنتی ہے۔ قصہ مختصر ان اشعار میں وہ بیشتر خوبیاں موجود تھیں جو ان نگارشات میں بیان کی گئی ہیں۔ تاہم‘ میرا تقاضا اکثر اوقات بلکہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ شعر میں شعریت بھی لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ الفاظ‘ اور الفاظ کا گورکھ دھندا قاری کو مرعوب تو کر سکتا ہے‘ مسرور یا مطمئن نہیں۔ اگر تو شاعر صرف اپنے لیے یا زیادہ سے زیادہ‘ چند مخصوص قارئین کے لیے شعر کہہ رہا ہے تو وہ الگ بات ہے‘ لیکن شاعر جب باقاعدہ کتاب چھپوا کر مارکیٹ میں پھینکتا ہے تو وہ ایک چیلنج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عام قاری کے لیے بھی ہوتی ہے اور میں خود ایک عام قاری ہی کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ غزل کے بارے میں جو باتیں میں بالعموم کرتا رہتا ہوں اُنہیں یہاں دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور شاعر اگر اپنے کلام سے خود مطمئن ہے تو پھر بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔ تاہم قاری حیات و کائنات کی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کے لیے غزل کی کتاب نہیں اُٹھاتا‘ اس کا پُورا پُورا حق ہے کہ وہ اس سے کماحقہ لُطف بھی اُٹھائے۔ بھلے ہی شعر میں لاکھوں خوبیاں موجود ہوں‘ لیکن اگر وہ شعر بنا نہیں ہے تو اس کا جواز ہی مفقود ہے۔ میں اپنی ناسمجھی سے کبھی انکار نہیں کرتا‘ بلکہ ہو سکتا ہے کہ میرے دل و دماغ کا ذائقہ ہی اتنا بگڑ چکا ہو کہ میرے اندر شعر کی شناخت ہی باقی نہ رہی ہو کہ آخر عمر کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں کہ ہوتے ہوتے آدمی بالکل ہی ازکار رفتہ ہو جاتا ہے۔ تاہم ان غزلوں کو بجاطور پر غیر ہموار اور سنگلاخ قرار دیا گیا ہے تو مذکورہ بالا انتخاب سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :
اُجلے سمندروں کا شغب آئنے میں تھا
جاگا تو ایک طائر شب آئنے میں تھا
کچّا بھی ہو جو دھاگا تو سیّارہ باندھ لوں
اپنی کشش سے قریۂ مہ پارہ باندھ لوں
پھینکوں شعاع ِ سر مری مشعل سے جل اُٹھے
قندیلِ خوابِ ازمنہ اوجھل سے جل اُٹھے
لایا ہوں میں نایافت سے جاں پر نہ کھُلے گی
جادو کی یہ چڑیا ہے دُکاں پر نہ کھُلے گی
منّت عُود سے اٹھا پھر میں
اپنے نابُود سے اٹھا پھر میں
جو شب بھر ابوگی کا نڑا ہو گا
سحر دم زیور افلاک بھیروں سے جڑا ہو گا
سانسوں میں آ مہکتی ہے ٹھنڈک زمین کی
رکھتا ہوں گھر میں جرعح ٔ خس کو نکال کے
میں ہمت کر کے یہ غزلیں پڑھوں گا اور یقیناً ان میں سے میرے ڈھب کے اشعار بھی نکلیں گے جو پیش خدمت بھی کروں گا کیونکہ آدمی غلطی سے ہی سہی عام فہم شعر بھی کہہ جاتا ہے‘ اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے بدذوقی کے بھی کچھ نمبر ملنے چاہئیں۔ یار زندہ‘ صحبت باقی۔
آج کا مطلع
میں نے پُوچھا تھا ہے کوئی اسکوپ
مُسکرا کر کہا گیا نو ہوپ