آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ میں نے افضال نوید کی ساری کتاب پڑھ ڈالی ہے‘ اور خود مبارکباد کا مستحق ہو گیا ہوں۔ اس شاعری کی سنگلاخی پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے جس غالبؔ کی سنگلاخ شاعری بھی یاد آ رہی ہے‘ لیکن غالبؔ اپنے انہی اشعار کی وجہ سے غالبؔ ہے جو عام فہم بھی ہیں اور مزیدار بھی‘ بلکہ انہی اشعار میں سے بہت سوں نے ضرب المثل ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ غالبؔ نے اپنے گنجلک اشعار کو بعد میں کسی حد تک آسان بھی بنا دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ افضال نوید کسی خاص پروگرام کے تحت ایسا کرتے ہیں‘ ورنہ انہی کا ایک شعر ہے ؎
اتنا اُستاد بھی ہو جانا کوئی ٹھیک نہیں
شعر کا ذائقہ لینے سے جو محروم کرے
تاہم انہوں نے اپنے آپ کو اُستاد ضرور قرار دے دیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایسی فنی کوتاہیوں سے احتراز کرتے جو ان کی کتاب میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ ایک اُستادی تو انہوں نے اکثر و بیشتر یہ دکھائی ہے کہ اردو کے لفظ کے ساتھ فارسی ترکیب ٹھوک دی ہے‘ مثلاً اجالہ ٔ نو اور ساتھ ساتھ اُجالا کی املا بھی تبدیل کر دی ہے ۔ یہی نہیں‘ ایسی متعدد مثالیں اور بھی ہیں‘ مثلاً دل بیکل‘ روزنِ جنم‘ باگِ مفلوک المسافت ) اسے فارسی اور عربی دونوں کا تڑکا لگایا ہے، ٹھکانۂ آدم‘ عالمِ جوبن‘ پس ِپاتال‘ طرزِ بلیدان‘ ازالۂ پہچان‘ راز ِنروان‘ تشکیلِ فالتو‘ ریلۂ منہ زور‘ حروفِ سنہری‘ عکس لہو‘ گنتی ٔ صد پار‘ فسادِ اٹل اور قطرئہ برساتْ اُردو لفظ کو فارسی ترکیب میں باندھ دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
کئی کمالات اس کے علاوہ بھی ہیں‘ مثلاً ایک تو دائو اور گھائو کو فعلن کے وزن پر باندھا ہے جبکہ ان کا وزن فعل ہے اور اسی طرح پائوں اور گائوں بھی جو کہ ہندی الفاظ ہیں اور فعل کے وزن پر ہی بندھتے ہیں۔ پھر یہ کہ مور اورغور کو ہم قافیہ باندھا ہے جو کہ درست نہیں‘ اسی طرح بول اور غول بھی ہم قافیہ نہیں ہیں۔ اُستاد نے فارسی سے مزید کام بھی لیا ہے مثلاً کرن در کرن‘ سوں بہ سوں‘ اسی طرح کچھ اور الفاظ کو بھی غلط وزن پر باندھا گیا ہے مثلاً ع
نفیٔ عہدہ گزشتہ کو بار بار نویدؔ
میں ''نفی‘‘ کا وزن درست نہیں جو ''شمع‘‘ کے وزن پر ہے‘ جیسے غالبؔ نے باندھا ہے‘ ع
نفی سے کرتی ہے اثبات تر اوش گویا
ایک مصرع ہے ع
کرّئہ ارض پہ چلنے کی روش کھینچتا ہے
یہاں ''کُرہ‘‘ بغیر تشدید کے ہی درست ہو گا ۔ ایک مصرع ہے ع
پہن لی میری انگوٹھی اُس نے گوہر چُوم کر
اس میں ''لفظ‘‘ پہن۔ صحیح وزن میں نہیں آیا۔ مصرع اس طرح سے ہوتا تو ٹھیک تھا ع
