یکم مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سٹیل کی صنعت کے بڑے سرمایہ داروں سے میٹنگ کے بعد سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدت پر 25 اور 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ دیا۔ اس اعلان نے نہ صرف یورپ، جاپان اور چین کے حکمرانوں میں کھلبلی مچا دی ہے بلکہ عالمی تجارت اور سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے لئے ایک سنگین خطرہ بھی پیدا کر دیا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کی مسلسل صنعتی اور اقتصادی زوال پذیری سے امریکی مزدوروں میں بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے اور عام لوگوں کی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مسائل کو اپنی صدارتی مہم میں خوب استعمال کیا تھا اور اس کی بنیاد پر اور کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے امریکی مزدوروں کا ایک بڑا حصہ ٹرمپ سے امیدیں لگا بیٹھا تھا۔ اس کی صدارتی کامیابی میں یہ ایک اہم عنصر ثابت ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریر میں امریکہ کا ان الفاظ میں نقشہ کھینچا تھا ''(امریکہ) زنگ آلود فیکٹریوں کا منظر پیش کرتا ہے جو قبروں کے ٹوٹے ہوئے کتبوں کی طرح ملک بھر میں بکھری پڑی ہیں۔ ہمیں لازماً دوسرے ممالک سے درآمدات کے خلا ف اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ہو گا کیونکہ ان کی وجہ سے ہماری کمپنیاں چوری ہو رہی ہیں اور ہماری ملازمتیں برباد ہو رہی ہیں‘‘۔ لیکن ایک سال تک واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ نے کسی نہ کسی طریقے سے ٹرمپ کو ایسے اقدام کرنے سے روکے رکھا۔ ''اکانومسٹ‘‘ نے اپنے تازہ شمارے کے اداریے میں ٹرمپ کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا کہ ''دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سے عالمی تجارت کا یہ نظام رائج ہوا تھا‘ اس کو اتنا شدید خطرہ کبھی لاحق نہیں ہوا۔ اس اقدام کے نافذ ہونے کے نتیجے میں معاشی و تجارتی توازن اور افہام و تفہیم کی جگہ فوجی طاقت فیصلے کرے گی‘‘۔
12 مارچ کو یورپی یونین کی کمشنر برائے تجارت سسلیا مالمسٹوم نے ٹرمپ کے اس بیان کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ ''ہم اس تجارتی بھینسے کے جبر پر لرزیں گے نہیں‘‘۔ یورپی یونین نے امریکہ کی موٹر سائیکلوں سے لے کر مونگ پھلی تک کی درآمدات پر جوابی ٹیکس لگانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس پر رد عمل میں ٹرمپ نے ٹویٹ میں جرمن اور یورپی کاروں پر پابندی لگانے کی دھمکی دے دی۔ تجارتی جنگ کا یہ خطرہ موجود رائج اقتصادی نظام کے نامیاتی بحران کی شدت کی غمازی کرتا ہے۔ اگر ہم تاریخی حقائق کا جائزہ لیں تو سچ یہی ہے کہ سامراجی قوتوں کے درمیان پچھلی صدی میں ہونے والی پہلی (1914-1919ء) اور دوسری (1939-45ء) عالمی جنگیں اسی قسم کی تجارتی لڑائیوں اور نوآبادیات کی لوٹ مار میں حصہ داری کی وجہ سے بھڑک اٹھی تھیں۔ جب دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہو رہا تھا تو امریکی صدر روزویلیٹ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور روسی لیڈر جوزف سٹالن کے درمیان جہاں فوجی جغرافیائی بندر بانٹ اور سفارتی معاہدے ہوئے تھے وہاں سامراجیوں کو بھی ایک نئے عالمی تجارتی نظام کے لئے سٹالن کی مفاہمت کی وجہ سے نیا موقع ملا تھا۔ 1944ء میں امریکہ اور سرمایہ دارانہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں جو اقتصادی معاشی اور معاہدے ہوئے ان کے تحت سامراج کے عالمی معاشی تسلط کو قائم رکھنے کے لئے جہاں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ادارے تشکیل دیئے گئے‘ وہاںعالمی تجارت کا GATT (جنرل ایگریمنٹ ان ٹریڈ اینڈ ٹیریفس) نامی ایک اہم معاہدہ بھی کیا گیا تھا‘ جس سے سامراجی اجارہ داریوں کے پھیلائو، غریب ممالک پر مالیاتی اداروں کے تسلط اور عالمی تجارت کے کچھ قوانین اور ضابطے بنائے گئے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں یہ GATT ‘WTO ( ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میںتبدیل کر دیا گیا۔ اس کا مقصد مختلف قومی ریاستوں کے ٹیرف کی شرح کم کرنا اور اجارہ داریوں کی کھپت اور منافعوں میں اضافہ کرنا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ان معاہدوں کے تحت آٹھ مرتبہ محصولات میں کمیاں کی گئیں۔ 1980ء میں عالمی سرمایہ داری کی 'ریاستی مداخلت سے معیشت کو چلانے کی پالیسی‘ میں ناکامی کے بعد امریکی صدر رونلڈ ریگن اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے سب کچھ نجکاری کے ذریعے چلا کر منافعوں کی شرح میں گراوٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرات کو دور کرنے کے لئے نیولبرل معیشت اور اقتصادی گلوبلائزیشن کا عمل شروع کیا تھا‘ لیکن چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد منافع پر نہیں بلکہ شرح منافع پر مبنی ہے‘ اس لئے ان منافعوں کی شرح میں مسلسل اضافوں کے لئے خوفناک مقابلہ بازی‘ صنعت‘ معیشت اور سماج میں جاری رہی‘ لیکن جہاں امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے وہاں اس کے سرمایہ داروں کو اتنی ہی بڑی شرح منافع بھی درکار ہے۔ یورپ‘ جاپان اور چین کی کم لاگت والی نسبتاً نئی صنعت سے امریکی صنعت، جس میں سٹیل اور دوسری دھاتیں شامل ہیں، کو ''نقصان‘‘ پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔ جبکہ ایسی امریکی صنعت بھی (مثلاً اسلحہ سازی) ہے جس کی برآمدات سے بے پناہ منافع حاصل ہوتے ہیں۔ اسی لئے تجارتی توازن قائم رکھنا ایک مسلسل کٹھنائی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ اقدام اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے الٹ اب قوم پرستی اور تحفظاتی پالیسی کس طرح اس نظام کے بحران کو مزید تیز کرے گی۔ اسی لئے نہ صرف یورپی چینی اوردوسرے بڑے سرمایہ دار چِلا رہے ہیں بلکہ امریکہ کے بہت سے اجارہ دار بھی ٹرمپ کے اس قدم کے خلاف واویلا کر رہے ہیں۔
قومی سرمایہ داری یا تحفظاتی تجارت بنیادی طور پر 19ویں صدی کے نظام پر مبنی تھی۔ 20ویں صدی کے آغاز پر فوجی سرحدوں سے باہر نکلنا اور عالمی تجارت میں اضافہ‘ شرح منافع کے حصول کا کلیدی ذریعہ بن چکا تھا۔ اس گلوبلائزیشن میں سرمائے کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی مل گئی تھی۔ لیکن 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد پہلے چین اور پھر اب امریکہ جس قومی ریاست کے تسلط سے ''اپنے‘‘ سرمایہ داروں کے منافعوں کی پالیسی اختیار کر رہے ہیں‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظام کا تاریخی زوال کتنا شدید ہو گیا ہے۔ لیکن اگر گلوبلائزیشن اپاہج اور ناکام ہے تو یہ تحفظاتی پالیسیاں بھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ ہر طرف بیرونی سرمایہ کاری، نجکاری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ملازمتیں ختم کرنے کی پالیسیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ریاستیں کیونکہ سرمایہ دار طبقے کے تحفظ کے لئے معرضِ وجود لائی گئی تھیں اس لئے اب اس بحران نے انہی ریاستوں کا کردار کم کرنے کی بجائے بڑھا دیا ہے۔ گلوبلائزیشن سے جس نہج پر عالمی سرمایہ داری نے منافعے کمائے وہ قومی ریاست کی حدود میں ممکن نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس تجارتی جنگ سے جو فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری اور غربت بڑھ رہی ہے اس کو روکنے کے لئے ٹرمپ کا یہ اقدام متروک اور ناکام ہے۔ یہ اقدام تو گلوبلائزیشن کی ناکامی کی بذات خود غمازی کرتا ہے۔ تجارتی جنگ کی اس تیزی سے عالمی جنگ کے تصادم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن عالمی قوتوں کا توازن اور جدید ترین اسلحہ کی ترقی عالمی جنگ میں حکمران طبقات کے مفادات بھی برباد کر دے گی۔ اس لئے اجتناب کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ لیکن حالات اتنے سنگین ہیں کہ 12 مارچ کو امریکہ کے خلائی صنعت کے سب سے بڑے سرمایہ دار 'ایلون مسک‘ نے یہ بیان دیا کہ تیسری عالمی جنگ اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کے خاتمے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اس کی صنعت سپیس ایکس کرافٹ تیار کر رہی ہے تاکہ انسانی نسل کے کچھ لوگوں کو چاند اور مریخ کی کالونیوں میں بسا کر اس نسل کو مٹنے سے بچایا جائے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ اتنا سفاک ہوتا ہے کہ وہ 7 ارب سے زائد نسل انسان کی بربادی کا عندیہ بھی دے رہا ہے اور اپنے طبقے کے کچھ لوگوں کو سیارے کی مکمل تباہی کی صورت میں بچانے کی ترکیبیں بھی تیار کر رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے سیارے کی مخلوق کو ضروریات زندگی اور آسائش فراہم کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے بس اس کو منافع کے نظام سے نکال کر سوشلزم یعنی منصوبہ بندی کی معیشت میں بدلنے کی ضرورت ہے‘ جس میں پھر کوئی مالک اور کوئی محکوم نہیں رہے گا۔ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہو گا اور انسانیت تسخیر کائنات کے عمل میں آگے بڑھنے لگے گی۔