حسبِ عادت‘ حسبِ معمول عوام کو بیوقوف بنانے کی بھونڈی کوشش‘ جھوٹ کا کوہ گراں‘ گپ بازی کا شہکار اور رنگ بازی کا اشتہار یا پھر پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے تانبے کے ساتھ بھنگ رگڑ کر پینے کے بعد میٹھا کھا کر یہ اعلان کیا ہے کہ…… ’’تمام منصوبوں کی تکمیل کے باوجود لوڈشیڈنگ 2019ء تک جاری رہے گی‘‘ جبکہ ن لیگ اپنے منشور میں دروغ گوئی‘ گپ سازی اور رنگ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ دو سال کے اندر اندر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے تو کیا یہ ’’آسمانی بجلی‘‘ گرائیں گے؟ ان میں سے کون ہے جو دعویٰ کر سکے کہ…… ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘ اور میں ن لیگ کے اقتدار میں آتے ہی اپنے انگ انگ کی بجلی سسٹم میں فیڈ کر کے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردوں گا‘‘ تو ظاہر ہے ’’انگ انگ کی بجلی‘‘ بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن نہ کارخانے چلا سکتی ہے نہ گھروں کو روشن کر سکتی ہے تو پھر اتنی بڑی گپ کیوں چھوڑی گئی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دراصل منشور سیاسی مسخروں کے لیے مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ایک دفعہ اقتدار مل جائے پھر کون پوچھتا اور بتاتا پھرے گا کہ منشور میں کیا لکھا تھا؟ بس ایک بار اقتدار آنے دو کہ یہی ’’فلسفہ‘‘ ہمارے مشہور شاعر احمد فراز کا تھا۔ فراز نے یہ مشہور شعر لکھا ؎ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کسی میرے جیسے دل جلے نے چڑ کر احمد فراز سے پوچھا کہ ’’یار! یہ کیا شکست خوردہ سا مریضانہ رویّہ ہے کہ…… ’’پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ‘‘۔ فراز نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا…… ’’یہ تو فقط ’’مکرِ شاعر‘‘ ہے‘ ایک بار اسے آ تو لینے دو‘ واپس جانے کے قابل چھوڑا تو میرا نام بدل دینا‘‘۔ احمد فراز کے اس مشہور زمانہ شعر کی طرح ہماری سیاسی جماعتوں کا ہر منشور بھی دراصل ’’مکرِ لیڈر‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں یعنی ایک بار اقتدار کی لیلیٰ کو آنے تو دو پھر اگر لیلیٰ کو ہی مجنوں نہ بنا دیا تو ہمارا نام بدل دینا‘ اقتدار اور عوام کی ایسی درگت بنائیں گے کہ دنیا دیکھے گی اور یہ درگت تب تک بنائیں گے جب تک کوئی 5 جولائی یا 12 اکتوبر نہیں آ جاتا۔ گزشتہ کالم میں رونا رویا تھا کہ ہماری بھی کیا پیشہ ورانہ مجبوری ہے کہ بڑے بڑے جھوٹوں‘ جیب کتروں اور منحوسوں کو موضوع بنانا پڑتا ہے۔ کالم کا عنوان تھا ’’یہ عہدِ بے وفائی و بے حیائی‘‘۔ فون پر فون‘ قارئین کی تکرار اور فرمائش یہ کہ تشنگی بہت ہے اور مجھے ’’بیوفائی‘‘ پر مزید لکھنا چاہیے۔ یوں تو پوری اردو شاعری بیوفائی کا نوحہ ہے سو میں اپنے قارئین کی فرمائش پوری کرتے ہوئے اردو شاعری سے ہر ممکن پرہیز کروں گا کیونکہ یہ سب کی ’’پہنچ‘‘ اور دسترس میں ہے۔ آپ خود بھی پڑھ سکتے ہیں اس لیے میں بیوفائی اور وفاداری کے حوالہ سے دوسری زبانوں کے محاوروں کا ذکر کروں گا۔ وفا داری کی ایک تعریف بین الاقوامی سطح کے دانشور ہنری کسنجر نے کچھ اس طرح کی تھی: \"WE ARE ALL THE PRESIDENT\'S MEN.\" ایک فرنچ ضرب المثل کا انگریزی ترجمہ حاضر ہے: \"LOYALTY IS RARE. IT CAN ONLY BE PROVEN UNDER TEST.\" اسی خیال کو عدیم ہاشمی مرحوم نے عدیم المثال طریقہ سے بیان کیا ؎ تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آئے یعنی مچھلی اور پانی ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں لیکن جب جال ڈالا جاتا ہے تو پانی جال سے نکل کر مچھلی کے ساتھ بیوفائی کر جاتا ہے۔ ایک ہسپانوی محاورے کے مطابق…… ’’دنیا کی تاریخ کتوں کی وفا اور انسانوں کی بیوفائی سے بھری پڑی ہے‘‘۔ لیجنڈری امریکن صدر روز ویلٹ نے کہا تھا: \"IT IS BETTER TO BE FAITHFUL THAN FAMOUS.\" A.P.GOUTHEY کا قول ہے جس کی روشنی میں ہمارے ’’لیڈروں‘‘ کو اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ \"IF VIRTUES BE GRADES, LOYALTY, I THINK, WOULD STAND NEAR THE TOP OF THE LIST. AT ANY RATE NO LEADER CAN DEMONSTRATE HIS FULL CAPABILITIES WITHOUT IT.\" بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ناک اور اپنے آپ سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے لیے ہسٹری میں اپنا مقام نہیں حلقہ میں اپنا نام زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مجھے آج تک وہ کم بخت آدمی نہیں بھولتا جس نے وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد میرے سامنے اپنے دوستوں سے کہا تھا، ’’مبارک ہو تمہارے بھائی کی گاڑی پر بھی ’’ٹاکی‘‘ لگ گئی ہے‘‘۔ ’’ٹاکی‘‘ سے اس کی مراد پاکستان کا جھنڈا تھا۔ عوام کے لیے سیاستدانوں کی بھاری اکثریت دروغ گوئی اور بیوفائی کے چلتے پھرتے سمبلز ہیں جو جب تک سیاست میں رہیں گے ریاست خطرے میں رہے گی۔ ذرا اندازہ لگائیں ن لیگ کس دھڑلے سے دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جھوٹ بول رہی ہے جبکہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان دو ٹوک انداز میں عوام کو خبردار کر رہا ہے کہ…… ’’تمام تر منصوبوں کی بروقت تکمیل کے باوجود لوڈشیڈنگ 2019ء تک جاری رہے گی‘‘۔ اف یہ رنگ بازی کے سمندر ہائے یہ جھوٹ کے مائونٹ ایورسٹ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved