تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     18-03-2018

سوال کا جواب

اگست 1947ء میں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو ایک میں ہندوئوں کی اکثریت تھی، دوسرے میں مسلمانوں کی۔ ایک کا نام ہندوستان رہا تو دوسرے نے خود کو پاکستان کہلانا پسند کیا اور اس پر ناز بھی کیا کہ یہ نام منفرد تھا جو ایک دعویٰ بھی تھا اور وعدہ بھی۔ پاکستان کی مجلسِ دستور ساز نے اسے اسلامی جمہوریہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اول الذکر کے خالقوں نے اپنے ملک کو سیکولر سوشلسٹ جمہوریہ بنانے کا عزم دہرایا۔ دونوں کے آدرش الگ الگ تھے، لیکن جمہوریت سے ناتہ دونوں کا جڑا ہوا تھا۔ دونوں ہی کا نظام عوام کے منتخب نمائندوں کو چلانا تھا، گویا سوچ اور مزاج خواہ الگ ہوں، لیکن یہ بات طے تھی کہ عوام کے ذریعے عوام کی حکومت ہو گی جو عوام کے لئے کام کرے گی۔ ہندوستان کتنا سیکولر ہے اور پاکستان کتنا اسلامی، اس کا فیصلہ ہر وہ شخص بآسانی کر سکتا ہے، جو دونوں کے حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی فرصت بھی رکھتا ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی گاڑی جس پٹڑی پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ آج تک اسی پر چل رہی ہے۔ جو دستور آزادی کے بعد مجلس دستور ساز نے بنایا آج تک وہی نافذ ہے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد وہاں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور جو بھی جھگڑے ہوتے رہے ہوں، اس بات پر آج تک کوئی جھگڑا نہیں ہوا کہ ووٹ کی طاقت سے حکومت بننی چاہیے اور ووٹ ہی سے ختم ہونی چاہیے۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب پارلیمنٹ موجود نہ رہی ہو۔ پارلیمانی نظامِ حکومت اپنی تمام تر خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ چلتا چلا جا رہا ہے۔ نہ تو سیاستدانوں کے جھگڑوں میں فوج نے کوئی مداخلت کی، نہ کسی حساس ادارے پر زیر کو زبر کرنے کا ہنگامہ کھڑا ہوا، نہ ایسے دانشور پیدا ہوئے جو اپنے نظام کو للکار رہے ہوں، نہ اپنے وزیر اعظم کی ناک رگڑنے کا شوق کسی نے پالا اور نہ اپنے صدرِ مملکت کی درگت بنانے اور اس پر فقرے چست کرنے کو بہادری قرار دینے والے دیکھنے میں آئے۔ نہ بالغ رائے دہی کے خلاف کوئی کمیشن بنا، نہ بالواسطہ انتخاب کے فوائد گنوائے گئے۔ نہ عوام کو جاہل اور بے شعور قرار دے کر ان کو دھتا بتانے والے پیدا ہوئے۔ یہ برائیاں وہاں بھی بہت ہیں، کروڑوں غریب وہاں بھی موجود ہیں، کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار ، بد اخلاقی، دھوکہ بازی، دہشت گردی، غرض کوئی برائی ایسی نہیں جو وہاں نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن مارو، دوڑیو، پکڑیو، نے معاشرے کو لپیٹ میں نہیں لے رکھا۔ معیشت ہے کہ پھیل رہی ہے، سرمایہ کاری بڑھتی جا رہی ہے، تعلیمی ادارے اپنی دھن میں مگن ہیں، عدالتیں اور قانون دان اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں، مسائل حل ہو رہے ہیں اور پیدا بھی ہو رہے ہیں۔ کسی ادارے میں دوسرے ادارے کی سرکوبی کا خیال نہیں آتا۔ ہر ایک دوسرے کی حدود کا خیال رکھتا ہے، جہاں کوئی جھولنے لگے وہاں سنبھالنے والے بھی آ موجود ہوتے ہیں۔ عدلیہ پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ قوانین کا بنیادی حقوق کی روشنی میں جائزہ لینے کا حق اپنا رعب بٹھانے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ وزرائے اعظم کو براہ راست احکامات نہیں دیئے جاتے، ان کی بے توقیری میں اپنی توقیر کا سامان نہیں ڈھونڈا جاتا۔ سرکاری افسروں کو عدالتوں میں کھڑا کرکے ان کی مشکیں نہیں کسی جاتیں۔ جوڈیشل ایکٹوازم شخصی معاملات میں الجھ نہیں پاتا۔ انتخابات کے لئے کسی نگران حکومت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ حکومت اپنا کام کرتی اور الیکشن کمیشن اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے۔ انتظامیہ تو کیا عدلیہ بھی اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ اس کے اقدامات پر رٹیں جاری نہیں ہوتیں۔ نتیجتاً معاشرے میں ایک ٹھہرائو ہے، ابال جو بھی آئے، فساد جو بھی ہو، ہنگامہ جو بھی اٹھے۔ اندرون اور بیرون ملک ہر شخص کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنی جگہ پر رہنا ہے اور اپنا کام کرتے چلے جانا ہے۔ اس کے برعکس ذرا اپنی طرف دیکھئے ہر ادارہ دوسرے کے درپے ہے۔ اپنا رعب قائم کرنے کے مرض (خبط) میں مبتلا ہے۔ منتخب عہدیدار پارلیمنٹ کو وقت نہیں دیتے۔ ان کی بود و باش شاہانہ ہے۔ قومی خزانے کو بے دریغ لٹاتے اور نمود و نمائش پر جان دیتے ہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں ہزاروں کیا لاکھوں فریادی بلبلاتے نظر آتے ہیں، لیکن زنجیر عدل تک ان کا ہاتھ نہیں پہنچتا۔ حساس ادارے کسی قاعدے ضابطے کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن اعتماد سے محروم نظر آتا ہے اور نگران حکومت کے دانت تیز کرنے کے لئے منصوبہ ساز منصوبے بناتے نظر آتے ہیں۔ اسے آئین کے دائرے سے باہر نکالنے کی خواہشات پالتے رہتے ہیں۔ لیجیو، پکڑیو، دوڑیو کی گردان ہے، کسی کو خبر نہیں ہے کہ معیشت کا کیا حال ہونے والا ہے۔ بے یقینی، سرمایہ کاری کی قاتل ہے، اس سے سفینے ابھرتے نہیں، ڈوبتے ہیں۔
جگہ جگہ نوجوان سوال کرتے ہیں، ہمارا ہمسایہ اگر جمہوریت کے راستے پر گامزن رہ سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں، ہماری بود و باش، انداز و اطوار اتنی بھی مختلف نہیں کہ ہم دونوں مختلف سیاروں کی مخلوق سمجھے جائیں۔ پھر ہم دستور شکنی کے مرض میں کیوں مبتلا ہیں؟ اولاً تو دستور بنا نہیں پائے، بنایا تو چلا نہیں پائے، نیا دستور بنانے کے شوق میں آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن آج بھی اس کی اہمیت کا ادراک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آخر کیوں؟ پیچھے کی طرف ہمارا سفر کب رکے گا، اس سوال کا جواب ہر اس شخص اور ادارے کے ذمے ہے جو اپنے کام کے علاوہ ہر کام کرنے پر ہر وقت تیار رہتا ہے۔
سوانح حیات، چودھری رحمت علی
چودھری رحمت علی ہماری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار ہیں۔ انہوں نے اس وقت مسلمانوں کے علیحدہ ملک (یا ممالک) کا تصور پیش کیا، جب بڑے بڑے اس پر غور کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کی شخصیت، خیالات اور خدمات کا تفصیلی جائزہ پاکستان کے ممتاز مؤرخ کے کے عزیز مرحوم نے اپنی کتاب ''رحمت علی، اے بائیو گرافی‘‘ میں لیا ہے۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے، لیکن ان کی گراں قدر تصنیف کا اردو ترجمہ کرنے کا شرف چودھری گلزار محمد ایڈووکیٹ کی تحریک پر بیرسٹر اقبال الدین احمد کو حاصل ہوا، جسے مکتبہ جمال اردو بازار لاہور نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ 
چودھری صاحب نے برصغیر کے ہندو مسلم مسئلے کے حل کے لئے جو تجاویز پیش کیں، اور پاکستان کے جس تصور پر زور دیتے رہے، اسے نام کی حد تک تو مسلم لیگ نے اپنایا اور اس لحاظ سے ان کی خوشہ چینی کی... لیکن بدقسمتی سے تحریکِ پاکستان سے باقاعدہ وابستگی کا شرف چودھری صاحب کو حاصل نہ ہو سکا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے شدید ردِ عمل نے انہیں پاکستانی سیاست اور مملکت سے دور رکھا... جس پاکستان میں ہم آج رہ رہے ہیں، وہ مسلمان اکثریت کے جغرافیائی طور پر متصل علاقوں کو ملا کر تخلیق کیا گیا۔ چودھری صاحب نے قرارداد لاہور، اس کے نتیجے میں برپا ہونے والی تحریک اور تخلیق پاکستان سے کوئی سروکار نہیں رکھا، لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں پائے جانے والے درد کا احساس اور اعتراف کیا جانا چاہئے۔ اس لحاظ سے زیر نظر کتاب کا مطالعہ اپنی افادیت رکھتا ہے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved