پاکستان کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار (یاد رہے انہوں نے وزارت خزانہ کا منصب نہیں چھوڑا۔ صرف چھٹی پر ہیں) کی جگہ وزارت خزانہ کا کام کرنے کے لئے وزیر مملکت رانا محمد افضل خان رکھ لیے گئے ہیں۔ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیں۔ مفتاح صاحب‘ بڑی دیر سے وزارت خزانہ کے گرد منڈلا رہے تھے۔ جب ان کے ہاتھ لگا تو خزانے کی حالت دیکھ کر حواس باختہ ہو گئے۔ اسی حالت میں انہوں نے اپنے جس پہلے فیصلے کا اعلان کیا‘ اسے پڑھ کے ہر اس شخص کے چھکے چھوٹ گئے‘ جس کی نظر پاکستانی خزانے پر تھی۔ مفتاح صاحب نے مالی مشکلات کا جو آسان ترین حل پیش کیا‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت‘ مفتا ہی لگانے آئے تھے۔ اعلان یہ تھا کہ پاکستان کی واحد سٹیل مل‘ وہ ایک روپے میں فروخت کر دیں گے اور پی آئی اے پر مفتا لگایا جائے گا۔ سٹیل مل سے جو ایک روپیہ قیمت وصول کی جائے گی‘ اس میں پی آئی اے کی خریداری ہو جائے گی۔ اس اعلان پر جب چاروں طرف ہاہا کار مچی تو موصوف نے اپنے بیان پر یقین کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ''بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سٹیل مل ایک روپے میں بیچ کر اس رقم سے پی آئی اے خرید لی جائے‘‘۔ جب پاکستان کے سارے قرض خواہ اپنے اپنے جہاز لے کر کراچی پر منڈلانے لگے اور جب کسی جہاز کو لینڈنگ کی گنجائش نہیں مل رہی تھی تو مفتاح صاحب کراچی اور لاہور کے درمیان کہیں غائب ہو گئے۔ پاکستان کے قرض خواہوں نے ہر بڑے شہر پر چڑھائی کر دی۔ جیسا کہ عرض کیا‘ کراچی ایئر پورٹ پر کسی کو لینڈنگ کی گنجائش نہیں مل رہی تھی۔ ملک کے سارے ایئر پورٹوں پر لینڈنگ کی جگہ ڈھونڈی جا رہی تھی۔ بعض نے سکھر جا کے ڈیرے لگائے۔ کچھ فضا میں اڑتے اڑتے کوئٹہ کی طرف جا نکلے۔ انہیں پتا چلا کہ شہر کے سارے معززین کراچی جا چکے ہیں۔ کراچی والے سیدھے لاہور بھاگے۔ یہاں بھی کراچی والی حالت تھی۔ آخر میں یہ لوگ پشاور گئے۔ وہاں کے لوگوں کو بتایا کہ ہم سٹیل مل خریدنے آئے ہیں۔ یہاںحساب لگا کر دیکھ لیا ہے کہ ہم ایک روپے میںسٹیل مل خرید کر اسی رقم سے‘ پی آئی اے خریدنے آئے ہیں۔ جب یہ ساری سرگرمیاں پوری ہونے کے قریب آئیں تو مفتاح صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ''پاگلو! کبھی سٹیل مل بھی ایک روپے میں ملتی ہے؟ اور پی آئی اے تو ایک روپے کی بھی نہیں رہ گئی۔ اب جو اسے خریدے گا‘ اسے پی آئی اے کے ملازمین کی برسوں سے جمع شدہ تنخواہ ادا کرنے کے علاوہ‘ خود پی آئی اے کے قرض بھی اتارنا ہوں گے‘‘۔ یہ سن کر سارے خریدار سر پر پائوں رکھ کر بھاگ نکلے۔
اس شاندار آفر کو دیکھ کرجب جناب اسحاق ڈارنے ا پنے ''عزیز ترین عزیز‘‘ سے فون پر معلومات حاصل کیں تو انہیں حقیقت کا پتا چلا کہ میں نے وزارت خزانہ کا جو پورا پورا ''بندوبست‘‘ کیا تھا‘ اللہ کے فضل سے اب وہ قابل عمل ہو چکا ہے۔ آپ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی سے کہہ دیں کہ مجھے چارٹر جہاز‘ لندن بھیج کر پاکستان بلا لیں۔ ''آگے میں جانوں اور پاکستان کا قومی خزانہ جانے‘‘۔ جب جہاز کراچی سے روانہ ہونے لگے تو مجھے بتا دیا جائے کہ ہیتھرو ایئر پورٹ پر کتنے بجے اترے گا؟ میں فوری طور پر ہسپتال کے اس پلنگ پر جا لیٹوں گا اور پی آئی اے کی گاڑی مجھے فوراً جہاز تک لے جائے گی۔ چارٹر جہاز کی آمدورفت کا بل وزارت خزانہ ادا کر دے گی۔ میں ابھی تک چھٹی پر ہوں۔ میرے تمام اخراجات میرا محکمہ ادا کر دے گا۔
