پاکستانی معاشرہ ابھی کل تک اُتھلے پانی جیسا تھا۔ خیر، اُتھلا ہی سہی پانی تو تھا۔ اب یہ پانی ایک قدم آگے بڑھ کر دلدل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ نتیجہ؟ ظاہر ہے یہی برآمد ہوا ہے کہ ہر قدم من من بھر کا ہوتا جا رہا ہے۔ قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں، پیچیدگیاں ہیں۔ پورا کا پورا معاشرہ بگڑے ہوئے آوے جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے کی عمومی روش کچھ ایسی ہے کہ ہر شخص خود کو نو گزے پیر سے کم سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ قدیم داستانوں کے حوالے سے ہم نے بھی سنا ہے کہ لنکا میں سبھی باون گز کے ہوتے تھے۔ یہاں بھی اب کچھ ایسا ہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ کوئی بھی خود کو کسی سے کم تر سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
بچپن میں جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو عام طور پر چلتی اُس کی تھی جو گیند بَلّا لے کر آتا تھا! جب سب کھیلنے کے لیے میدان میں یعنی گلی کے بیچ میں پہنچ جاتے تھے تب وہ یعنی گیند بَلّا لانے والا اعلان کر دیتا تھا ''پہلی دام میری، اللہ سے بڑا کوئی نہیں‘‘۔ اس جملے میں اللہ کا ذکر تو خیر رسمی طور پر کیا جاتا تھا ورنہ کہنا تو یہ ہوتا تھا کہ گیند بَلّا چونکہ میں لایا ہوں اس لیے اِس وقت یہاں مجھ سے بڑا کوئی نہیں! اور یوں پہلے وہ بیٹنگ کرتا تھا۔
خیر، یہ طرزِ عمل تو زندگی کے ہر معاملے میں دکھائی دیتا ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ مال ہے تو تال ہے۔ جو کِھلاتا ہے وہی اپنی چلاتا ہے یعنی اُسی کی چلتی ہے۔ یہاں تک تو بات بالکل درست ہے۔ یہ دنیا اُس کی ہے جس کی جیب میں مال ہے۔ اور ہونی بھی چاہیے۔ مگر اِسے کیا کہیے کہ جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں وہ بھی خود کو تونگر سمجھنے پر تُلا ہوا ہے! جس کے پاس ایک وقت کی روٹی کے بعد دوسرے وقت کی خوراک کا یقینی اہتمام نہیں‘ وہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اُس کی محض بات نہ سُنیں بلکہ ''اتھارٹی‘‘ بھی تسلیم کریں!
چند برسوں کے دوران پاکستانی معاشرے میں ایک رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ یہ رجحان ہے خود کو کچھ نہ کچھ، بہت کچھ، بلکہ سب کچھ سمجھنے کا۔ اگر بات دو جملوں میں بیان کرنا پڑے تو ''میں ہوں نا‘‘ اور اِس سے بھی بڑھ کر ''میں ہی تو سب کچھ ہوں نا‘‘ کہا جا سکتا ہے!
ہم سبھی اب ذہنی پیچیدگیوں کے جنگل میں جی رہے ہیں۔ اور یہ جنگل دن بہ دن زیادہ سے زیادہ گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ گھنے پن کا عالم یہ ہے کہ شعور کے سورج کی اِکّا دُکّا کرنیں ہی زمین کا بوسہ لے پاتی ہیں۔ اس جنگل میں قدم قدم پر خوں خوار ذہنی امراض منہ کھولے، کسی بھوکے عِفریت کے مانند ہر گزرنے یا بھٹک جانے والے کو ہڑپنے، ڈکارنے کے لیے بے تاب ہیں۔ آگے بڑھنا بھی مشکل، پیچھے ہٹنا بھی مشکل ہے۔ کوئی کرے تو کیا کرے۔ اِس طرف سے بچیے تو اُس طرف سے پھنسنے کا امکان توانا ہو جاتا ہے۔ ایک ذہنی الجھن کو پچھاڑیے تو دوسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ خود کو بہت کچھ، بلکہ سب کچھ سمجھنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
ہم ایک صاحب کو جانتے ہیں جو کرکٹ سے دیکھنے کی حد تک شغف رکھتے ہیں، کبھی کھیلنے میں دلچسپی نہیں لی۔ دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھتے دیکھتے اُن کے ذہن کی کیا حالت ہوئی یہ ہم آپ کو بتاتے ہیں تاکہ آپ کے لیے بھی تفریحِ طبع کا کچھ سامان ہو! بارہ پندرہ برس پہلے وہ بہت وثوق سے کہا کرتے تھے کہ سچن ٹنڈولکر کو ڈھنگ سے کھیلنا نہیں آتا! اور اپنی بات پر وہ آج بھی قائم ہیں۔ ساتھ ہی اُن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اگر کسی طرح انڈین بورڈ مان جائے اور سچن ٹنڈولکر بھی راضی ہو تو وہ اِس عظیم کھلاڑی کے کھیل میں پائی جانے والی چند انتہائی بنیادی قسم کی خامیاں دور کرنے کے لیے تیار ہیں!
