قومی اسمبلی ختم ہو گئی۔ آئین کے مطابق نگران وزیراعظم کا انتخاب قائدِ ایوان اور قائدِ حزب ِاختلاف کو مل کر کرنا تھا لیکن قومی اسمبلی کی موجودگی میں یہ انتخاب نہیں کیا جا سکا۔ اس کے بعد آئین اپنی ہی اس شق کو کہ نگران وزیراعظم کا انتخاب قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کریں گے‘ نظر انداز کرتے ہوئے تین دن کی مہلت دیتا ہے کہ سابق قائدِ ایوان اور سابق قائدِ حزبِ اختلاف‘ نگران وزیراعظم کا انتخاب کریں۔ مضحکہ خیزی یہ ہے کہ وہ ایوان تو ختم ہو گیا جس کے دونوں اطراف سے یہ قائدین ہیں‘ پھر یہ نگران وزیراعظم کا انتخاب کس حیثیت میں کر رہے ہیں؟ وزیراعظم کے لیے تو پھر گنجائش ہوتی ہے کہ ملکی امور انجام دینے کے لیے اتھارٹی کا تسلسل ضروری ہے۔ حقیقت میں اب وہ خود بھی ایک نگران وزیراعظم ہیں اور قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس نہ کوئی محکمہ ہوتا ہے اور نہ ہی ریاستی امور چلانے کی کوئی ذمہ داری۔ وہ تو نگران قائدِ حزب اختلاف بھی نہیں رہ جاتے۔ایوان کی عدم موجودگی میں دونوں طرف کے یہ قائد (یعنی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف) ملک کے لیے وزیراعظم تلاش کر رہے ہیں۔ اس کام کے لیے بھی انہیںتین دن کی جو مہلت مہیا ہے‘ وہ آج‘ یعنی تیسرے دن‘ ختم ہونے کو ہے۔ یہ دونوں کسی نام پر متفق نہیں ہو سکے۔ پرانے زمانے میں جب بادشاہ کا تخت خالی ہو جاتا تھا تو درباری مل کر یہ فیصلہ کرتے تھے کہ اگلی صبح عین طلوع آفتاب کے وقت جو شخص شہر کے مرکزی دروازے کے اندر داخل ہو گا‘ اس کے سر پر تاج رکھ دیا جائے گا اور بعض ریاستوں میں یوں بھی ہوتا کہ وزیراعظم ایک توتا فضا میں چھوڑتا‘ وہ جس کے سر پر آ کر بیٹھ جاتا وہی تخت و تاج کا مستحق قرار پاتا۔ معلوم نہیں اس زمانے میں گدھے‘ گھوڑے اور مال مویشی ہوتے تھے یا نہیں؟ ورنہ توتا ان میں سے کسی پر جا بیٹھتا تو رعایا کیا کرتی؟ خیر ایسے واقعات ہو بھی گئے ہوں تو کہانیوں میں ان کا حوالہ نہیں ملتا۔ ہم اپنی طرف آتے ہیں۔ ہماری سابقہ قومی اسمبلی کے دو لیڈر ‘ اس توتے کو پنجرے میں لیے بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے امیدواروں کی ایک فہرست ہے اور اس فہرست میں سے کسی ایک شخص پر انہیں توتے کا نشان بنانا ہے۔ ہم سے تو پرانی بادشاہتوں کے درباری ہی اچھے تھے جو اگلے ہی دن زندہ توتا اڑا کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے اور ہم ہیں کہ سامنے رکھی تصویروں میں سے ایک پر توتے کا نشان بنانا ہے اور وہ نہیں بن پا رہا۔ رات تک فیصلہ نہ ہوا تو پھر تخت و تاج کے عارضی حق دار کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ اگر ہم الیکشن کمیشن کے حالیہ ریکار ڈ کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ بھی فیصلوں کے معاملے میں ڈھلمل یقین ہے۔ چند ہی روز پہلے ڈاکٹر قیوم سومرو کو سینیٹر ڈکلیئر کیا گیا اور پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد بتایا گیا کہ وہ تو سینیٹر بنے ہی نہیں تھے۔ اس نظیر کی روشنی میں دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے نگران وزیراعظم کا نام جاری کر دے اور اگلے ہی دن وضاحت آ جائے کہ یہ تقرری ٹھیک نہیں ہوئی۔ سینٹ کی جس خالی نشست پر قیوم سومرو منتخب قرار پائے تھے وہ تو نئی اسمبلیاں آنے کے بعد پُر ہو جائے گی مگر نگران وزیراعظم کا فیصلہ ہوجانے کے بعد بدل دیا گیا تو کیا ہو گا؟ کیونکہ آئین اس کے بعد کچھ نہیں کہتا اور جہاں آئین ساتھ چھوڑے جائے‘ وہاں سپریم کورٹ سے پوچھنا پڑتا ہے کہ اب کیا کریں؟ سپریم کورٹ چاہے تو اس معاملے کو واپس آئین سازوں کے پاس بھیج سکتی ہے اور چاہے تو خود فیصلہ سنا سکتی ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہو گا؟ میں تو اس پر قیاس نہیں کر سکتا۔ لیکن ماہرینِ آئین و قانون کو ضرور سوچنا پڑے گا کہ ایسی حالت میں راستہ کیا رہ جاتا ہے؟ نگران وزیراعظم کے انتخاب کے سوال پر یہ جو ’’ڈیڈلاک ‘‘کی اصطلاح تین چار دنوں سے چل رہی ہے‘ پاکستان میں یہ بڑے بڑے کرشمے دکھاتی ہے۔خدا نہ کرے اس طرح کے کرشمے ہمیں پھر دیکھنا پڑیں۔ نگران وزیراعظم کے انتخاب نے ہمارے اہل سیاست کو اسی طرح رسوا کر دیا ہے جیسے غالب کو شعروں کے انتخاب نے کیا تھا۔ غالب نے تو پھر شعروں کا انتخاب کر لیا تھا۔ ہمارے سیاستدان تو نگران وزیراعظم کا انتخاب بھی نہیں کر پارہے اور دونوں مجاز پارٹیوں کی طرف سے جو انتخاب سامنے آیا ہے‘ اسے دیکھ کر تو رسوائی سے بڑے لفظ کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ کیا اہل سیاست کو اپنی برادری میں ایک بھی شخص ایسا نظر نہیں آیا جس کی غیرجانبداری پر بھروسہ کیا جا سکے؟ کیا ملک کے اندر الیکشن میں حصہ لینے والی ساری جماعتوں میں اتنا قحط الرجال ہے کہ ایک بھی قابل اعتماد شخص دستیاب نہ ہو اور اس کی دیانت پر بھروسہ نہ کیا جا سکے؟شیم شیم۔ جو نابغہ روزگار دونوں فریقوں نے ڈھونڈ کر قوم کے سامنے پیش کئے ہیں ان میں تین ریٹائرڈ جج ہیں ‘ دو ٹیکنوکریٹ ہیں اور تیسرے بزرگ ایک دانشور ہیں جو عملی سیاست میں مدتوں سے حصہ نہیں لے رہے۔ بطور دانشور موقع بہ موقع اظہار رائے کرتے رہتے ہیں۔ میں لکھ ہی چکا ہوں کہ ان کی عمر 83سال ہے۔ ان بزرگوں اور ریٹائرڈ لوگوں سے ہم جو کام لینا چاہتے ہیں‘ اس کی تفصیل دیکھ کر بڑے بڑے ماہر اور توانا سیاستدانوں کو پسینے آ جائیں۔ معیشت گھٹنوں کے بل آئی کھڑی ہے۔ درآمدات کے لیے مطلوبہ زرِمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے کا کام بھی نگران حکومت پر آئے گا۔ توانائی کی قلت‘ قحط میں بدلتی جا رہی ہے۔ ریلوے‘ سٹیل ملز اور پی آئی اے کو ہر ہفتے عشرے میں اربوں ڈالر کی ضرورت پڑتی ہے اور تینوں اداروں میں تنخواہوں کو جگا ٹیکس کی طرح وصول کرنے کے لیے بپھرے ہجوم ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ پاور کمپنیوں کے قرضے ادا کئے جائیں تو خزانے میں کچھ نہیں رہتا۔ خزانے کو بچایا جائے تو گیس اور بجلی کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔ امن و امان کی صورتحال ملک کے ہر حصے میں ابتر ہے۔ دہشت گردوں کے گروہ انتخابات کو درہم برہم کرنے کے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں دہشت گردی کی کارروائیاں کہاں پر‘ کتنی اور کس قدر تباہ کن ہوں گی؟ نگران وزیراعظم کو ان ساری چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے انتخابات کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ ایک ایسا شخص جس کا تعلق سیاست سے نہیں رہا اور جو امور خارجہ کا تجربہ نہیں رکھتا اور جسے پیشہ ورانہ دفتری تجربے کے سوا امورِ مملکت چلانے کے بارے میں ابتدائی علم بھی حاصل نہیں ہے‘ اسے 60 دنوں کے اندر اندر یہ سارے معرکے انجام دینا ہوں گے۔ معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ دونوں جماعتوں کے تجویزکردہ ناموں میں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو ان بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہو اور اس پر بپھری ہوئی غضبناک سیاسی جماعتوں کا دبائو مستزاد ہوگا۔ ہر پارٹی الزام لگائے گی کہ حکومت دوسروں کو سہولتیں دے رہی ہے اور ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے اور پیچیدہ کام نگران وزیراعظم کو اچانک شروع کرنا پڑیں گے۔ اس ’’اچانک‘‘ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ایک بہت بڑے شاعر کا ایک سیٹھ سے تعارف ہوا۔ جب اسے بتایا گیاکہ ملنے والے صاحب ایک بہت بڑے شاعر ہیں تو سیٹھ نے فوراً کہا ’’سنائو!‘‘ شاعر کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اپنے شعر ہی بھول گیا۔ نگران وزیراعظم کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا ہونے والا ہے۔ اسے آخری لمحے تک علم نہیں ہو گا کہ کیا ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر آئیںگی۔ اسے اچانک کہا جائے گا کہ چند ہی منٹوں میں وزارتِ عظمیٰ کے کام شروع کر دو اور انتہائی خطرناک اور پیچیدہ مسائل سے بھری فائلوں کا ڈھیر اس پر لاد دیا جائے گا اور وہ بیچارہ بے گناہ‘ بے بسی کے ساتھ مسائل کے پلندوں کو دیکھ کر یہ سوچنے بیٹھ جائے گا کہ کہاں سے شروع کروں؟ اصولی طور پر جس شخص کو گنتی کے چند روز میں بڑے بڑے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانا ہو‘ اسے کم ازکم تین چار مہینے پہلے حساس وزارتوں اور محکموں سے بریفنگ لینے کے مواقع ملنا چاہئیں تاکہ وہ اپنے ذہن میں کوئی نہ کوئی خاکہ تیار کر چکا ہو۔اچانک کسی کے سر پہ توتا بٹھا دینا‘ اسے ہراساں کرنا ہے۔ نگران وزیراعظم کا انتخاب کم از کم تین چار ماہ پہلے ہو جانا چاہیے۔مگر ایسے کام مستحکم معاشروں میں ممکن ہیں۔یہاں تو ایک ہی ڈر لگا رہے گا کہ اگر تین ماہ پہلے نگران وزیراعظم کا انتخاب ہو گیا تو اتنے دنوں میں وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی سازش تیار نہ کر بیٹھے۔ہم سب بہت ڈرے ڈرے‘ سہمے سہمے اور خوفزدہ لوگ ہیں۔ ہمارے فیصلے بھی ڈرے ڈرے‘ سہمے سہمے اور خوفزدہ ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved