پچھلے ہفتے ویک اینڈ پر پھر اپنی بستی جیسل کلاسرا میں تھا۔
میرے بھانجے منصور کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل کام تھا کہ وہ اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد شہر کی زندگی چھوڑ کر گائوں چلا جائے‘ اور وہاں عام لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی کوشش کرے۔ شروع میں منصور نے کوشش کی کہ شہر میں نوکری مل جائے۔ ایک دن ایگریکلچرل ریسرچ کونسل میں سیٹیں نکلیں تو وہ وہاں اپلائی کرکے ریفرنس میں میرا نام دے آیا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اس وقت چیئرمین تھے۔ یقینا منصور کے ذہن میں ہو گا کہ میرا ریفرنس پڑھ کر وہ اسے نوکری دے دیں گے کیونکہ میرے دن رات ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ گزرتے تھے۔ خیر‘ منصور نے واپسی پر مجھے بتا دیا کہ آپ کا نام ریفرنس کے طور پر دے آیا ہوں۔ میں نے کہا: اپنا فارم واپس لے آئو۔ مجھے علم ہے‘ میرا نام پڑھ کر وہ نوکری دے دیں گے۔ وہ اس معاملے میں رولز‘ ریگولیشنز کی پروا نہیں کرتے اور ہمیشہ مشکل میں پڑے رہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کسی مشکل میں پڑیں تو اس میں میرا کوئی ہاتھ ہو۔ کل کلاں کو مجھے ان کا دفاع کرنا پڑ سکتا ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا دفاع کمزور ہو کہ انہوں نے میرے بھانجے کو نوکری دی تھی یا ان کے ناقدین یہ کہیں کہ رئوف اپنے بھانجے کی نوکری کی وجہ سے ڈاکٹر ظفر الطاف کو اچھا سمجھتا ہے۔ مجھے یاد آیا‘ جب ڈاکٹر صاحب سیکرٹری زراعت تھے تو کتنے ہی لوگ بریف کیس اٹھائے پھرتے تھے کہ 'بس ایک فون کر دیں‘ آپ سے بہت دوستی ہے ان کی‘۔ ایک دن مجھے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: تم کبھی میرے پاس کسی کی فائل لے کر نہیں آئے؟ باقی سب لاتے ہیں اور مجھے علم ہے‘ کیوں لاتے ہیں اور کیا کیا اس کے بدلے لیتے ہیں۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کو خطرات سے کھیلنے کا شوق ہے‘ آپ اپنے فائدے نقصان کی پروا نہیں کرتے۔ آپ کے دوست آپ کو استعمال کرتے ہیں۔ میں آپ سے خبروں کی شکل میں اپنا حساب پورا کر لیتا ہوں۔ کل کلاں آپ مشکل میں ہوں تو کم از کم جن دوستوں کے چہرے آپ کے ذہن میں ابھریں کہ جن کی وجہ سے آپ مشکلات میں گھرے‘ کم از کم میرا چہرہ ان میں نہیں ہونا چاہیے۔
منصور نے میری مان لی اور اپنی درخواست واپس لے آیا۔ وہی ہوا‘ جس کا گمان تھا۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب کو مشکلات نے گھیر لیا۔ انکار ان کی شخصیت میں نہیں تھا۔ وہ کام کر سکتے ہوتے تو بھی کرتے اور نہ کر سکتے ہوتے تو بھی کرتے۔ وہ اپنی پاورز استعمال کرنا خوب جانتے تھے اور میں گواہ ہوں کہ اس مزاج کا سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کو دیا جن کو وہ جانتے نہیں تھے اور جن کی سفارشیں نہیں تھیں۔
خیر منصور واپس گائوں چلا گیا۔ اس دوران نعیم بھائی فوت ہوئے تو ہماری فیملی کا پروگرام بنا کہ ان کے نام پر ٹرسٹ بنا کر علاقے کے غریب لوگوں کے لیے فلاحی کام شروع کرتے ہیں۔ اسی عرصے میں ہمارے خاندان کو اور جھٹکے بھی لگے‘ جب نعیم کے بعد ہمارے بڑے بھائی یوسف بھی فوت ہو گئے۔ رہی سہی کسر پچھلے سال پوری ہوئی‘ جب منصور کی والدہ کینسر کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گئیں۔
ان واقعات کا منصور پر یقینا گہرا اثر ہوا۔ اس نے ماں کے نام سے گائوں میں لائبریری کھول لی۔ مجھ سے پہلا عطیہ لیا کہ لائبریری کے لیے کتابیں خریدنی ہیں۔ ساتھ ہی منصور نے ایک سکول‘ جو سرکار سے نہیں چل رہا تھا‘ جوائنٹ وینچر پر لے لیا۔ اس علاقے میں بہت غربت تھی۔ جب سکول سرکاری تھا تو اس وقت صرف چالیس کے قریب بچے تھے۔ منصور نے سکول کی ٹیم بنائی اور خود بھی ایک ایک گھر جا کر والدین کو سمجھانا شروع کیا کہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں۔ جواب ملا: ہمارے پاس تو ان کے لیے جوتے، کپڑے خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ منصور پھر میرے پاس آیا۔ میں نے جیب سے کافی پیسے دیے کہ ضروری چیزیں خرید کر بچوں کو دو اور ساتھ ہی جارجیا‘ امریکہ میں اپنے دوست اعجاز بھائی کو فون کیا۔ انہوں نے بھی پیسے بھجوا دیے اور یوں کام چل پڑا۔
اب منصور ملتان جاتا اور وہاں سے ان بچوں کے سائز کے یونیفارم، جرسیاں، جرابیں، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان ایک ہی دفعہ لے آتا۔ بچ جاتا تو علاقے کے دیگر سرکاری سکولوں میں غریب بچوں میں بانٹ آتا۔ اسی اثنا میں میرے مرحوم یوسف بھائی کی بڑی بیٹی‘ جو ماسٹرز کرنے کے بعد وہیں سکول میں پڑھاتی ہے‘ کا مجھے میسج آیا کہ چاچو! میرے سکول میں بہت غریب بچے ہیں۔ ان کے پاس بھی سردیوں میں جوتے‘ جرابیں اور جرسیاں تک نہیں ہیں۔ یہ سب علاقے کے مزدوروں اور غریبوں کے بچے ہیں‘ جو اب سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ہمارے اپنے گائوں کے لوگوں نے اپنے بچے سرکاری سکول سے اٹھا کر انگلش میڈیم میں ڈال دیے ہیں۔ یوں غریب کے سکول کے لیے کچھ نہیں بچا۔ وہ کہنے لگی: ان بچوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ میں نے اپنی تنخواہ سے بچوں کی ضرورت کی چیزیں خرید کر دی ہیں۔ گائوں کے سکول کے ہیڈ ماسٹر عمار کا میسج آیا کہ ہمارے سکول میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو کمرے بنوا کر دیں۔ خیر پنجاب حکومت میں کسی اچھے اعلیٰ افسر سے درخواست کی۔ اللہ اس کا بھلا کرے‘ اس نے ڈپٹی کمشنر لیہ واجد شاہ کو کہا کہ جیسل بستی بوائز سکول کے لیے دو کمروں، اور جیسل نشیب کی دو ہزار دس کے سیلاب سے برباد ہونے والی سڑک کی دوبارہ تعمیر اور گائوں کے قبرستان کے گرد چاردیواری کے لیے منصوبے بنا کر بھیجو۔ اب ڈپٹی کمشنر واجد شاہ نے فون کرکے بتایا ہے کہ پنجاب حکومت نے منظوری دے دی ہے اور کچھ دنوں تک ان تینوں پراجیکٹس پر کام شروع ہو جائے گا۔
اس بار گائوں گیا تو بوائز سکول میں استاد ملازم کلاسرا نے بتایا کہ ان کے پاس سکول تو ہے لیکن وہاں ایک بھی درجہ چہارم کا بندہ نہیں۔ ملازم حسین کا کہنا تھا کسی کو کہہ کہلا کر ایک سیٹ یہاں سکول کو لے دیں۔ منصور کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سود خور مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کسان سب سے زیادہ ان کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ فصلوں کو فوراً پانی دینا ہے یا کھاد دینی ہے یا مزدور کو مزدوری دینی ہے تو ان کے پاس کوئی پیسہ نقد نہیںہوتا۔ ایک ہی حل ہے کہ علاقے کے سود خوروں سے پیسے لو لیکن ان کی واپسی میں پورا کھیت بک جائے پھر بھی سود ادا نہیں ہو پاتا۔ اب منصور نے پلان بنایا ہے کہ بلا سود قرضے دیے جائیں۔ کبھی میری اخوت کے بانی اور نیک دل انسان ڈاکٹر امجد ثاقب سے بات ہوئی تھی‘ تو وہ فوراً تیار ہو گئے تھے کہ آپ کے علاقے میں دفتر قائم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بھی ایک انقلاب لا رہے ہیں جس کا اجر انہیں اللہ ہی دے سکتا ہے۔
اب کھرل عظیم کے سب سے غریب علاقے میں چلنے والے سکول کو منصور اور اس کی ٹیم کو چلاتے دو سال ہو گئے تھے۔ فون آیا کہ ماموں آپ اس کی دوسری سالگرہ پر مہمان بنیں۔ یوسف بھائی کی برسی بھی تھی۔ سب کچھ چھوڑا اور گائوں پہنچ گیا۔ منصور اور ٹیم کی محنت کے بعد دو سالوں میں بچوں کی تعداد چالیس سے بڑھ کر ڈھائی سو ہو چکی ہے۔ یہ سب غریبوں کے بچے ہیں۔ سکول کے اندر بہت اچھا ماحول بن گیا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ہم تو ڈر کے مارے سکول سے بھاگتے تھے کہ اگلے دن سبق یاد نہ ہوا تو بہت مارا جائے گا‘ لیکن اب ان بچوں کے درمیان بیٹھ کر محسوس ہوا ان کے چہروں پر خوشی تھی۔ ایک چھوٹی سے بچی سے پوچھا: آپ نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے تو وہ فوراً بولی: میں ڈاکٹر بنوں گی۔ دوسری بولی: میں استانی بنوں گی۔ سب بچیاں اپنی اپنی خواہشیں بتاتی رہیں۔
سب بچوں کے چہروں پر اطمینان دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ منصور کا پی ایچ ڈی اکنامکس کے بعد شہر کی زندگی چھوڑ کر گائوں جا کر ان غریبوں کے بچوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کتنا درست تھا۔ میں نے پوچھا تو بولا :ماموں! آپ اندازہ نہیں کر سکتے‘ کتنا سکون محسوس کرتا ہوں۔
اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کے لیے تو سب جان لڑاتے ہیں اصل بات تو یہ ہے دوسروں کے بچوں کا درد بھی محسوس کیا جائے۔ منصور نے غریبوں کے بچوں کو خوشیاں دینے کی راہ اپنائی تھی۔ شاید خدا منصور جیسے حساس لوگوں کو ایسے دکھ دیتا ہے کیونکہ ذاتی دکھ انسان کو مزید نرم اور انسانوں کے لیے ہمدرد بنا دیتے ہیں۔ منصور کی والدہ اور میری بہن کی موت نے یہی سب کچھ منصور کے ساتھ کیا ہے!