آپ کی طرح ہم بھی پہلے پہل یہی سمجھے تھے کہ وہ شاید مذاق فرما رہے ہیں۔ مگر جب ہم نے انہیں انتہائی سنجیدہ پایا اور معمولی سے اختلافِ رائے پر اُن کی آنکھوں خُون اُترتا ہوا محسوس کیا تو ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کے مصداق اُن کی بات کو سنجیدگی سے لینا پڑا!
پہلے مین سٹریم میڈیا اور بعد میں سوشل میڈیا کا سِحر چھایا تو ذہن ماؤف ہو گئے۔ اب لوگ ہینڈ سیٹ پر یعنی اپنے سیل فون کے ذریعے دنیا بھر کے معاملات اور معلومات سے کماحقہٗ ''باخبر‘‘ ہوتے رہتے ہیں یعنی اَپ ڈیٹنگ جاری رہتی ہے اور یوں خود کو کچھ سے کچھ سمجھتے رہنے کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ چند برس سے قوم کی مجموعی عمومی حالت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص پرائم ٹائم میں ٹی وی کے دو تین ٹاک شو کہیں کہیں سے دیکھتا ہے اور جو کچھ بھی سنتا ہے اُسے ذہن میں اچھی طرح ترتیب دے کر گھر سے نکلتا ہے اور پھر رات کے پچھلے پہر تک وہ خود ساختہ ''تجزیہ کار‘‘ کی حیثیت سے جگہ جگہ ''علم کے موتی‘‘ بکھیر رہا ہوتا ہے!
یہ ایسا دریا ہے جس کی موجوں کی طغیانی میں بہتے ہوئے لوگ اپنا آپ بھول جاتے ہیں۔ پھر کچھ یاد نہیں رہتا کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں ختم کرنی ہے۔ اینکرز کی دکان داری ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ وہ تو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں سارا مال سمیٹ کر، دکان بند کرکے چل دیتے ہیں مگر ہوٹلوں میں اور تھڑوں، چبوتروں پر گرم گفتاری کی عوامی دکان رات گئے تک کھلی رہتی ہے۔ عام طور پر فجر کی اذان ہی اِس دکان کی تالا بندی میں کامیاب ہو پاتی ہے!
سو مصیبتوں کی ایک مصیبت یہ ہے کہ لوگ ہوتے 10 کے ہیں اور خود کو سمجھتے ہیں 100 کا، 200 کا۔ زمانے بھر کی بامعنی اور لایعنی باتوں کو ذہن کی زنبیل میں بھر کر لوگ، از خود نوٹس کے تحت، خود کو لاکھوں، کروڑوں کا گرداننے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
جیب خالی بھی ہو تو کیا ہوا، ذہن اور منہ دونوں تو بھرے ہوئے ہیں نا۔ بات شروع ہوتی ہے دس بارہ لاکھ سے اور آن کی آن میں جا پہنچتی ہے کروڑوں تک۔ اور اِس سفر کے دوران سانس بھی نہیں لیا جاتا!
اپنے وجود کو بالکل درست تناظر میں دیکھنے، سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا دور جیسے لد گیا ہے۔ سب نے طے کر لیا ہے کہ خود کو محدّب عدسے کی مدد سے دیکھنا ہے۔ اللہ نے جتنی صلاحیت اور سکت سے نوازا ہے خود کو اُس سے کہیں بڑا دیکھنے اور برتنے کی بیماری خطرناک، بلکہ جان لیوا حد تک پنپ چکی ہے۔ عوامی زبان میں اِس کیفیت کے لیے متعدد ''اظہارات‘‘ پائے جاتے ہیں۔ ہوا میں تیر چلانا بھی اِسی کو تو کہتے ہیں۔ لگ جائے تو تیر ورنہ تکّا۔ اور ہاں، باتیں کروڑوں کی ... دکان پکوڑوں کی! ع
عجب جہاں میں ہماری مثال ہے صاحب
کسی ہُنر کا نہ ہونا کمال ہے صاحب!