اُس نے انگوٹھی پہن لی میری گوہر چُوم کر
تاہم اُستاد نے چونکہ اپنے آپ کو غالبؔ کا ہم پلہ قرار دیا ہے‘ اس لیے شاید ان کوتاہیوں کا اُنہیں حق بھی پہنچتا تھا جیسا کہ وہ کہتے ہیں ؎
کل تھا غالبؔ آج ہے لیکن نویدؔ
آج عالم اور ہے بازار کا
کچھ مزید باتیں‘ اُستاد کے لیے کم اور جونیئر شعراء کے لیے زیادہ۔ مثلاً یہ کہ قافیے کو بُرے کے گھر تک پہنچانا ضروری نہیں ہوتا‘ خاص طور پر اُس وقت جب قافیہ تنگ بھی ہو۔ اس کے علاوہ زمین طے یا منتخب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ رواں اورشستہ ہو کیونکہ زمین ہی غزل کا رُخ متعین کرتی ہے۔ زمین جس قدر رواں اور آسان فہم ہو گی‘ غزل کی کامیابی کی دلیل بھی ٹھہرے گی۔ اور یہ غزل کی بنیاد بھی ہے کیونکہ خیال جب آتا ہے تو عموماً کسی مصرع کی صورت میں آتا ہے‘ یا تھوڑے تردد سے اُسے مصرعہ بنا لیا جاتا ہے‘ اور یہی زمین کا تعین بھی کرتا ہے۔ قافیہ دہرانا میرے نزدیک شاعر کی ناتوانی ٔ طبع کی نشانی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عیبِ تنافر کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بنیادی طور پر ایک غزل گو کو زبان پر بھی کماحقہ عبور حاصل ہونا چاہیے کہ یہی اس کا اصل ہتھیار بھی ہے۔ بلکہ اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی لفظ شعر میں دوبارہ یعنی تکرار کے ساتھ نہ آئے بلکہ کوئی بھی اہم یا کلیدی لفظ غزل میں دوبارہ نہیں آنا چاہیے یا کم از کم اس ضمن میں احتیاط ضرور روا رکھنی چاہیے۔ پھر ایسا نہ ہو کہ جس طرح اُستاد بالعموم خود کرتے ہیں کہ زمین بھی مشکل‘ قافیہ بھی تنگ اور دیگر الفاظ بھی مشکل سے مشکل رکھے جائیں۔ کیونکہ غالبؔ نے تو ایک طرح سے شعر کی ظاہری صورت کو معنی پر بھی فوقیت دی ہے یا کم از کم اسے برابر کی اہمیت ضروری ہے مثلاً
گربہ معنی نرسی جلوۂ صورت چہ کم است
خم زلف و شکن طرف کلا ہے دریاب
بلکہ اُردو میں بھی کہا ہے ؎
نہیں گرسرو برگِ ادراک معنی
تماشائے نیرنگ صُورت سلامت
اور‘ اب وعدہ کے مطابق اُستاد کے یہ خوبصورت اشعار :
میں اپنے آپ کو باہر سے دیکھنے لگا تھا
اسی لیے مجھے اندر کے کام بھول گئے
ہم نے بھی جاں سے جانے کا پہیہ گھما دیا
وہ بھی گئے تو قول و قسم ساتھ لے گئے
آنکھ کا دروازہ دروازہ تھا کیا
بند ہو جانے پہ جو اکثر کھلا
بگڑنے کی جو ہمیں عُمر تھی ملے نہیں تم
اور اب سُدھرنا نہیں ہے اور اب سُدھارتے ہو
اچھا ہوا کہ وقت پہ آنکھ اُن کی کھُل گئی
اُن کو مرے عیوب نظر آنے لگ گئے
جانے کیا بات ہے اب کوئی سروکار نہیں
دھیان رکھتا ہے کوئی پھر بھی برابر میرا
آج کا مطلع
خود کرے گا کبھی ازالہ بھی
خوش رہے رنج دینے والا بھی