جب یہ خبر اسلام آباد میں وزارت خزانہ کے عملے کو پہنچی تو ان کے چھکے چھوٹ گئے۔ وزیر مملکت اور مشیر خزانہ بھاگے بھاگے وزیراعظم کے دفتر پہنچے۔ وہاں سے پتا چلا کہ ساری حکومت‘ سپریم کورٹ پہنچی ہوئی ہے اور سارے عہدیدار‘ بڑے میاں صاحب کی پیشی پر گئے ہوئے ہیں۔ ڈار صاحب نے کوشش تو بہت کی کہ چھپتے چھپاتے عدالت میں ہجوم کے اندر سر جھکا کے کھڑے رہیں لیکن یہ خبر نیب والوں تک پہنچ گئی۔ نیب اہلکار ابھی اپنے دفتر کے مرکزی دروازے ہی سے نکلے تھے‘ جب انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف دیکھا تو ڈار صاحب‘ بڑے میاں صاحب کی ستر کاروں میں سے ایک میں چھلانگ لگا کر گھسے اور پچھلی سیٹ پر لیٹ گئے۔ یہ کار فراٹے بڑھتے ہوئی جاتی امرا کی طرف چلی گئی۔ وہاں سے پتا چلا کہ بڑے
میاں صاحب تو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں گئے ہیں۔ ابھی ڈار صاحب‘ پنجاب ہائوس کی پارکنگ میں داخل ہوئے تو عملے کے سینئر اراکین‘ زور زور سے ہاتھ ہلاتے پارکنگ میں آئے اور انہیں تیزی سے اشاروں میںبتایا کہ وہ تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے‘ انتہائی تیز رفتاری سے جاتی امرا پہنچ جائیں۔ وہاں پر آپ کو بڑے میاں صاحب مل جائیں گے۔ جیسے ہی ڈار صاحب کی کار رائیونڈ روڈ پر پہنچی تو پنجاب ہائوس کے عملے کی طرف سے جاتی امرا کے ناکے پر‘ ڈار صاحب کو بتا دیا گیا کہ بڑے میاں صاحب‘میاں منیر صاحب کے گھر گئے ہیں۔ اس وقت تک مہمان کو میاں منیرصاحب کے گھر جانے کی اجازت نہیں‘ جب تک اندر سے بلاوا نہ آ جائے۔ آٹھ دس ملازمین بھاگے بھاگے مرکزی گیٹ پر پہنچے۔ انہوں نے بلند آواز میں ڈار صاحب کا نام لینا شروع کیا۔ اپنا نام سن کر ڈار صاحب بھاگ کھڑے ہوئے۔ ملازمین نے تعاقب کیا اور انہیں دبوچ کر ایئر پورٹ لے گئے۔ ڈار صاحب بھاگم بھاگ ڈپیارچر لائونچ میں گئے تو پتا چلا کہ بڑے میاں صاحب تو جہاز کے اندر بیٹھ چکے ہیں۔ اچانک طلال چودھری نے ڈار صاحب کو دیکھا تو انہیں تیز رفتاری سے دھکے دیتے ہوئے‘ جہاز کی سیڑھی تک لے گئے اور سابق وزیراعظم اپنے حاضر سروس وزیر خزانہ کو لے کر لندن کی طرف پرواز کر گئے۔ جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی میاں صاحب نے مسکرا کر کہا ''آپ کا بستر اسی ہسپتال کے‘ اسی بیڈ پر لگا دیا گیا ہے۔ آپ کی وہی یونیفارم کمرے میں رکھی ہوئی ہے‘ جا کر پہن لیجئے گا۔ اور اپنی وہی شہرہ آفاق تصویر جو آپ کا میڈیا سیل مسلسل چھپواتا رہا ہے‘ بھجوا دیں۔ واپسی کا پروگرام نہ آپ کی مرضی پر ہے اور نہ میری‘‘۔
ڈار صاحب گھبرا کے کہتے ہیں ''سنا ہے واپسی پر آپ اڈیالہ جائیں گے؟‘‘
''اگر مجھے اڈیالہ جانا ہوتا تو آپ کو لندن چھوڑنے آتا؟‘‘
''یعنی آپ مجھے لندن چھوڑیں گے؟‘‘
''بتایا نہیں؟ آپ کا کمرہ لندن کے ہسپتال میں ہی مخصوص ہے‘‘۔