تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-03-2018

سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا

''کیا تم سچ پر ہو؟‘‘ مہان کرشن نے پوچھا۔ 
''ہاں میں سچ پر ہوں‘‘ ارجن نے سینہ پھلا کر جواب دیا۔ 
''سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا‘‘ مہاتما نے کہا۔ باقی تاریخ ہے۔ 
کیا جنرل پرویز مشرف واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں گے ، غدّاری کے مقدمات کا؟ مجھے اس میں شبہ ہے ۔ میری معلومات کے مطابق عسکری قیادت انہیں بتا چکی کہ وہ کسی غیر معمولی رعایت اور سرپرستی کی امید نہ رکھیں ۔ یہ جنرل راحیل شریف تھے ، جو اپنے بڑے بھائی شبیر شریف شہید کے دوست کی نگہبانی کرتے رہے ۔ جنرل باجوہ غیر ضروری بکھیڑوں میں پڑنے والے آدمی نہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ نواز شریف سے الجھنے کے آرزو مند بھی نہیں تھے ۔ اب بھی ان کا ذکر آئے تو جنرل کا لہجہ دھیما اور شائستہ ہو جاتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ ماضی کے تمام دوسرے سپہ سالاروں کی طرح میاں صاحب موصوف نے اعتدال ، انصاف اور مصالحت کے تمام دروازے جنرل باجوہ پہ بند کر دئیے۔ کھینچ کھانچ کر انہیں حریفوں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔ فروری 2017ء میں جنرل نے ان سے کہا تھا کہ پانامہ کیس کے سوا ہر معاملے میں وہ ان کے ساتھ ہیں ۔ پانامہ کا فیصلہ چونکہ عدالت کو کرنا ہے؛ لہٰذا وہ اور ان کا ادارہ اس سے لا تعلق رہے گا۔ اس کے باوجود کہ فوجی قیادت نے جنرل مشرف کے معاملے سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے ، شریف خاندان اور ان کے حواریوں کی طرف سے بالواسطہ طور پر عسکری قیادت کو مطعون کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت اور قیامِ عدل نہیں بلکہ یہ اقتدار کی وحشیانہ جنگ ہے ۔ کسی بھی فریق کی طرف سے اس میں صداقت شعاری کی امید کم ہوتی ہے لیکن شریف خاندان کی تو جیسے کوئی حدود ہی نہیں ۔ چیخ چیخ کر نواز شریف اور ان کے ذہنی قلی احسن اقبال پوچھتے ہیں : کیا کبھی کوئی جج جنرلوں پر مقدمہ چلانے کی جرأت بھی کرے گا؟ بالکل سامنے کی یہ بات وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک آدھ دن نہیں ، دو برس جنرل مشرف کا مقدمہ چلتا رہا ۔ اس تمام عرصے میں ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی عائد رہی ۔ اس پابندی کا خاتمہ بالآخر وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت نے کیا تھا، سپریم کورٹ نے نہیں۔ عدالت نے یہ کہا تھا : حکومت چاہے تو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے اور چاہے تو انکار کر دے ۔
شریف خاندان کے کاسہ لیسوں کے سوا ہر شخص یہ جانتا اور تسلیم کرتا ہے کہ کمزوری کا مظاہرہ نون لیگ کی قیادت نے کیا تھا ۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے ۔ ایک طرف تو جنرلوں سمیت اپنے کسی حریف کی کردار کشی کا موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ دوسری طرف خوف بھی انہیں دامن گیر رہتا ہے ۔ جہاں تک اصول اور آئین کا تعلق ہے ، بدقسمتی سے ایسا کوئی گروہ اور کوئی جماعت اب پاکستان میں موجود نہیں ، دستور کی پوری پاسداری کی جس سے امید کی جا سکے۔ چن چن کر بدنام لوٹے عمران خاں نے اپنی پارٹی میں جمع کر لیے ہیں ۔ جماعتِ اسلامی حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی دہلیز پہ سرنگوں ہو چکی ۔ اقتدار کے جتنے فوائد مولوی صاحب کو سمیٹنا تھے، وہ سمیٹ چکے ۔ اب ان کا دردِ سر آئندہ انتخابات ہیں ۔ اس آئندہ الیکشن میں حضرت مولانا ، صرف جماعتِ اسلامی ہی نہیں بلکہ میاں محمد نواز شریف اور ممکنہ طور پر اسفند یار ولی کے حلیف بھی ہوں گے ۔ طولِ امل، امیدوں کی درازی ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ خواہشات کی درازی میں آدمی جیتا ہے؛ حتیٰ کہ وہ اپنی قبر تک جا پہنچتا ہے۔ بے چارے سراج الحق کیا چیز ہیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن قاضی حسین احمد کو برتنے میں کامیاب رہے اور اس طرح کہ اس ولولہ انگیز آدمی کے آخری برس نا امیدی اور یاس کی نذر ہو گئے ۔ 2002ء سے 2007ء تک یہ متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت تھی ، جس نے پختون خوا اور اس سے پرے قبائلی علاقے میں دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع دیا ۔ یوں تو عمران خان بھی پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کے قائل تھے۔ شہباز شریف نے بھی مؤدبانہ درخواست کی تھی کہ طالبان پنجاب پر حملے نہ کریں لیکن سیاسی پارٹیوں میں دہشت گردوں کا اگر کوئی وکیل تھا تو جمعیت علمائِ اسلام ۔ جماعتِ اسلامی نے ایک لمبی چپ سادھے رکھی۔ برائے وزنِ بیت دونوں پارٹیاں دہشت گردی کی کبھی مذمت کرتیں لیکن برائے وزنِ بیت ہی ۔
سات برس ہوتے ہیں ، دبئی کے ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہوئے ہائی کورٹ کے ایک سابق جج سے ملاقات ہو گئی ، جماعتِ اسلامی سے جن کا نظریاتی تعلق رہا تھا۔ ایک ذرا سے تامل اور ہچکچاہٹ کے بغیر انہوں نے کہا: طالبان کے لیڈر جب بھی میری عدالت میں پیش کیے گئے تو ٹھوس ثبوت میں نے مانگے اور تقریباً سبھی کو رہا کر دیا ۔ فرقہ واریت اور مذہبی تنگ نظری کتنی ہولناک چیز ہے ۔ اکثر اس کا ادراک نہیں کیا جاتا ۔ اکثر اس پہ غور نہیں کیا جاتا۔ پختون خوا میں جماعتِ اسلامی جب مولانا فضل الرحمٰن کی طرف لپکتی ہے تو اس کی ایک وجہ مکتبِ فکر کا اشتراک بھی ہے ۔ 70، 80 برس پیچھے ان کے فکری قائدین ایک ہی ہیں۔ وہ لوگ جو جدید سیاسی جمہوریت کا کوئی تصور نہیں رکھتے ۔ مسلح جدوجہد جن کے نزدیک جائز ہے ۔ اپنے اعلائے کلمۃ الحق کے تصور کو نافذ کرنے کے لیے تشدد کو جو روا سمجھتے ہیں ۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آتی ہو تو پنجاب یونیورسٹی کے کسی بوڑھے استاد سے جا ملے اور 30 برس پر پھیلی ہوئی دل خراش کہانیاں سنے۔ 
خدمتِ خلق کے میدان میں جماعتِ اسلامی کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ سب سے بڑا اعزاز اس کا یہ ہے کہ اس کے مقتدر شاذ ہی کبھی کرپشن میں ملوث پائے گئے ، خاص طور پر دونوں ادوار میں پختون خوا میں اس کے وزرا۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن ایسے آدمی کو کیونکر وہ گوارا کرتے ہیں ۔ یہ وہی بقا اور غلبے کی قدیم انسانی جبلت ہے ۔ ہار جانے اور فنا ہونے کا خوف ۔ یہ کہیں قرآن میں نہیں لکھا کہ ہر حال میں ، ہر وقت سیاست میں حصہ لیا جائے ۔ بالکل برعکس اللہ کی کتاب تو یہ کہتی ہے '' ولا تھنو ولا تحزنو و انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کاہلی اور غم سے بچتے رہنا۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔ بار بار دہرایا گیا وہی جملہ : سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوتی ہے ۔
میدان سج گیا ہے ۔ الیکشن سر پہ کھڑے ہیں ۔ یہ سچائیوں کے قتلِ عام کا موسم ہے ۔ ان دلاوروں کے بروئے کار آنے کا جو کمال عزم اور بانکپن کے ساتھ بدترین مقدمات کی وکالت کر سکتے ہیں ۔ 
ارجن تذبذب کا شکار تھا۔ ہزاروں برس پہلے کورووں اور پانڈووں کی جنگ کے ہنگام ، ارجن تذبذب کا شکار تھا ۔ مہاتما کرشن کی خدمت میں وہ حاضر ہوا ۔ رندھی ہوئی آواز میں اس نے کہا : میں کیسے ان سے لڑ سکتا ہوں۔ وہ میرے رشتے دار ہیں ۔ میرا ناخن ، خون اور گوشت۔ کیسے میں ان سے لڑ سکتا ہوں۔ 
''کیا تم سچ پر ہو؟‘‘ مہان کرشن نے پوچھا ۔ 
''ہاں میں سچ پر ہوں‘‘ ارجن نے سینہ پھلا کر جواب دیا ۔ 
''سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا‘‘ مہاتما نے کہا۔ باقی تاریخ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved