تعلیم اورترقی کاآپس میںگہرا ربط ہے۔ کہتے ہیں تعلیم ترقی کازینہ ہے لیکن عام طورپر ترقی کی اصطلاح کومحدود معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے مثلاً یہ کہاجاتاہے کہ تعلیم کے ذریعے ایک بہترنوکری کاحصول آسان ہوجاتاہے یاپڑھے لکھے شہری معاشی ترقی میںکارآمدثابت ہوسکتے ہیں۔یہ ترقی کامحدود تصور ہے کیونکہ محض بڑے بڑے آبی ذخائر، ریلوے ٹریک، پختہ شاہراہیں، بلندوبالاعمارتیں اورشاپنگ پلازے کسی ملک کی ترقی کے آئینہ دارنہیںہوتے۔ ترقی کے تصور کے کچھ اوراہم پہلواکثرہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ترقی کے معاشرتی پہلوئوں میں تعلیم، صحت، لوگوں کامعیار زندگی، خوراک اورپانی شامل ہیں ترقی کے اسی پہلو پرہندوستان کے ماہرِمعاشیات امرتاسین نے اپنی شاہکار کتاب (Development as Freedom)لکھی جس میںترقی کو سوچ، اظہار اورانتخاب کی آزادی کے ساتھ جوڑاگیا ہے۔ امرتاسین کے مطابق کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کاپیمانہ اس کی مادی ترقی کے علاوہ وہاں دستیاب آزادی بھی ہے۔انہی خطوط پر پاکستان میں ترقی کے معاشرتی پہلو کی طرف ہمارے ماہرمعاشیات محبوب الحق نے توجہ دلائی۔
ترقی کا جامع نکتہ نظرمحض سائنس کے مطالعے تک محدودنہیں بلکہ اس کی حدود سوشل سائنسز اور ہیومینیٹز تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ترقی کا ایک اوراہم پہلو اس کی پائیداری(Sustainability)ہے۔ پرویزمشرف کے دورِحکومت میں 9/11کے واقعے کے بعدپاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھورہے تھے اورمعاشی اعدادوشماربھی متاثرکن تھے لیکن کچھ ہی مدت میں معاشی نقشہ بدل گیا اور معاشی ترقی روبہ زوال ہوگئی اس لیے کہ وہ ایک پائیدار ترقی نہیںتھی۔ عالمی کمیشن برائے ماحول اورترقی کے مطابق پائیدار ترقی وہ ہے جو آنے والی نسلوں کامستقبل دائو پرلائے بغیرحال میںبہتری لائے۔
پائیدارترقی کاتصورتعلیم یافتہ اورپڑھے لکھے لوگوں کے بغیرادھورا ہے۔یہ تعلیم ہی ہے جومفیدمہارتیں ،نظریات،قدریں اوروہ تصورات سکھاتی ہے جن کی بنیاد پرمعاشرے میں شہریوں کی سوچ تشکیل پاتی ہے۔ تعلیم ہی ایک عام معاشرے کوتعلیم یافتہ معاشرے میںبدل سکتی ہے اور اسی کی بنیاد پرعصرِحاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تخلیقی قسم کے جوابات ملتے ہیں۔یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے کہ کیامحض شرح خواندگی ہی ترقی کے امکانات بڑھانے کاباعث بنتی ہے؟ اس سوال کاجواب نفی میں ہے کیونکہ صرف شرح خواندگی نہیںبلکہ معیارِتعلیم ہے جوکہ پائیدار معاشی وسماجی ترقی میں نمایاں کردارادا کرتاہے اگرہم پاکستان کے مرکزی دھارے کے سکولوں میںتعلیم کے معیار کا جائزہ لیںتوہمیں تعلیمی عمل معروف ماہرِ تعلیم پالو فریرے کے Banking Concept of Knowledgeکے مطابق نظرآتاہے جہاں طلبہ خاموش سامعین کی طرح پیچھے بیٹھتے ہیں۔ اساتذہ معلومات طلبہ تک معلومات منتقل کرتے ہیں اورطلبہ اپنی یادداشت کی بنیادپر امتحانات میںیہ معلومات پرچے پرمنتقل کردیتے ہیں اوریوں اعلیٰ گریڈزحاصل کرلیتے ہیں۔ تدریس وتعلیم کایہ طریقۂ کار اس وجہ سے ناقص ہے کہ یہ محض روبوٹ پیدا کرتا ہے جو فہم وفراست سے عاری ہوتے ہیں۔
تعلیم کاجامع تصوریہ ہے کہ اسے متعلمین کے علم، رویوں اورمہارتوں کوجِلادینی چاہیے۔ تعلیم کاایک اوربڑا مقصد جوکہ پائیدار ترقی کاضامن ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طلبہ میں آزادی فکر اورتخلیقی صلاحیتوں کوابھارا اورنکھارا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال ہے۔ہوناتویہ چاہیے کہ طلبہ کوتعلیم اس قدرتوانا بنادے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کا نہ صرف نئی صورتحال میںاطلاق کرسکیں بلکہ اس کا مکمل ادراک بھی کرسکیں۔تعلیم کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ میںتنقیدی سوچ کوپروان چڑھاسکے تاکہ وہ بحیثیت متعلمین نہ صرف معاشرے کے مرکزی دھارے میںشامل ہوسکیں بلکہ اس قدر جرأت مند بھی ہوںکہ وہ معاشرے کے ممنوعات(Taboos) کوبھی للکارسکیں۔
اب سوچنا یہ ہے کہ تعلیم میںمعیار کے حوالے سے یہ تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ دراصل بہت سارے عوامل وعناصر مل کرمعیار تعلیم میں بہتری لاسکتے ہیں اوریوں پائیدار ترقی کے امین کہلاسکتے ہیں۔ ان عناصر میںفنڈز، بنیادی ڈھانچہ(Infrastructure) بنیادی مادی سہولتیں، نصاب، درسی کتب اورجائزے کا نظام ہے۔اگرچہ یہ تمام عناصر ازحداہم ہیں اورتعلیم کی بہتری میںبھرپور کردارادا کرتے ہیں لیکن ان سب میں اہم ترین استاد ہے جو دیگرعوامل پربھی اثرانداز ہوتاہے۔ اگرہم نے اساتذہ کوایک کمیونٹی کے طورپر زیادہ موثر اور فعال بناناہے تواس کے لیے اس بات کی اشدضرورت ہے کہ ہم انہیں مالی فوائد،سماجی شہرت و مرتبہ اور پیشہ ورانہ ترقی سے لیس کردیں۔اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے ذرائع میںسے اہم ترین ذریعہ تعلیم اساتذہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تربیتِ اساتذہ کے بہت سے ادارے پاکستان میںبہت ہی قدامت پسندانہ اورروایتی انداز میں تعلیم اساتذہ کاکام سرانجام دے رہے ہیں جوکہ تخلیقی سوچ اورعملی مہارتوں سے مکمل طورپرعاری ہیں نظریے اورمہارت کے درمیان مکمل لاتعلقی پائی جاتی ہے اورسارے کاسارا زور طریقۂ تدریس پرہے۔
پاکستان میں اس بات کی اشدضرورت ہے کہ تعلیمِ اساتذہ کی تجدید اورتعمیر نوکی جائے تاکہ یہ تربیت اساتذہ کے لیے زیادہ موثر ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تنقیدی اورتخلیقی سوچ کوباہم مربوط کریں اوریوں تھیوری اور عملیات (Theory & Practice)کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کریں۔اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم تعلیم کے علاوہ دوسرے مضامین سے بھی استفادہ کریں اورسیکھنے کے عمل میں بین الکلیاتی نقطہ نظر (Interdisciplinary Approch) کابھرپور استعمال کریں۔ اساتذہ کوبھی اس بات کاادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تدریس کے رسمی اورغیررسمی طریقہ استعمال کرکے اپنی تدریس میں جدت لائیں موثرتعلیم اساتذہ ہی وہ واحد رستہ ہے جس کے ذریعہ اساتذہ پیشہ ورانہ اندازمیں بااختیار بن سکتے ہیں اورپھراس اختیار کی بدولت وہ ایسی تعلیم دے پائیںگے جوپائیدار ترقی کی ضامن ہوگی۔
تعلیم کاایک اوربڑا مقصد جوکہ پائیدار ترقی کاضامن ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طلبہ میں آزادی فکر اورتخلیقی صلاحیتوں کوابھارا اورنکھارا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال ہے۔ہوناتویہ چاہیے کہ طلبہ کوتعلیم اس قدرتوانا بنادے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کا نہ صرف نئی صورتحال میںاطلاق کرسکیں بلکہ اس کا مکمل ادراک بھی کرسکیں۔تعلیم کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکے۔