تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-03-2018

سُرخیاں‘ متن اور خانہ پُری

مشرف کو عدلیہ سے انصاف کی توقع‘
کہیں کلین چٹ تو نہیں مل رہی : احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''مشرف کو عدلیہ سے انصاف کی توقع‘ کہیں کلین چٹ تو نہیں مل رہی‘‘ اور جس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کے پاس کلین چٹیں موجود ہیں تو اس صورت میں کلین چٹ ہمیں کیوں نہیں مل سکتی جبکہ شہبازشریف نے کافی نرم رویہ اختیار کر لیا ہے۔ نوازشریف کی خیر ہے کیونکہ ان کی سیاست پر تو ہم بھی فاتحہ پڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''انتخابات سے قبل نون لیگ کے خلاف احتساب شروع کر دیا گیا جو قبل از الیکشن دھاندلی ہے‘ اور وہ بھی صرف ایک بچے کے الحمدللہ کہنے پر‘ حالانکہ انسان کو ہر حالت میں اللہ میاں کا شکر گزار رہنا چاہیے‘ لیکن جو کچھ الحمدللہ کہنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا گیا‘ ہم نے بھی الحمدللہ کہنا چھوڑ دیا ہے لیکن وہ بھی بعدازوقت ہی معلوم ہوتا ہے‘ چنانچہ احتساب کی اس دھاندلی کے بعد اگر ہم انتخابات ہار جاتے ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی احتساب والے ہوں گے‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدالتیں مشرف کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالتیں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عدالتیں مشرف کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالتیں‘‘ اگرچہ ای سی ایل میں ڈالنے کا کام وزارت داخلہ کا ہے اور ہم نے بھی عدالت کے اس فیصلے پر کہ یہ کام حکومت کی صوابدید میں شامل ہے مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس لیے موصوف کو ہمارا شکرگزار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف بہادر نہیں‘ بدنما داغ ہے‘ اب سکیورٹی کیوں مانگ رہا ہے‘‘ اور یہ جو ہماری طرف سے کہا گیا ہے کہ عوام نوازشریف کے لیے جان دے بھی سکتے ہیں تو لے بھی سکتے ہیں۔ محض ایک گیڈر بھبکی ہے کیونکہ عوام نے تو ابھی تک ایک مچھر کو بھی نہیں مارا اور متعلقہ حضرات اُسی طرح دندناتے پھر رہے ہیں اور بُزدل عوام کو پتا اُس وقت چلے گا جب فیصلے ہو جائیں گے اور پانی سر سے گزر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے سے حساب لیا جائے گا‘‘ بلکہ لیا جا بھی رہا ہے۔ آپ اگلے روز جاتی اُمرا میں پرویز رشید سے ملاقات کر رہے تھے۔
نون لیگ کا چیئرمین بنتا تو شریف خاندان
چوری کے لیے قانون بنوا لیتا : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''نون لیگ کا سینٹ چیئرمین بنتا تو شریف خاندان چوری کے لیے قانون بنوا لیتا‘‘ حالانکہ اس کا فائدہ بھی ہمیں ہی ہونا تھا کیوں اگلا وزیراعظم خاکسار نے ہی بننا تھا‘ اور اگر یہ قانون بن جاتا تو اس پر ہمیں بھی عمل کرنا پڑتا جبکہ پرویز خٹک اور اس کے متعدد ساتھی اس پر بیحد خوش ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف اور اُن کی بیٹی شہر شہر جا کر چوری کی اجازت مانگ رہے ہیں‘‘ حالانکہ عوام کی طرف سے انہیں یہ اجازت پہلے ہی حاصل تھی اور جس کا انہوں نے پورا پورا فائدہ بھی اُٹھایا اور اب وہ اس فائدے کے منتظر ہیں کہ وہ صدر سے اپنی سزا معاف کرا لیں گے‘ جو کہ بہت بڑا سانحہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''جمہوری آمر زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘‘ اس لیے غیر جمہوری آمر کو کم خطرناک ہونے پر بعض اوقات قبول بھی کرنا پڑتا ہے‘ چاہے اس کا پولنگ ایجنٹ بھی کیوں نہ بننا پڑے۔ آپ اگلے روز لاہور میں خواتین اور سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاست کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی عمرانی
سوچ خطرناک اور شرمناک ہے : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''سیاست کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی عمرانی سوچ خطرناک اور شرمناک ہے‘‘ جبکہ سیاست سے میری مراد سیاستدان ہیں جن میں سرفہرست ہمارے قائد ہیں‘ اور شرمناک اس لیے ہے کہ بیشک ڈیڑھ دو سال سے اس طرح گھسیٹے جانے پر کسی کو شرم نہیں آ رہی لیکن ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کر دینے سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ اُسے معلوم بھی نہ ہو کہ اُسے کیوں نکالا گیا اور وہ شہر شہر لوگوں سے پوچھتا پھرے اور وہاں بھی اُسے کوئی نہ بتائے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان اور ہمنوا اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش کر رہے ہیں‘‘ جبکہ ہم اُن کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں کیونکہ بالآخر انہوں نے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری اور عمران خان باز نہ آئے تو جمہوریت ڈی ریل ہو سکتی ہے‘‘ اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کا مطلب حکومت کا ڈی ریل ہونا ہے۔ آپ اگلے روز رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
مکیں نظر نہیں آتے‘ مکاں بھرا ہوا ہے
درخت ہی نہیں اور آشیاں بھرا ہوا ہے
یہاں پہ ایک نہ ہونے کی بھیڑ ہے جس سے
ہمارے سامنے سارا جہاں بھرا ہوا ہے
وہی درخت‘ وہی گھاس اور وہی گھر ہیں
مری زمین سے ہی آسماں بھرا ہوا ہے
کوئی تو بات ہے‘ غُصّے میں شہر کا ہر شخص
یہاں بھرا ہوا ہے اور وہاں بھرا ہوا ہے
کہیں نظر نہیں آتا ہے راستا ہر سُو
سفر کی گرد سے ہی کارواں بھرا ہوا ہے
یہ لوگ دیکھنے میں مطمئن بھی ہیں‘ لیکن
دلوں میں بھی کوئی رنج گراں بھرا ہوا ہے
کوئی بھی خوف سے خالی نہیں ملے گا یہاں
اگرچہ یُوں تو یہ کُنجِ اماں بھرا ہوا ہے
پھر اپنی جگہ سے کیوں ہل نہیں رہی کشتی
اگر ہوا سے مرا بادباں بھرا ہوا ہے
یہ شہر وہ ہے کہ ہر کوئی بے خبر ہے‘ ظفرؔ
کہاں کہاں سے ہے خالی‘ کہاں بھرا ہوا ہے
آج کا مطلع
چُھپا ہُوا تھا‘ نمودار سے نکل آیا
یہ فرق بھی ترے انکار سے نکل آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved