تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-03-2018

کسانوں کا بے مثال مظاہرہ

بھارت میں کسانوں کے پہلے بھی کئی مظاہرے ہو چکے ہیں‘ لیکن جیسی کامیابی مہاراشٹر کے کسانوں کو ملی ہے‘ ویسی کامیابی یاد نہیں پڑتا کہ بھارت کے کسانوں کو کبھی ملی ہے۔ مہاراشٹر کی بھاجپا سرکار نے کسانوں کی لگ بھگ سبھی مانگیں منظور کر لی ہیں۔ کسانوں کو دیے گئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے سبھی قرضے معاف کیے جائیں گے‘ ان کی فصلوں کی لاگت سے ڈیڑھ گنا قیمت انہیں ملے گی‘ جنگلوں میں نسل در نسل زمینیں کاشت کر رہے جنگلیوں کو ان زمینوں کی ملکیت ملے گی‘ کھیتوں میں آب پاشی کے لیے خصوصی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔ جنگلی کسانوں کے علاج کا انتظام بھی ہو گا۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیوندر پھڑن ویس نے چھ مہینے میں ان مانگوں کو پورا کرنے کا یقین دلایا ہے۔ مہاراشٹر کے وزرا نے خود جا کر کسان لیڈروں سے بات کر کے انہیں تمام معاملات پر مطمئن کیا۔ کسانوں کے یہ مظاہرے‘ اور مہاراشٹر سرکار کا یہ ہمدردی بھرا رویہ‘ دونوں ملک کی سبھی سرکاروں کے لیے مثالیں ہیں۔ انہیں ان معاملات میں مہاراشٹر سرکار کی تقلید کرنی چاہیے۔ ناسک سے ممبئی تک کا لگ بھگ 180 کلومیٹر کا پیدل راستہ طے کرنے والے ان کسانوں نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی‘ کسی قسم کے جاہلانہ نعرے نہیں لگائے‘ کوئی گندگی نہیں پھیلائی‘ پوری طرح پُرامن رہے‘ بلکہ انہوں نے رات میں 25 کلومیٹر کا پیدل مارچ اس لیے کیا کہ سویرے سویرے بورڈ کا امتحان دینے والے طلبا کو تکلیف نہ ہو۔ یہ کسان مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کی کسان سبھا کے ذریعے لائے گئے تھے۔ ان بھارتی کسانوں نے دنیا کے سارے مارکس وادیوں کو عدم تشدد اور امن کا سبق پڑھا دیا ہے۔ چالیس ہزار کسانوں کا یہ مظاہرہ سچ مچ بے مثال تھا۔ ایسے کسان مظاہرے کا انتظام کرنے والی پارٹی نے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کی سبھی پارٹیوں کے مقابلے میں بہتر کام کر رہی ہے۔ کھیتوں میں مزدوری کرنے والے کسانوں کو آپ محروم‘ دلت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ان کے سوجے ہوئے اور چھالوں کی وجہ سے چھلے ہوئے پیر دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ کچھ خوشحال علاقوں کے خوشحال کسانوں کو چھوڑ کر ملک کے زیادہ تر کسانوں کا یہی حال ہے۔ بینکوں کے اربوں‘ کھربوں کے گھوٹالوں کے سامنے ان کی قرض معافی کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ان کے لیے مناسب بیج‘ آب پاشی‘ کھاد‘ تربیت اور فصلوں کی فروخت کا قابل بھروسہ بندوبست کیا جائے۔ آدمی کو زندہ رکھنے والی سب سے ضروری چیز پیدا کرنے والوں (کسانوں) کی حالت آخر کب سدھرے گی؟
سری لنکا میں بودھ مسلم مڈبھیڑ
سری لنکا میں ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود مسلم بودھ مڈبھیڑ کا معاملہ ویسے کا ویسا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں کینڈی میں رہنے والے مسلمانوں کے لگ بھگ ڈیڑھ سو گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ صدر میتریپال شری سین نے فوج اور پولیس کے جوانوں کو دنگوں کی جگہ تعینات کیا ہے لیکن شدت پسند بودھوں نے کینڈی ہی نہیں‘ سارے سری لنکا کے مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔ قریب قریب دو کروڑ لوگوں کے اس بودھ ملک میں بیس لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ وہ تامل زبان بولتے ہیں اور تجارت وغیرہ کرتے ہیں۔ ویسے سری لنکا کے سنگھلوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات ویسے خراب نہیں رہے ہیں‘ جیسے تامل والوں کے رہے ہیں لیکن 2014ء میں الوتھ گاما شہر میں ہوئی بودھ مسلم مڈبھیڑ نے خطرناک صورت اختیار کر لی تھی۔ ''بودھ بل سینا‘‘ نے ایک بودھ ڈرائیور اور ایک مسلم نوجوان کے جھگڑے کو اتنا طول دے دیا کہ اس کے نتیجے میں ہونے والے دنگوں میں چار لوگ مارے گئے اور 80 زخمی ہو گئے تھے۔ دس ہزار لوگ اجڑ گئے اور مسلمانوں کی کروڑوں کی املاک خاک ہو گئی تھیں۔ 2015ء میں ہوئے چنائووں میں اس وقت کے صدر راج پکشے کا تامل ہندوئوں اور مسلمانوں نے لگ بھگ بائیکاٹ کر دیا تھا۔ وہ ایل ٹی ٹی پر فتح پانے والے مہا نائیک تھے لیکن وہ چنائو ہار گئے تھے۔ اب صدر شری سین اور وزیر اعظم وکرما سنگھے کے سامنے ان کے وجو د کی چنائوتی کھڑی ہو گئی ہے۔ یہ ایک طرح سے ان کی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ کینڈی میں بھی وہی ہوا ہے‘ جو چار برس پہلے الوتھ گاما میں ہوا تھا۔ ایک بودھ ڈرائیور اور ایک مسلمان کی کار حادثہ میں جھڑپ ہوئی اور کچھ دن بعد اس بودھ کی موت ہو گئی۔ مسلمان ڈر گئے لیکن شر پسند بودھوں نے ایک مسلم کو زندہ جلا دیا۔ خود شری سین کینڈی کے تیل دینیا اور دگانا میں پہنچ گئے ہیں‘ اور دنگوں کی آگ کو بجھا رہے ہیں‘ لیکن اقوام متحدہ اور کئی عظیم قوتوں نے فکر کا اظہار کیا ہے۔ اگر شری سین سرکار ان دنگوں پر قابو نہ پا سکی تو سابق صدر راج پکشے کو‘ جو سنگھ شدت پسندوں کی جانب ہیں‘ فائدہ ہو گا اور شری سین اور وکرما سنگھے کی اتحادی سرکار کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ مقامی چنائو میں راج پکشے کی واپسی کے واضح اشارے مل ہی چکے ہیں۔ لیڈروں کا مستقبل جو بھی ہو‘ اگر سری لنکا میں فرقہ واریت کا شیطان دوبارہ سر اٹھا لے گا تو بھارت کے اس پڑوسی ملک کا مستقبل چوپٹ ہو سکتا ہے۔
فرانس کی کمائی‘ بھارت کی ٹھگائی تو نہیں؟
حال ہی میں فرانس کے صدر نے بھارت کا دورہ کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی بیرونی دوروں کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ ایسے میں ان دوروں نے اپنی اہمیت خود کم کر لی ہے‘ لیکن فرانس کے صدر میکروں کا یہ پہلا دورہ تاریخی بن گیا ہے۔ وہ بین الاقوامی اجلاس اور سولر سسٹم کا افتتاح کرنے آئے‘ لیکن اس دورے نے بھارت کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ بھارت اور فرانس کے تعلقات وہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں‘ جو کبھی بھارت اور روس کے تھے۔ اگرچہ آج کل سرد جنگ کا ماحول نہیں ہے‘ اور دو عظیم قوتوں کے خیمے بھی نہیں بنے ہوئے‘ لیکن چین کی قوت آج کل مغربی ممالک کے لیے للکار بن گئی ہے۔ اس للکار کا سامناکرنے کے لیے آج کل امریکہ بھی بھارت کی پشت تھپتھپا رہا ہے تاہم بھارت اور امریکہ کا اتحاد دو ملکوں کے بیچ ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کا کچھ بھروسہ نہیں ہے جبکہ بھارت اور فرانس‘ دونوں عظیم قوتیں نہیں بلکہ صرف درمیانی حیثیت والی طاقتیں ہیں۔ پرانی تہذیب کا قول بھی ہے کہ جب دو لوگوں کی تہذیب اور سلوک برابر ہوتے ہیں تو ان میں دوستی اچھی نبھ جاتی ہے۔ اس لیے سلامتی کونسل میں بھارت کومستقل ممبر بنانے کے معاملے میں فرانس کی حمایت دوٹوک رہتی ہے۔ اب میکروں کے دورۂ بھارت کے دوران ہوئے 14 معاہدوں کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملک دفاع‘ تجارت‘ تکنیک اور تربیت کی نظر سے ایک دوسرے کے اتنے قریب آ رہے ہیں کہ اس نزدیکی کو لگ بھگ اتحاد بھی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کی بندرگاہوں‘ فوجی سہولیات اور طرح طرح کی فوجی امداد کا دونوں ملک باہمی استعمال کریں گے۔ دونوں ملکوں نے دہشتگردی کے خلاف لڑائی کا عزم کیا ہے۔ چین کے کوریڈور منصوبے کا نام لیے بنا دونوں نے اسے رد کر دیا ہے۔ ہندی سمندر کے علاقے میں امن بنائے رکھنے کا اعلان دونوں نے کیا ہے۔ بھارت نے58000 کروڑ روپے کے 36 رافیل لڑاکا جہاز بھی خریدے ہیں۔ ان کے آسمانی (بے تحاشا زیادہ) نرخوں کو لے کر کافی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ جیتا پور میں دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی بجلی گھر بھی شروع کرنے کی تسلی فرانس نے دی ہے۔ یہ حقیقتیں سب پرکشش ہیں لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ بھارت اس وقت فرانس کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس کی کمائی ہوتی رہے اور ہماری ٹھگائی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved