تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-03-2013

سُلگتے نشیمن سے جلتے چمن تک!

فراغت کے دستیاب لمحات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان سے بڑھ کر شاید ہی کوئی ملک ہو۔ لگتا ہے تمام بنیادی اور ثانوی نوعیت کے مسائل حل کیے جاچکے ہیں۔ پاکستانیوں کے پاس اب کرنے کو بظاہر کچھ نہیں ،اِس لیے گنیز بُک والوں کی آسانی کے لیے عالمی ریکارڈ بنانے پر تُلے ہیں! ایک ساتھ ہزار افراد کے درمیان پنجہ آزمائی کا معاملہ ہو یا پھر ایک منٹ میں زیادہ گیندیں کھیلنے کا قِصّہ، پاکستانی آگے آگے ہیں اور گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کے حکام پیچھے پیچھے۔ پنجاب حکومت بھی اسٹیڈیم اور دیگر سہولتیں فراہم کرکے بے چارے گنیز بُک والوں کا کام بڑھا رہی ہے! ایک ریکارڈ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز والوں سے چُوک گیا ہے۔ ہم وہ ریکارڈ بناچکے ہیں اور اب تک خود ہمی کو اِس حوالے سے اپنی ’’عظمت‘‘ کا احساس نہیں! بڑے لوگوں کی بڑی باتیں! جو پیدا ہی ریکارڈ قائم کرنے کے لیے ہوئے ہوں وہ بھلا کِس کِس بات کو یاد رکھیں؟ عرض یہ کرنا تھا کہ اپنے ہی وطن کے ٹوٹنے کی بات دَھڑلّے سے کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی کوئی مُلک پاکستان سے مقابلہ نہیں کرسکتا! کِسی بھی پاکستانی کے مُوڈ پر منحصر ہے کہ جب چاہے، مُلک کے ٹوٹنے کا ’’مُژدہ‘‘ سُنادے! اِنسان کی فطرت میں کجی ہی کجی ہے۔ اِس کجی کو دور کرنے کے لیے اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار رُسل بھیجے۔ اِن افضل ترین ہستیوں نے اپنے حِصّے کا کام پوری محنت ،دیانت اور قطعیت کے ساتھ کیا مگر ہائے رے اِنسان کی حِرماں نصیبی! بشر کی جبلّت میں نصب بے عملی کے باعث بہت کچھ ہے جو دُرست ہونے سے رہ گیا ہے! جسے دیکھیے وہ ذاتی مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھتا ہے۔ صرف اپنی جان کی فکر ہوتی ہے کہ کِسی طرح تیرتا ہوا کنارے تک پہنچ جائے۔ کشتی؟ کشتی جائے دریا کی بھاڑ میں! ہر شخص اِس سوچ کا حامل دکھائی دیتا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے، اُس کے مفادات کو ضرب نہ لگے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنی بوٹی کے لیے بکرا ذبح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے! جسے دیکھیے وہ اپنے گھر کو آگ سے بچانے کی تگ و دَو میں مصروف دِکھائی دیتا ہے۔ پوری گلی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتی ہے تو ہو جائے۔ سبھی معاشرے کا جُز ہیں مگر کُل کے بارے میں بھول کر بھی نہیں سوچتے۔ اِس دُنیا میں ایک بھی اِنسان جزیرہ نہیں۔ معاشرے کے سمندر میں سب کا مُقدّر ایک ہے۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو خود کو جزیرہ سمجھنے کے معاملے میں ضِد پر اَڑے ہیں! احمد آباد کے حزیںؔ قریشی مرحوم نے کیا خوب کہا تھا ؎ سُلگ رہا ہے نشیمن کہ جل رہا ہے چمن چلو، قریب سے دیکھیں یہ روشنی کیا ہے! یہ شعر اِنسانی نفسیات کا اچھا عکّاس ہے۔ چمن کی بات ہو تو بے فِکری سے جلنے کا تذکرہ کیجیے، بلکہ خاکستر ہو جانے کا امکان بھی بلا خوفِ تردید بیان کردیجیے اور اپنے نشیمن کا معاملہ ہو تو؟ اول تو کوئی ایسی ویسی بات زبان پر مت لائیے اور اگر چمن کے جلنے کا امکان ظاہر کر ہی بیٹھیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے نشیمن کے معاملے میں سُلگنے تک پہنچ کر رُک جائیے! یعنی چمن جلتا ہے تو جلے، نشیمن سُلگنے کی منزل سے آگے نہ بڑھے! اِسی خود غرضی کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎ قفس میں مُجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہم دَم! گِری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟ بے حِسی کا درجۂ کمال مُلاحظہ فرمائیے کہ جو تین چار بھائی ترکے میں باپ سے ملنے والے مکان میں اپنے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتے ہوں وہ دن رات لڑتے جھگڑتے رہنے پر بھی کبھی بُھولے سے مکان کے لیے ٹوٹنے کا لفظ زبان پر نہیں لاتے اور یہی لوگ حالات پر تبصرہ کرتے وقت کمال اطمینان سے مُلک کے ٹوٹنے کی بات کر جاتے ہیں! اُن کی راہ میں احساس رُکاوٹ بنتا ہے نہ خوف۔ کوئی بھی اپنے دہی کو کھٹّا کہنے کے لیے تیار نہیں۔ معمولی سی یعنی تانگہ پارٹی کے ’’لیڈر‘‘ بھی تقریر فرماتے ہیں تو بات فتح سے شروع ہوکر فتح پر ختم ہوتی ہے۔ شکست بالکل یقینی اور سامنے کی بات ہو تب بھی وہ اپنی گفتگو میں شکست کا معمولی سا خدشہ بھی شامل نہیں ہونے دیتے۔ کِسی ایک حلقے سے ہارنے کا امکان بھی کبھی اُن کی زبان پر نہیں آتا۔ ہاں، مُلک کا ذکر آئے تو طبیعت کی جولانی ملاحظہ فرمائیے۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے شروع ہونے والی بات دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی کے مرحلے سے ہوتی ہوئی مُلک کی شکست و ریخت تک جا پہنچتی ہے! حکمرانوں نے طے کرلیا ہے کہ جب بھی حالات قابو میں نہ آ رہے ہوں اور شر پسندوں کو کنٹرول کرنا ممکن نہ رہے تو ڈبل سواری پر پابندی لگادی جائے تاکہ دِل کو کچھ تسلّی ہو جائے۔ اِسی طور عوام و خواص دونوں کا حال یہ ہے کہ حالات پر بحث کے دوران جب کوئی کام کی بات نہ سُوجھ رہی ہو اور گفتگو کو کِسی انجام تک پہنچانا مشکل ثابت ہو رہا ہو تو جھٹ سے ملک کی بقاء پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں! تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری پانچ سال کے بعد جب گزشتہ دسمبر میں کینیڈا سے پاکستان آئے تھے تب بھی اُنہوں نے خاصا ہنگامہ برپا کیا تھا۔ بظاہر کِسی جواز کے بغیر اور نامعلوم مقاصد کے لیے کیا جانے والا لانگ مارچ اور دَھرنا لوگ اب تک نہیں بھولے۔ پھر وہ کینیڈا چلے گئے اور اب پھر واپس آئے ہیں تو میڈیا سے گفتگو میں فرمایا ہے کہ اگر انتخابات پُرانے نظام کے تحت ہوئے تو مُلک ٹوٹ بھی سکتا ہے! مُلک نہ ہوا، موم کی ناک ہوگیا کہ جس طرف چاہو موڑ دو! اگر پُرانے نظام میں ایسی ہی خامیاں تھیں تو اُس کے تحت انتخابات کے بعد بھی ملک اب تک کیوں سلامت ہے؟ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے جب کچھ بھی نہ سُوجھتا ہو تو جھٹ سے کہہ دیجیے کہ مُلک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ جُملہ سُنتے ہی لوگ سہم جائیں گے اور آپ کو یوں احترام سے دیکھیں گے جیسے آپ اِنسان نہ ہوں، ’’بابا‘‘ ہوں! اچھی خاصی گفتگو کا رُخ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی طرف موڑ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کی باتوں کا رنگ کِس طرح جمتا ہے! جو کچھ دِل میں ہو وہی زبان پر آتا ہے۔ جن کے دِل میں وطن کی محبت ہو وہ کبھی بھول کر بھی نہیں کہتے کہ مُلک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، خانہ جنگی ہوا چاہتی ہے، مُلک شکست و ریخت کے مرحلے سے گزر سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں کمال بے باکی کے ساتھ، دَھڑلّے سے وہی لوگ اپنی زبان پر لا سکتے ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہو اور ملک کے اندر ’’محفوظ جنت‘‘ قائم کرچکے ہوں۔ یا پھر وہ جو اپنی اولاد سے املاک تک سبھی کچھ مُلک سے باہر پہنچاکر سُکون سے بیٹھے ہوں۔ مُلک کا جو بھی حال ہو، اُنہیں کیا فرق پڑتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved