تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-03-2018

جمہوریت ہو‘ چوروں کی بادشاہت نہیں!

صاحبِ کردار لوگ اُوپر آئیں پھر تو بات بنتی ہے۔ یہ جمہوریت کس کام کی؟ یہ تو اُن کیلئے ہے جن کی جیبیں بھری ہوئی ہیں اور جو وسائل پہ پہلے ہی قابض ہیں۔ اُنہی کے مفادات کو یہ جمہوریت تحفظ دیتی ہے۔ ہمارے ذہنوں میں کیا کیا خواب جنم لیتے ہیں کہ فلاحی مملکت بنے، عام آدمی کا بھلا ہو، دولت کی منصفانہ تقسیم ہو وغیرہ وغیرہ۔ جتنا زور لگا لیں، جتنی تحریریں لکھ لیں، یہ چیزیں اِس جمہوریت سے نہیں آئیں گی۔ بیشک آپ اگلے سو سال تک انتخابات کراتے رہیں۔
مغرب کا سیاسی ارتقاء اور طریقے سے ہوا۔ ہم مغرب نہیں۔ ہمارے حالات اور ہیں، سیاسی تجربہ اور رہا ہے۔ خمیر، مزاج، سوچ اور ہے۔ مشرق یعنی ایشیاء میں جن ملکوں نے ترقی کی اور کچھ حاصل کیا وہاں جمہوری پسِ منظر رہا بھی تو اُس میں سختی شامل تھی۔ سنگا پور میں ہمارے ہاں جیسے لیڈر ترقی نہیں لائے۔ وہاں ایک تگڑا رہنما تھا، لی کوآن یو (Lee Kuan Yew)، جس نے سوچ اور سختی کے ملاپ سے ایک چھوٹی سی ریاست‘ جو کہ لاہور شہر کے پھیلاؤ سے چھوٹی ہے‘ کو دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لاکھڑا کیا۔ تائیوان میں ایسا ہوا۔ چین سے بھاگا ہوا فوجی آمر تائیوان کا سربراہ بنا‘ اور پھر آہستہ آہستہ تائیوان ترقی کی راہ پہ گامزن ہوا۔ ہانگ کانگ کی ترقی کی بنیاد انگریز سامراج نے رکھی۔ جنوبی کوریا میں فوجی آمر تھے‘ جنہوں نے ایک غریب اور پس ماندہ معاشرے کو ترقی کی راہ پہ ڈالا۔ ملائیشیا میں جمہوریت رہی لیکن نیم قسم کی جس میں سختی شامل تھی۔ مہاتیر محمد ووٹ سے منتخب ہوئے لیکن مزاج آمرانہ تھا۔ ملائیشیا کی ترقی اُنہی کے مرہون منت ہے۔
ہم جمہوری ملک میں پیدا ہوئے لیکن یہ جمہوریت ہماری کاوشوں یا سوچ کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ انگریز یہاں لے کر آئے اور ہمیں بطور تحفہ دے گئے۔ سطحی طور پہ ہم نے جمہوری گفتگو اور رویے اپنانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ اُوپر کی چیز ہی رہی۔ اندر سے مزاج اور خمیر وہی پُرانا ہندوستانی آب و ہوا کا اثر لینے والا رہا۔ فلاحی مملکت تو دُور کی بات ہماری جمہوریت میں فعال اور امیر طبقات مزید طاقتور ہوتے گئے۔ معاشرہ منصفانہ نہ بن سکا۔ اِس صورتحال میں کچھ تبدیلی آنی ہے تو محض انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ جنوبی کوریا، سنگا پور یا ملائیشیا جیسا کوئی لیڈر یہاں پیدا ہو‘ جو اقتدار میں ووٹ کی طاقت سے آئے لیکن جس کی سوچ معاشرے کو تبدیل کرنے کی ہو۔ 
سنگا پور میں صفائی کا عالم قابلِ رشک ہے۔ قوانین تو یہاں بھی موجود ہیں۔ میونسپل اتھارٹیز بھی ہیں۔ مذہب بھی ہمارا کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن صفائی سے ہمارا دور دور تک تعلق نہیں۔ صفائی کا تصور نہ ہمارے ذہنوں میں‘ نہ مزاج کا حصہ ہے۔ سنگا پور میں سختی سے وہ ڈسپلن پیدا کیاگیا جس سے صفائی معاشرے کا لازمی جزو بن گئی۔ وہاں کوئی سرعام تھوک کے تو دکھائے یا چلتی کار سے کچھ کھا کے ریپر باہر پھینکے۔ فوراً دھر لیا جائے گا اور سمجھ آ جائے گی۔
جنوبی کوریا میں سالانہ امتحانات پورے ملک میں ایک تاریخ کو ہوتے ہیں اور اُس دن کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ٹریفک پہ مامُور پولیس ہوشیار رہتی ہے اور اگر کسی طالب علم کو امتحانی مرکز میں پہنچنے میں دِقت ہو تو اُس کی مدد کی جاتی ہے۔ ایئرلائنیں اپنا شیڈول تبدیل کر لیتی ہیں تاکہ ہوائی جہاز امتحان کے وقت سکولوں اور کالجوں کے اُوپر سے نہ گزریں۔ امتحانوں میں نقل کا تصور نہیں۔ پورے ملک میں ایک ہی طرز تعلیم ہے۔ جیسا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کہا کہ کاش پاکستان میں ایک کتاب، ایک یونیفارم اور ایک طرزِ تعلیم کا نظام ہو جائے۔ یہاں یہ خواب ہے جنوبی کوریا میں حقیقت۔ 
یہاں چیف جسٹس صاحب ڈنڈا نہیں چلا رہے ہلکی سی کوشش کر رہے ہیں کہ کچھ تو حالات سدھریں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جمہوری طریقوں سے کوئی سخت گیر سربراہ مملکت سامنے آئے جو بگڑے ہوئے حالات اور بگڑی ہوئی قوم کو درست کرے۔ تاکہ صفائی کا عالم وہ تو نہ سہی جو سنگا پور میں ہے‘ کیونکہ یہاں ایسے ہو نہیں سکتا‘ لیکن کچھ تو صفائی ہو۔ امتحانات کا بھی وہ تقدس تو کبھی نہیں ہو گا‘ جو جنوبی کوریا میں ہے لیکن اُس کے قریب تو ہو۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا تو جنوبی کوریا کا نام کسی کھاتے میں نہ تھا۔ پھر 1950ء میں وہاں جنگ چھڑی اور تین سال تک رہی۔ جنگ کے اختتام پہ شمالی اور جنوبی کوریا کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ہمارا تو ٹھیک ٹھاک ملک تھا، نظم و نسق تھا، سول سروس تھی، کہنے کو قانون کی حکمرانی تھی۔ ستر سال ہو گئے ہیں، ہم باتیں ہی کرتے رہ گئے۔ ایک نظام تعلیم ملک میں رائج نہ کر سکے ۔ انگریزی سکول ہیں، ٹاٹ والے سکول اور سب سے غریب طبقات کے لئے دینی مدرسے ہیں۔ باتیں سُنیں تو آسمانوں کی کرتے ہیں۔ ہوتا کچھ نہیں ہے۔ منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ غریب ملک ہے، وسائل محدود ہیں، لیکن جو وسائل ہیں میٹرو جیسے شوشوں پہ برباد کیے جاتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ چیف جسٹس صاحب نے مداخلت کی اور قوم کے پیسوں پہ ذاتی تشہیر کا سلسلہ روکنے کی کوشش کی۔ کوئی نہایت ہی جاہل معاشرہ ہو گا‘ جس میں پنجاب حکومت جیسی ذاتی تشہیر کا سلسلہ چلتا ہو۔ چیف جسٹس صاحب اِس سلسلے کو نہ روکتے تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ 
جمہوری طریقوں سے منتخب ہوئے حکمرانوں کو قومی دولت ان گھٹیا مقاصد کیلئے صَرف کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ کبھی حبیب جالب کی نظمیں گا رہے ہوتے ہیں‘ اور کبھی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین اشخاص میں اِن کا شمار ہوتا ہے۔ جائیدادیں اِن کی بیسیوں ممالک پھیلی ہیں۔ کچھ تو لحاظ کریں، کم از کم انقلاب کا نعرہ تو نہ لگائیں۔ پکڑے جائیں‘ جیسا کہ اب ہو رہا ہے‘ تو کیا شور مچاتے ہیں۔ اِن کے دامن پہ ہاتھ آئے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ عرصۂ دراز پہ محیط کرتُوتوں کے بارے میں سوال اُٹھیں تو کہتے ہیں: جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ 
ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ ذرا سی شروعات ہیں‘ اور یہ لیڈر چِلا اُٹھے ہیں۔ ہمارے لکھنے والے بھی خوب ہیں۔ جمہوریت کی ایسی ایسی تاویلیں دیتے ہیں کہ انسان کی عقل دَنگ رہ جاتی ہے۔ اِس معاشرے کو سطحی جمہوریت نہیں چاہیے نہ ہی ماضی کے طرز کی فوجی آمریتوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں جمہوری لیڈر ملے تو وہ نکمیّ اور کرپٹ۔ فوجی آمر آئے تو وہ بھی نکمیّ اور کرپٹ۔ فرق صرف لباس کا، ایک سویلین لباس میں دوسرے وردی میں۔ نہ ایک کام کے نہ دوسرے۔ 
حالات کسی معجزے سے ہی بدلیں گے۔ ہم میں تو صلاحیت نہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور اِن کے لیڈر بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک آدھ کے سوا باقی اسلوب کی بات بھی نہیں کر سکتے۔ سوچ کا خانہ بالکل خالی ہے۔ مستقبل کا ہلکا سا خاکہ بھی اُن کے سامنے نہیں۔ حصولِ اقتدار سیاست کا لازمی جزو ہے۔ بغیر اقتدار اور طاقت کے معاشرے تبدیل نہیں ہوتے۔ لیکن حصولِ اقتدار کسی مقصد کیلئے تو ہو۔ یہاں ہر ایک اپنی ذات کی خاطر سیٹی بجا رہا ہے۔ انتخابات سر پہ ہیں۔ یہ ایک موقع ہے کوئی ڈھنگ کی چیز اِن سے نکلے۔ سیاستدانوں کی ایک کھیپ کا بذریعہ قانون صفایا ہو رہا ہے۔ یہ مثبت قدم ہے لیکن کافی نہیں۔ اِن کے جانے سے ایک بہتر کھیپ سامنے آنی چاہیے۔ قوم کا دَرد دِلوں میں ہو۔ ہمارے ہاں تو یہ ایک محاورہ بن کے رہ گیا ہے۔ ڈنڈے والے پیر تو ہمارے ہاں بہت ہیں۔ لی کوآن یو جیسا ڈنڈے والا لیڈر پتہ نہیں کیوں نہیں ملتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved