تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     18-03-2018

زوالِ نعمت کے اسباب

ہم میں سے ہر کسی نے‘ کسی امیر شخص یا اس کی اولاد کو بہت زیادہ غریب ہوتے ہوئے‘ اسی طرح صاحبِ اقتدار لوگوں کو اقتدار سے محروم ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ زوالِ نعمت کے اسباب پر مادی اعتبار سے تو غور کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں کتاب وسنت سے بالعموم رہنمائی حاصل نہیں کی جاتی۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ناشکری اور نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے چھن جانے پر منتج ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شکر کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 152 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ تم میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 7 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اگر تم شکر کرو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 148 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا‘ اگرتم شکر گزار بنے رہو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف میں اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ شیطان لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری پر آمادہ وتیار کرتا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 16 اور 17 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شیطان کی اس بات کو بیان فرمایا کہ اس نے کہا ''جس طرح تم نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا، میں بھی سیدھی راہ پر انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا۔ پھر میں ضرور آؤں گا ان کے آگے اور پیچھے‘ دائیں اور بائیں، اور نہیں پائیں گے آپ ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا‘‘۔
چنانچہ شیطان کے وسوسے اور نفس کی اکساہٹ کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 243 میں یوں فرماتے ہیں ''بے شک اللہ تعالیٰ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔
انبیاء علیہم السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی شکر گزاری کے راستے پر کار بند رہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے قول کو سورہ نمل کی آیت نمبر 19 میں یوں بیان فرمایا ''اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں شکر کروں تیری نعمت کا جو تو نے انعام کیا مجھ پر اور میرے والدین پر‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ناشکرے اور احسان فراموش لوگوں کی مذمت کی ہے اور سورہ سباء کی آیت نمبر 15سے17 میں سباء کی بستی کے ناشکرے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''بلاشبہ‘ یقینا سباء کے لیے ان کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی تھی۔ دو باغ (دائیں اور بائیں جانب تھے) (ہم نے انہیں حکم دیا تھا) کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اس کا شکر ادا کرو۔ پاکیزہ شہر ہے اور بہت بخشنے والا رب ہے۔ پھر انہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھیجا ان پر زور کا سیلاب۔ اور ہم نے ان دو باغوں کے عوض بدلے میں دیے دو باغ ۔ بدمزہ میوہ اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے۔ یہ ہم نے بدلہ دیا انہیں اس وجہ سے جو انہوں نے کفر کیا اور نہیں ہم سزا دیتے مگر اسے جو بہت ناشکرا ہو‘‘۔
سورہ سباء ہی کی آیت نمبر 19 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سباء کی بستی پر اپنی گرفت کے حوالے سے اس امر کا بھی ذکر کیا ''اور انہوں نے ظلم کیا اپنی جانوں پر تو ہم نے بنا دیا انہیں کہانیاں‘ اور ہم نے مکمل طور پر انہیں ٹکرے ٹکرے کر دیا۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر وشاکر ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بلا سبب کسی شخص یا قوم سے نعمتوں کو نہیں چھینتے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرماتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل لیتی۔ قرآن مجید کی ان آیات پر غور وخوض کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ انسان کی ناکامی اور زوال کا بہت بڑا سبب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرنا ہے۔ جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں میں سے اس کے حق کو ادا کرتے ہیں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر اپنی نعمتوں کو برقرار رکھتا ہے۔ جبکہ وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور احسان کو فراموش کر دیتے ہیں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں اس کے حق کو تسلیم نہیں کرتے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کفرانِ نعمت کے ساتھ ساتھ زوالِ نعمت کا ایک بہت بڑا سبب اللہ تبارک وتعالیٰ کے احسانات کو فراموش کرنا اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں اس کے حق کو تسلیم نہ کرنا ہے اور یہ بھی درحقیقت ناشکری ہی کی ایک قسم ہے۔ 
اس حوالے سے بخاری شریف میں مذکور یہ واقعہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! (یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے‘ دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی) چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے‘ بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر‘ جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے‘ کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے‘‘۔
اگر ہم نعمتوں کے زوال سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں شکر گزاری اور تابعداری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ناشکری اور نافرمانی سے بچتے رہنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved