تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-03-2018

مشکل کام‘ بہترین لوگ

سیدنا علیؓ نے رجلِ رشید کا معیار ان لفظوں میں بیان کیا ''مشکل ترین کام‘ بہترین لوگوں کے حصے میں آتے ہیں کیونکہ وہ اسے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ 
2013ء کی الیکشن مہم میں، دی لاسٹ ریڈرز آف پاناما کا دعویٰ گڈگورننس کے لیے انتہائی تجربہ کار ٹیم رکھنے کا تھا۔ اس ٹیم کی شعبدہ بازی، دھوکہ دہی، نوسر بازی آج پانچ سال بعد راج نیتی کے میدان میںبال کھولے کھڑی ہے۔ تجربہ کار ٹیم کی گڈ گورننس ٹرم پوری ہونے میں دو ماہ ایک ہفتہ باقی ہے۔ جس کے بعد تجربہ کار ٹیم کے اقتدار کے تیسرے رائونڈ کے 1823 دن مکمل ہو جائیں گے۔ تجربہ کار ٹیم کے شاہکار اقتدار میں سے لِیپ سال والے دو دن‘ میں نے از خود کم کر کے چھوڑ دئیے۔ آخری سو دنوں میں نااہلِ اعظم کی اچھی حکمرانی نے جاوید میانداد والا چھکا مارا۔ پاکستانی کرکٹ کے عروج کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ چھکا یو اے ای میں مارا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان اسلامی دنیا کے یکے از پاسبان تھے۔ غریب، ترقی پذیر ملک مگر ہمیشہ ان کی ترجیح ٹھہرے‘ مسلمان اور پاکستان۔
آج کل اُس جزیرہ نما عرب میں جہاں فخرِ انسانیت سیدِنا ابراہیم ؑکے اعلیٰ نسب سے تشریف لانے والے آخری پیغمبر‘ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ نے لات و منات کے بت گرائے اور جزیرہ کو بُتوں سے پاک کر دیا۔ اسی جزیرہ کے جہانِ تازہ کے راہ نما بت پرستی کے نشان مودی کے ہندوستان کی خوشنودی کے لیے 1448 سال بعد بت شکنی کا سبق بھول گئے۔ مودی کو ایوانِ اقتدار میں سرکاری اعزاز بخشے گئے۔ یہی نہیں بلکہ بت پرستی کے اس عالمی مبلغ کو حریمِ عرب تک رسائی دی گئی۔ مودی کے ساتھ مخلوط سیلفیاں بنوا کر اُنہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیا تاکہ سند رہے اور ملوکیت کے دوام کے لیے مغربی طاقتوں کے دربار میں بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم پتنگ بازی ختم کروانے، بسنت کو روکنے، گلاب کے پھول بیچنے والوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے، دل کے نشان والے سرخ غبارے پھوڑنے، نیو ائیر نائٹ والے الفاظ اُردو کی ڈکشنری سے حذف کرنے، بچیوں کے نکاح کی عمر نیچے کھینچ کر 10 سال سے12 تک لانے اور کھیرا کاٹنے کے جائز طریقے جیسی عالمی ایجادات اور دریافتوں میں مشغول ہیں۔ ساتھ خالص عوامی نمائندگی کے حصول کے لیے عرب شہزادوں کے دسترخوان سے بچے ہوئے ٹکڑوں کے صدقے، سینٹ کے ممبر بن کر اپنے وطن میں مشکوک ایمان والوں کی تلاش میں سرگرداں نہ ہوتے تو یقینا بت شکن بن کر دکھا دیتے۔ باقی بچے‘ چابہار کے پاسداران اور پرموٹرز... تو وہ کلبھوشن کی پسندیدہ بندرگاہ میں ہمیں پارٹنر بنانا چاہ رہے ہیں۔
اِن دنوں ہندوستان کے راجستھانی صوبے کی ایک ویڈیو انڈین میڈیا سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں ادھیڑعمر بھارتی مسلمان اور ہندوتوا سنگٹھن بریگیڈ کا عسکریت پسند دکھایا گیا۔ یہ وحشی جنونی چمڑے کے ہنٹر سے لیس ہوکر کیمرے پر اپنا نام پتا بتا کر تعارف کرواتا ہے۔ پھر سامنے گرائے ہوئے محکوم، مجبور اور مقہور مسلمان کے چہرے، سر، ہاتھوں اور چھاتی پر مسلسل دُرّے برساتا ہے۔ کئی منٹ کی اس ویڈیو میں نہتے مسلمان کے سامنے شُدّھی کے مذہبی مشن کا لشکری ایک ہی مطالبہ دُہراتاہے ''بولو جے رام جی کی‘ میں تیرے منہ سے نکلوائوں گا جے رام جی کی‘ میرے سے بچنا ہے تو بول جے رام جی کی‘‘۔ جواب میں بے بس مسلمان کہتا ہے کیوں مار رہے ہو۔ اور اُس کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے یا ربِ غفور الرحیم۔ اس ویڈیو کلپ کے آغاز میں جزیرہ نما عرب کے پہلے بت خانے کی افتتاحی تقریب میں کی گئی تقریر شامل ہے۔ انتہائی طاقت ور رہبر لات و منات سے بھی بڑے بتوں کے درمیان کھڑے ہو کر مسکراہٹ اور خوش دلی سے کہتا ہے۔ THANK YOU VERY MUCH جے رام جی کی۔
مسلم ہو یاغیر مسلم‘ ہر ملک کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جو چاہے پالیسیاں بنائے لیکن کوئی ریاست کسی بین الاقوامی کنونشن، قانون، ضابطے میں یہ اختیار نہیں رکھتی کہ وہ دوسرے خود مختار ملکوں میں اپنے گماشتے پیدا کرے، اُن کی فنڈنگ کرے، اُنہیں اقتداروں، اختیاروں اور پالیسی سازی تک پہنچنے کے لیے دانہ ڈالتی رہے۔
بات ہو رہی تھی جاوید میانداد والے چھکے کی۔ درمیان میں مسلم اُمہ کے گریبان کی دھجیاں دَر آئیں۔ مفرور سمدھی کے جانشیں نے قومی اداروں کا لنڈا بازار بنانے کا اعلان کیا۔ غیر منتخب اور ملکی خزانے کو چلانے کے لیے غیر ہُنر مند شخص ڈھونڈا گیا۔ بالکل اتنا ہی تجربہ کار جتنا امریکہ میں پاکستان کا نامزد سفیر۔ مشیر بولا: جو پی آئی اے خریدے گا، میں اُسے پاکستان سٹیل مِل مفت میں دے دوں گا... صرف ایک ڈالر کے بدلے۔ ڈالر کے بدلے وطن فروش دیدہ دلیری سے سب کچھ بیچنے پر آمادہ ہیں۔ وطن کی حرمت اور اہلِ وطن کی ناموس ایک طرف‘ اپنا سب کچھ ایک طرف۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ ججوں کا شکریہ جن کی وجہ سے قوم کو پتا چلا کہ پاکستان کے کس خادم اور خادمہ نے خلیج عرب کے شہزادوں کے سفارشی خط اور ا قامے پکڑے ہوئے ہیں۔ ابھی اگلے روز ماریشس کی صدر امینہ غریب فاکیم کا 25 ہزار یورو خورد برد کرنے کے الزام میں قصرِ صدارت سے ''کیوں نکالا‘‘ ہو گیا۔ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اپنی مشہوری پر کروڑوں خرچ کرنے والے کو ملک کی آخری عدالت نے اپنی اشتہار بازی کا خرچہ جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔ خادم ہو تو ایسا جو کروڑوں جمع کرانے کی بجائے کہتا ہے پہلے ایک دھیلا ثابت کرو۔
پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد آج ہم کراس روڈ پر ہیں۔ فیصلہ اور قوم آمنے سامنے۔ جو با ر بار ناکام ہوئے، انہیں پھر سے آزمانا ایک چوائس ہے۔ جو کچھ پچھلے دس سال سے ہوتا رہا۔ صحت، سلامتی، تعلیم، زراعت، پولیسنگ، میرٹ۔ استاد، کسان، دیہاڑی دار اور آٹا دال خرید کر کھانے والے یہ سب مزید پانچ سال کے لیے چاہتے ہیں، تو گھو ڑ وں کا پورا اصطبل حاضر ہے۔ میدان دو ماہ بعد سج جائے گا۔ دوسرا آپشن وہ ہے جسے ابھی تک حکمرانی کا موقع نہیں ملا۔ اگر الیکشن فیئر اینڈ فری ہوئے تو فیصلہ قوم نے کرنا ہے۔ جو نہیں آزمایا گیا اسے میڈیا ٹرائل کورٹ میں ہر روز آزمایا جا رہا ہے۔ بات بہ بات بہانے تراش کر... بھاری انویسٹ منٹ کے ذریعے مواقع ڈھونڈ کر۔
موجودہ سیاسی منظر نامے کا ایک اور پہلو دیکھئے۔ یہ ہے صف بندی... تعصب کی عینک اتار کر ملاحظہ فرمائیے۔ کون کس طرف کھڑا ہے۔ ایک طرف ناجائز نوکریاں... میرٹ، مقابلے، اشتہار، انٹرویوز کے بغیر عہدے۔ ایک ایک شخص پر کروڑوں کا خرچہ‘ سب سرکاری مال سے۔ انڈر19 ارب پتیوں کی ایک پوری فصل۔ کرپشن کے محلات، منی لانڈرنگ کے سات سمندر پار اثاثے۔ کک بیکس کا بزنس اور لوٹ مار کے ٹرائل بھی۔
دوسری جانب نہ کچھ چھن جانے کا خوف‘ نہ مال بنانے کی ہوس۔ کیا اس کھلے تقابل کو سمجھنے کے لیے ٹیوٹر چاہیے؟ مایوسی، غصے اور بغاوت میں یہی فرق ہے۔ سیاست رکھیے ایک طرف۔ قوم ووٹ کا آپشن استعمال کرتے وقت ایک معیار سامنے رکھ لے۔ وہی جو سیدنا علیؓ نے رجلِ رشیدکا بتایا۔ 
مشکل ترین کام‘ بہترین لوگ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved