انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ اِس دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی یعنی یہ کہ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے، دینا پڑتا ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ انگریزی کی اِس کہاوت کے دائرے میں آتا ہے۔ اور لین دین کے معاملات میں تو خیر فری لنچ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جو ادارے اپنی پراڈکٹ مفت تقسیم کرتے ہیں وہ بھی اِس کے عوض بہت کچھ وصول کر رہے ہوتے ہیں۔
فری لنچ کی بات ہمیں ایک جاپانی خاتون کی ''دریا دِلی‘‘ کی بدولت یاد آئی۔ خاتون نے خالی جیب ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والے افراد کا پیٹ بھرنے کا ایک اچھا طریقہ وضع کیا ہے۔ 33 سالہ سیکئی کوبایاشی نے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ''میرائی شوکوڈو‘‘ کے نام سے ریسٹورنٹ کھولا ہے۔ اس ریسٹورنٹ میں کھانا انتہائی معقول نرخ پر دستیاب ہے۔ اور جن کی جیب خالی ہو وہ بھی خالی پیٹ نہیں جاسکتے۔ سیکئی کوبایاشی نے ''پیکیج‘‘ رکھا ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ پہلے کھانا کھائے اور پھر ریسٹورنٹ میں پچاس منٹ کام کرے! پیسوں کے بغیر کھانا کھانے والے گاہکوں سے برتن دھونے، کھانوں کے آرڈر لینے اور میزیں صاف کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔
سیکئی کوبایاشی کہتی ہیں ''میں ایک دفتر میں کام کرتی تھی۔ میرا پکایا ہوا کھانا میرے ساتھیوں کو بہت پسند آتا تھا۔ وہ مجھے صرف سراہتے نہیں تھے بلکہ فرمائش کرکے بھی کھانے پکواتے تھے۔ میں نے سوچا قدرت نے ہاتھ میں ذائقہ رکھا ہے تو کیوں نہ ریسٹورنٹ ہی کھول لوں۔ یوں میں نے اس شعبے میں قدم رکھ دیا۔ پھر خیال آیا کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ جن کی جیب خالی ہو وہ بھی میرے ریسٹورنٹ سے خالی پیٹ نہ جائیں۔‘‘
جاپانی واقعی بڑے مہذب ہوتے ہیں۔ اُن کے ہاں ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ ہر معاملے میں کہیں نہ کہیں خیر کا پہلو ہونا چاہیے۔ جاپانی کاروبار بھی کرتے ہیں تو بہبودِ عامہ کا تصور ذہن سے نہیں مِٹتا۔ اب سیکئی کوبایاشی ہی کو دیکھیے۔ پیسہ کمانے کے لیے ریسٹورنٹ کھولا ہے مگر پریشان حال افراد کا پیٹ بھرنے کا خیال بھی ذہن میں راسخ ہے۔ ویسے سیکئی کوبایاشی نے یہ تصور بھی ذہن نشین رکھا ہے کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔ ٹھیک ہے زر نہ سہی، زر کا متبادل سہی! یعنی بارٹر سسٹم کے احیاء کی کوشش کی گئی ہے۔ مال کے بدلے مال، پیٹ بھر کھانے کے بدلے اُسی کے بقدر محنت۔ ع
کیا خوب سَودا نقد ہے، ''اِس ہاتھ لے، اُس ہاتھ دے!‘‘
سیکوئی کوبایاشی نے جو طریق اپنایا ہے وہ منفرد دکھائی دیتا ہے مگر منفرد ہے نہیں۔ جب ایک بار یہ طے ہوگیا کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں تو پھر یہ بھی طے ہوگیا کہ ہر معاملے میں فریقین ٹکر کی معاملت کریں گے۔ اور دنیا بھر میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے میں معاونت کرنے والوں کی کمی نہیں اور اُصول وہی ہے۔ پیٹ بھر کھاؤ اور پھر محنت کے ذریعے بھگتان کرو۔
عالمی سیاست کی فوڈ اسٹریٹ میں ایسے ریسٹورنٹس کی کمی نہیں جو خالی جیب اور بھوکے پیٹ داخل ہونے والوں کو پیٹ بھر کھلانے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اِس کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو سیکئی کوبایاشی کے ریسٹورنٹ میں ہوتا ہے یعنی جتنا کھایا ہے اُس کے بقدر کام کروِ، ریسٹورنٹ کی خدمت انجام دو۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں نے اپنی اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق ایسے ''خیراتی‘‘ ریسٹورنٹس کھول رکھے ہیں جہاں بھوکی ریاستوں کو جی بھر کے کھانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ جب تک پیٹ مکمل طور پر بھر نہیں جاتا، کھانا دیا جاتا رہتا ہے۔ مال مفت دل بے رحم کے مصداق کھانے والے کھاتے رہتے ہیں۔ پیٹ بھر جانے پر بھی یہ سلسلہ نیت کے بھر جانے تک جاری رکھا جاتا ہے۔ کھلانے والوں کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ کوئی جب تک کھانا چاہے کھانے دیا جائے۔ جو جتنا زیادہ کھائے گا اُسے اُتنا ہی زیادہ بھگتان کرنا پڑے گا!
امریکا، روس اور یورپ کی بڑی قوتوں نے بوفے لگا رکھا ہے۔ جو بھی عالمی سیاسی فوڈ اسٹریٹ میں داخل ہو جائے اُسے لبھانے اور زیادہ سے زیادہ کھانے کی تحریک دینے والی ڈِشیں موجود ہیں۔ آئیے، کھائیے اور پھنس جائیے!
ایک پرانی داستان کا مشہور جملہ ہے ''ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے!‘‘ خالی جیب کسی بھی بڑی طاقت کے ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے یعنی دنیا اُنہیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہے! بوفے سے بھرپور لذت کشید کرنے والوں سے ریسوررنٹ چلانے والے سبھی کچھ کشید کرلیتے ہیں، ''پھر اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ والا کیفیت پیدا ہو رہتی ہے!
عالمی سیاسی فوڈ اسٹریٹ میں پاکستان نے بھی خیر سے کئی بار شِکم سَیر ہوکر کھایا ہے اور اِس کے بعد جی بھر کے بھگتان بھی کیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے ہماری قیادتوں کو کئی بار لبھایا ہے اور یوں لبھایا ہے کہ بہت کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ افغانستان کی مثال بہت واضح ہے۔ پہلے ہمیں گاجر دکھائی گئی اور پھر چھڑی۔ پیٹ بھر کھانے کے بعد بھگتان کی باری آئی تو افغانستان ہمارے کھاتے میں لکھ دیا گیا۔ بھگتان چونکہ کچھ زیادہ تھا اس لیے مزید کھانے کو بھی ملا! اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ پھر ہم نے یورپی طاقتوں کے ریسٹورنٹس میں بھی کچھ دیئے بغیر پیٹ بھرنے کی پالیسی اپنائی اور جواباً اُن کے لیے بھی خدمات انجام دینے لگے۔ سیکئی کوبایاشی کے ریسٹورنٹ کے برعکس کھانے کے بعد کام کرنے کا سلسلہ محض برتن دھونے اور میز صاف کرنے تک محدود نہ رہا بلکہ ہمارے قائدین تو خدمات کا دریا بہانے پر تُل گئے!
سڑک کے کنارے کسی خیراتی ادارے کی طرف سے چلایا جانے والا دسترخوان ہو، کسی خاتون کے زیر انتظام کوئی ریسٹورنٹ یا پھر عالمی و علاقائی طاقتوں کے زیر اہتمام کام کرنے والے عالمی سیاسی فوڈ اسٹریٹ کے ریسٹورنٹ، کہیں بھی کچھ مفت نہیں۔ جو کچھ بھی کھانے کو ملے گا اُس کے بدلے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ اور جو کچھ دینا پڑے گا وہ کھائے پیے کی مالیت سے اچھا خاصا زیادہ ہوگا۔ سبھی کو یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے کہ اگر کچھ دیئے بغیر کچھ کھانا ہے تو کتنا کھانا ہے۔ پیٹ جتنا زیادہ بھرا جائے گا اُس کے عوض کام اُتنا ہی کرنا پڑے گا۔ عالمی سیاسی فوڈ اسٹریٹ کا ہر بوفے انتہائی اشتہا انگیز ہوتا ہے۔ سامنے طرح طرح کی ڈِشیں ہوں تو جذبات پر قابو نہیں رہتا، ہاتھ رکتا نہیں اور پیٹ بھرتا نہیں۔ اور پیٹ بھرتا ہے تو بھر جائے، نیت بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ جذبات کی رَو میں بہہ نکلنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بعد میں ایک مدت تک متعلقین کی خدمت گزاری میں خود کو کھپانا پڑتا ہے۔