ڈیری مافیا بھی اپنے فن کی ایسی ماہر ہے کہ ''صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ والی کیفیت پیدا کیے رہتی ہے یعنی کچھ پتا ہی نہیں چل پاتا کہ یہ چاہتی کیا ہے۔ یہ مافیا ہر چند ماہ بعد دودھ کے نرخ کا گڑا مُردہ اکھاڑ بیٹھتی ہے۔ جب بھی یہ مُردہ اکھاڑا جاتا ہے، دودھ کو ترسے ہوئے عوام کی رگوں کا خون خشک ہونے لگتا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جس دودھ تک رسائی پہلے ہی بہت مشکل ہے اُسے مزید کمیاب اور دسترس سے مزید باہر کیوں کیا جارہا ہے۔ دودھ کے خوردہ فروش بھی ایسی ہر کوشش سے شدید پریشان ہو اٹھتے ہیں کیونکہ صارفین کے تمام شِکووں، شکایات کے ساتھ اشتعال کا سامنا بھی اُنہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ڈیری فارمرز تو اپنے گھروں میں یا پھر بھینسوں کے درمیان خوش رہتے ہیں۔ یومیہ بنیاد پر دودھ خریدنے والوں کو غصہ اتارنے لیے صرف خوردہ فروش دستیاب ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال کے لیے کہا جاتا ہے کرے کوئی، بھرے کوئی یا طویلے کی بلا بندر کے سَر!
ہمارے ہاں بہت سے محاورے اور کہاوتیں دودھ کے وجود سے وابستہ و مشروط ہیں۔ اگر دودھ کا وجود خطرے میں پڑگیا تو زبان و ثقافت سمیت بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ جو شخص نہایت پارسا ہونے کا دعویٰ کرے اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہاں ، بھئی وہ تو دودھ کا دُھلا ہے۔ شاید کسی زمانے میں ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ دودھ کے دُھلے ہوتے ہوں گے مگر اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ دودھ پٹرول سے بھی مہنگا ہوگیا ہے! اگر کسی کو دودھ کا دُھلا ہونے کا ایسا ہی شوق ہے تو پٹرول سے نہالے، سستے میں چُھوٹ جائے گا! اور ویسے بھی میں پٹرول میں آگ پکڑنے کی اب اُتنی صلاحیت نہیں پائی جاتی جتنی دودھ کے نرخ میں دیکھی گئی ہے!
لوگوں کو پینے کے لیے دودھ فراہم کرنے کے نام پر ڈیری مافیا تو خون پینے پر تُل گئی ہے۔ کسی زمانے میں لوگ جیسے تیسے مہینے میں ایک آدھ مرتبہ بکرے کا گوشت کھالیا کرتے تھے۔ اب بکرے کا گوشت اس قدر مہنگا کردیا گیا ہے کہ کوئی غریب بکرے کا گوشت کھانے کا سوچتا بھی تو ہے تو پہاڑی بکرے جیسا منہ نکل آتا ہے! ڈیری مافیا چاہتی ہے کہ بکرے کے گوشت کی طرح دودھ کو اس قدر مہنگا کردیا جائے کہ اس نعمت کو پینا اسٹیٹس سمبل بن جائے! حقیقت یہ ہے کہ اب دودھ پینے کی خواہش دل میں جاگے تو انسان کو با دلِ ناخواستہ خون کے گھونٹ پینے تک محدود رہنا پڑتا ہے! جب تک خون کے گھونٹ پینے پر کوئی باضابطہ ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا، تب تک اِسی پر اکتفا کیجیے۔
جب دودھ پینا ہی جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرے تو لوگ ''دودھوں نہاؤ‘‘ٔ والی دعا بھی طاقِ نسیاں پر دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اب بزرگ کس منہ سے کہیں دودھوں نہاؤ کیونکہ دودھ سے ایک بار نہانے کے لیے پندرہ بیس ہزار کی کمیٹی ڈالنا پڑے گی! اور جب تک کمیٹی کھل نہیں جاتی تب تک دودھوں نہانے کی حسرت ہی سے تر رہنے پر گزارا کرنا پڑے گا۔
دودھ کے نرخوں میں اضافے سے بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دہی، لسّی، پنیر، کریم، ربڑی، گھی، کھویا، چھاچھ ... سبھی کچھ اچانک عام آدمی کی دسترس سے بہت دور جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خالص گھی، کھویا اور ربڑی وغیرہ تو خیر سے اب خیال و خواب کے آئٹم ہیں۔ خاص طور پر اصلی گھی تو اڑیل بھینسے جیسا ہوگیا ہے، ہاتھ لگانے کی کوشش کرو تو بدکنے لگتا ہے۔ ہاں، لسّی ضرور کسی نہ کسی حد تک غریب کی دسترس میں ہے۔ اور چھاچھ تو ہے ہی غریب کا آئٹم۔ مگر ڈیری مافیا جس ''ایجنڈے‘‘ پر عمل کر رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ دودھوں نہانا تو رہا ایک طرف، کچھ دن بعد چھاچھوں نہانا بھی ستاروں سے آگے کے جہاں تلاش کرنے اور عشق کے امتحانوں سے گزرنے جیسا معاملہ ہوجائے گا!
ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کا معدہ خالص چیزیں کھانے اور پینے کا عادی تھا۔ ہر اچھی چیز اچھی طرح ہضم ہو جایا کرتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ ناقص چیزیں کھا کھاکر لوگوں کی قوتِ انہضام جواب دے گئی۔ اس کے نتیجے میں خالص چیزوں کا چلن ہی ختم ہوگیا۔ ایک گوالے نے یومیہ معمول کے مطابق دودھ فراہم کیا تو اگلے دن چند گھروں سے شکایت موصول ہوئی کہ لوگوں کے پیٹ خراب ہوگئے۔ پہلے تو گوالے نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گریز کیا مگر جب زیادہ ڈانٹ ڈپٹ ہوئی تو اُس نے تسلیم کیا کہ وہ اُس دن دودھ میں پانی ملانا بھول گیا تھا!
ایسا ہی ایک اور قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دودھ والا اپنے بیٹے کو مار رہا تھا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو اُس نے بتایا کہ بیٹا دودھ میں پانی ملا رہا تھا۔ لوگ بڑے متاثر ہوئے کہ یہ دودھ والا تو بہت ایمان دار ہے کہ دودھ میں پانی ملانے پر بیٹے کی پٹائی کر رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں بات دوسری طرف سے کھل کر سامنے آئی۔ معاملہ یہ تھا کہ بیٹا دودھ میں پانی ملا رہا تھا جبکہ باپ نے پانی میں دودھ ملانے کی ہدایت کی تھی!
مافیاؤں کی مہربانی سے اِتنا تو ہوا ہے کہ دودھ اور پانی ایک پیج پر آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر آج ہمیں گوالے پانی ملا دودھ فراہم کر بھی رہے ہیں تو غم کی کچھ بات نہیں۔ یہ سلسلہ زیادہ دن جاری نہ رہ سکے گا۔ واٹر مافیا پانی جس رفتار سے مہنگا کرتی جارہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ مدت کے بعد دودھ میں پانی ملانا گوالوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہوجائے گا! ہر اعتبار سے شفاف اور بے عیب پانی تو آج بھی دودھ کی برابری کر رہا ہے۔ چلیے، مہنگائی کی مہربانی سے پانی خالص ملے نہ ملے، کم از کم دودھ تو خالص مل جایا کرے گا۔
کراچی میں لوگوں کے لیے پینے کی اور تمام چیزیں تو قوتِ خرید کی رینج سے باہر ہوئیں۔ مثلاً لسّی پینے کے لیے جیب کا پہلوان ہونا لازم ٹھہرا ہے! اگر اہلِ خانہ کو کسی اچھی شاپ میں ملک شیک پلانے کا موڈ ہے تو سمجھ لیجیے اگلے دو تین دن روٹی کو پانی میں بھگوکر نگلنے پر اکتفا کرنا پڑے گا! ایسے میں لے دے کر ایک چائے رہ گئی ہے جو بجٹ کے اعتبار سے ''قابلِ پی‘‘ ہے۔ ڈیری مافیا چاہتی ہے کہ عوام چائے پینے کے قابل بھی نہ رہیں۔ کراچی کے رونق میلے کا بڑا حصہ کوئٹہ پشین ہوٹلوں کے دم سے ہے۔ اور ان ہوٹلوں کی بہار چائے کے دم قدم سے ہے۔ دودھ مہنگا ہوا تو کسی اور حوالے سے کچھ ہو نہ ہو، چائے کے معاملے میں تو ہاہا کار ضرور مچے گی۔ اس وقت بھی ''کٹ‘‘ یعنی نصف کپ چائے پندرہ سے بیس روپے کی چل رہی ہے۔ اگلا قدم یہ ہوگا کہ اتنے پیسوں میں ایک گھونٹ چائے ملا کرے گی۔ اب چاہو تو پیو، چاہو تو کپ میں جھانک کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاؤ!