تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-03-2013

اقوامِ متحدہ کو خبر ہوتی ہے

بالآخر تسلیم کر لیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے بین ایمر سن نے قرار دیا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ جنگجو بجا مگر خواتین اور بچوں سمیت عام شہری مارے جاتے ہیں ۔ پاکستان اور دوسرے ممالک کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ بھارت ہوتا تو اس کا موثر میڈیا ایک قیامت اٹھا دیتا ۔ہم زیادہ تر خاموش ہی رہے ؛ حتیٰ کہ عالمی میڈیا بول پڑا ؛حتیٰ کہ خود امریکی کانگریس اور عدالت میں بحث شروع ہوئی ۔سوال یہ تھا کہ کن بنیادوں پر ڈرون نشانہ ڈھونڈتے ہیں اور کتنے عا م شہری ان کا نشانہ بنتے ہیں ؟ امریکہ کے بعد اب روس اور چین سمیت دوسری قوتیں ڈرون کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ایسا لگتاہے کہ وہ آئندہ جنگوں کا لازمی حصہ بن جائیں گے ۔ افغانستان میں بارہ برس کی آبلہ پائی نے امریکی گھمنڈ کو ٹھیس نہیں لگنے دی۔ وہائٹ ہائوس کے مطابق امریکہ وہ پیمانے مقرر کررہا ہے ، دوسری قومیں جن کی پیروی کریں گی ۔ ہمارے قبائل پر اب تک سوا تین سو حملے ہو چکے ہیں ۔ ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار مقتولین میں بے گناہ کتنے تھے ؟ عالمی میڈیا کے مطابق کم از کم پانچ سے نو سو ۔ مقامی ذرائع کے مطابق کہیں زیادہ ۔خدا کے نزدیک تعداد غیر اہم ہے ۔ قرآن میں لکھا ہے کہ آد مؑ کے ایک بیٹے نے دوسرے کو مار ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیاتو اس نے کہا کہ وہ ہاتھ نہ اٹھائے گا۔ کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بھی تیرے سر ہوں۔ وہ قتل کر دیا گیا ۔ خدا کہتاہے کہ تب اس نے لکھ دیا کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اورایک زندگی بچانا تمام انسانیت بچا لینے کے برابر ۔ اسلام آباد یا لاہور کی زندگی ادراک نہیں کر سکتی کہ قبائل کن حالات میں جی رہے ہیں اور جان کتنی ارزاں ہو گئی ۔ ان کا طرزِ زندگی تباہ ہو گیا ہے ۔ پشتون منتقم مزاج ہیں ؛چنانچہ نو برس سے جاری ڈرون حملوں نے ایک پوری نسل میں خون کی پیاس جگا دی ہے ۔ گہری نفسیاتی توڑ پھوڑ ! بارودنہیں ، خوف آدمی کو مار ڈالتاہے ۔اس دشمن کا ڈر جو فضا سے لپکتا ہے اور جس کا کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا۔ ریاست نے اپنی اولاد دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف اور پھر صدر زرداری کے عہد میں تواتر سے کہا گیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی رضامندی سے ہورہے ہیں ۔ وکی لیکس کے مطابق وزیر اعظم گیلانی نے امریکی سفیر سے کہاتھا کہ ڈرون حملوں پر صرف دکھاوے کا احتجاج ہوگا ۔ امریکہ نے بین ایمرسن کے بیان پہ تبصرے سے انکار کر دیا ہے ۔کہا تو یہ کہا کہ صدر اوباما کے پاکستانی حکومت کے ساتھ بہت سے معاملات پر ٹھوس ورکنگ ریلیشنز ہیں ، جن میں سکیورٹی معاملات بھی شامل ہیں ۔کیا یہ ڈرون حملوں پر خفیہ تعاون کی طرف اشارہ ہے ؟ کون جانتاہے۔ شمسی ائیر بیس کے تماشے کو یاد رکھیے ، پاکستان نے جسے متحدہ عرب امارات کو ٹھیکے پر دیا تھا ۔ عربوں نے وہ امریکہ کو بیچ دی تھی ۔ مشرف کے دور میں ڈرون حملے شروع ہو چکے تھے ۔ سیاہ فام امریکی صدر اور پاکستان میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کے بعد شدّت آتی گئی ؛حتیٰ کہ ایک دن میں کئی میزائل برسنے لگے ۔ پلٹ کر دیکھیں تو محسوس ہوتاہے کہ آئینی اصلاحات کے علاوہ صدر زرداری اور پرویز مشرف کی حکومت میں کوئی فرق نہ تھا۔ پیپلز پارٹی برباد ہو گئی ہے اور خود ذمّہ دار ہے ۔ اپنا سربراہ اس نے خود چنا تھا اور ہمیشہ اس کے ارکان خاموش رہے۔ ہم ڈرون حملے روکنے میں ناکام رہے ۔ اس لیے کہ امریکہ عالمی طاقت ہے اور پاکستان محتاج ۔اس لیے بھی کہ یہ ترجیح نہیں تھی۔ اقوامِ متحدہ میں حالیہ پیش رفت کے ہنگام دو انتہائی اہم تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں ۔ امریکہ افغانستان سے لوٹ رہا ہے اورپاکستان میں انتخابات ہیں ۔نئی حکومت کو امریکی واپسی کے بعد کے منظر نامے پر غور کرتے ہوئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے ۔ گارڈین کے مطابق ڈرون حملوں میں انتہائی مطلوب افراد کل ہلاکتوں کا فقط دو فیصد ہیں ۔دوسری طرف انتقامی جذبے نے جنگجو گروہوں میں شمولیت بڑھا دی ہے ۔ لہٰذا فائدہ نہیں، امریکیوں کو خسارہ ہوا ہے۔ گارڈین ہی کے مطابق 74فیصد پاکستانی امریکہ کو دشمن سمجھتے ہیں ۔ دونوں قوموں کا بندھن عجیب ہے ۔ایک لفظ میںاسے مجبوری کہا جا سکتاہے ۔ امریکی واپسی کے بعد پاکستان کو ملنے والی امداد اسی طرح گرتی جائے گی جیسے افغان جہاد کے بعد وہ تقریباً ناپید ہو گئی تھی؛حتیٰ کہ 2000ء میں فقط 45ملین ڈالر ۔ بے گناہوں کے قتل کی تحقیقات کا نتیجہ اب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ، جس کے بعد مزید کسی اقدام پر غور کیا جائے گا۔ ہوگا مگر کچھ نہیں ۔ اقوامِ متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے جو چند اقوام کے لیے کام کرتا ہے ۔ باقی اقوام عالمی تنہائی سے بچنے کے لیے منافقانہ خاموشی اختیار کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر اقوامِ متحدہ نے امریکہ کو افغانستان پر حملے کی اجازت دی ۔عراق پر حملے کی اس نے مزاحمت کی لیکن امریکہ نے عراق اجاڑ ڈالا ۔ لاکھوں ہلاکتوں کے بعد آج افغانستان سے امریکہ نامرادلوٹ رہا ہے ۔ انہی طالبان کے اقتدار کے قوی امکانات ہیں ، جو امریکی حملے سے قبل مقتدر تھے ۔ لاکھوں ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟اقوامِ متحدہ قائم ہی نا انصافی پر ہے ۔ایٹمی صلاحیت رکھنے والی چھ اقوام کو ویٹو کا حق حاصل ہے ۔ باقی قومیں کیوں کم ترٹھہریں؟ کیا یہ عظیم اکثریت کبھی آواز بلند کرے گی ؟ میں نہیں جانتا ۔ اتنا میں ضرور جانتاہوں کہ چند ریاستوں کو دنیا کی ٹھیکیداری کا حق تاابد نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی کہ اقوامِ متحدہ کے قیام سے قبل دنیا اسی طرح قائم تھی۔ جارح قوموں کی جیسی مزاحمت اس نے کی ہے ،وہ کبھی کسی بڑی جنگ کو روک نہ پائے گی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved