تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-03-2018

حرم کی پاسبانی اور پاکستانی فوج

اُس وقت ہم ایک قوم نہیں تھے‘ ایک آزاد ملک کے شہری نہیں تھے، آج کی طرح بس نام کے مسلمان ہی تھے‘ جیسے بھی تھے، مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ اس وقت تک ہم میں ریا کاری بھی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پورے ہندوستان میں ایک ہی آواز گونجتی تھی ''بولیں اماں محمد علی کی؍ بیٹا جان خلافت پر دے دو... پورے برصغیر پر انگریز اپنی پوری طاقت اور اپنے سخت قانون کے ساتھ حکمران تھا، جنگ عظیم دوم زوروں پر تھی اور ترکی کا مقابلہ برٹش ایمپائر کے ساتھ تھا۔ ہندوستان بھر کے مسلمان خلافتِ عثمانیہ کی حفاظت کے لئے کہیں کٹ رہے تھے تو کہیں تھرڈ ڈگری کے بدترین تشدد سے معذور ہونے کے بعد‘ جیلوں کے اندھے کنوئوں میں پھینکے جا رہے تھے۔ اگر اس وقت سلطنت عثمانیہ اور خلافت کے لئے جان دینا سعادت سمجھا جاتا تھا تو آج ہم میں سے کوئی اگر مدینہ منورہ اور حرم شریف کی حفاظت کیلئے ہم اپنی جان قربان کرنا چاہے‘ تو غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر میں‘ آپ یا کوئی اور حرم شریف کی حفاظت کرنے والوں کو کچھ سمجھا دے، انہیں کوئی نئی بات اور طریقہ بتا دے، یا اپنی فنی و حربی مہارت سکھا دے، انہیں اگر وہ طریقے بتا دے جس سے خانۂ خدا اور روضۂ رسولﷺ کی بخوبی حفاظت کی جا سکتی ہو‘ فوجیوں کو جنگی اور گوریلا تربیت دے کر انہیں ماہر بنا دے تو اس میں کیا برائی ہے؟ پاکستان کی فوج کے کچھ دستے اگر اس قسم کے نیک کام کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں تعینات کر دیئے گئے ہیں تو اس پر اعتراضات کیوں؟
جیسے ہی یہ اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ پاکستانی فوج کے کچھ دستے سعودی افواج کی تربیت کیلئے حجاز کی مقدس ترین سرزمین کی جانب روانہ کئے جا رہے ہیں تو کچھ حلقوں کی جانب سے اس پر اعتراضات شروع کر دیئے گئے۔ میڈیا اور دانشوروں کے چند مخصوص حصوں نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کر دیں۔ بہت سے دوستوں نے اسے خلیج فارس اور سعودی عرب کی آپس میں بڑھتی ہوئی ناچاقی اور چپقلش میں غیر جانبداری سے ہٹنے کا نام دینا شروع کر دیا تو کسی نے ان فوجی دستوں کو سعودی عرب کے جنوب مشرق میں جاری لڑائی کے لئے بھیجنے کے الزامات عائد شروع کر دیئے۔ کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ پاکستانی فوج کے یہ دستے کسی تیسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے لئے نہیں بلکہ سعودی فوج کو تربیت دینے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ فرض کیجئے کہ سعودی عرب کی درخواست پر پاکستان کی جانب سے سعودی فوج کو تربیت دینے کے لیے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا جاتا اور سعودی عرب بھارت سے مدد کی درخواست کرتا تو کیا یہ ہمارے لیے قابل قبول ہو سکتا تھا؟ ہم سب نے سعودی عرب کو اپنے نشانے پر نہیں لے لینا تھا؟ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اس وقت بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہت ہی دوستانہ ہو چکے ہیں اور سعودیہ کے بہت سے شعبوں میں بھارتی اثر انداز ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں سعودی عرب کے لئے کیا ممانعت تھی کہ وہ اپنی فوج کو جدید قسم کی تربیت دلانے کے لئے نریندر مودی سے بھارتی فوج بھیجنے کی درخواست نہ کرتا؟ چند برسوں سے بھارتی فوجی افغان فوجیوں کو تربیت دے رہے ہیں‘ جس پر ہم اب تک اعتراض کر رہے ہیں کیونکہ بھارت ان فوجیوں میں ایک مخصوص طریقے سے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس وقت تو کسی نے اعتراض نہ اٹھایا‘ جو اب یہ گروہ پاکستانی فوج پر الزام تراشی کر رہا ہے کہ ہمارے فوجی دستے سعودی عرب کیوں بھیجے جا رہے ہیں۔ باور کر لیجیے کہ سعودی فرمانروا کی درخواست ملتے ہی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اسے بخوشی قبول کرنے میں ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کرنا تھی اور یہ سچ ہے کہ بھارت تو سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو فوجی دستوں کی درخواست کرنے سے بہت پہلے رضا کارانہ طور پر اپنی فوج کی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے۔
سعودی عرب کیلئے بھیجے گئے پاکستانی فوج کے دستوں پر اعتراض کرنے والے حضرات شاید یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ معاہدے کے مطابق پاکستانی فوج صرف اور صرف سعودی عرب کی حدود میں رہنے کی پابند ہے‘ یہ کسی دوسرے ملک یا کسی فوج کے خلاف لڑنے کیلئے کہیں نہیں جائے گی۔ ہاں! اگر کسی بھی جانب سے‘ کسی دوسرے ملک کی فوج‘ سعودی سرزمین کی جانب بڑھے گی تو یہ ہم سب پر فرض ہو جائے گا کہ اپنے مقدس ترین مقامات کے لئے سینہ سپر ہو جائیں۔ ایک لمحے کے لئے فرض کر لیجیے کہ کل کسی وقت اگر اس قسم کی کوئی صورت حال پیش آ جائے کہ ماضی کی طرح کچھ بدبخت خدانخواستہ مقاماتِ مقدسہ کو نقصان پہنچانے کی نیت سے‘ اپنے کسی ناپاک منصوبے پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو ایسے میں حج یا عمرہ کے مقدس فرض کی ا دائیگی کیلئے ہم میں سے کوئی وہاں موجود ہوا‘ تو کیا وہ انہیں یہ قبیح حرکت کرنے کی اجا زت دیدے گا؟ حرم شریف اور مدینہ منورہ کی حرمت کی حفاظت کیلئے خالی ہاتھ ہی سہی‘ کیا ہم دین اسلام کے دشمن کا ہاتھ توڑنے کیلئے‘ اس کے مقابلے میں نہیں آئیں گے؟ ابھی زیا دہ عرصہ تو نہیں گزرا جب ایک گروہ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں موجود عمرہ زائرین کو یرغمال بنالیا تھا۔ دنیا بھر میں جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی چاروں جانب ایک کہرام سا مچ گیا۔ مسلمان تڑپ کر رہ گئے اور ایسا اندھیر مچا کہ پاکستان میں بغیر سوچے سمجھے آگ بگولہ ہجوم کی جانب سے امریکی دفاتر اور سفارت خانوں کو جلایا جانے لگا۔ اس وقت خانہ کعبہ کو دہشت گردوں سے واگزار کرانے کیلئے فرانسیسی کمانڈوز کے دستوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اللہ نہ کرے کبھی بھی ایسی صورت حال دوبارہ پیدا ہو لیکن اگر کبھی بھی اس قسم کے نامناسب حالات کا حرم شریف کو سامنا کرنا پڑ جائے اور یہ مقدس فریضہ اور جہاد پاکستانی فوج کے مقدر میں آ جائے تو اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس دینی فرض کو پورا کرنے میں کیا ممانعت ہو سکتی ہے؟ بیت المقدس پر آج اسرائیلی قبضہ مسلم امہ کو رلائے ہوئے ہے۔ قبلۂ اوّل کی پوری آزادی اور سکون کے ساتھ زیا رت کے لئے ہر مسلمان کا دل تڑپتا ہے لیکن اس پر صہیونی قبضہ ہم سب کے لئے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ وہاں اسرائیلی فوجی مسلمانوں کو اپنی سنگینوں پر پروئے رکھتے ہیں۔
کیا آپ میں سے کسی نے کبھی روضۂ رسولﷺ کے گنبد خضریٰ کے سبز و سفید رنگ اور پاکستان کے سبز اور سفید پرچم کی جانب غور سے دیکھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ یہاں پر یہ جواز غیر متعلق ہے کہ پاکستان میں کون سا اسلامی قانون نافذ ہے، اس قسم کی باتیں کرنے سے پہلے کبھی یہ بھی سوچ لیا کریں کہ ہم میں سے کس کس نے اپنے اندر اسلام نافذ کر رکھا ہے؟ کیا ہمیں کسی نے زبردستی روکا ہے کہ ہم قران کی تعلیمات پر عمل نہ کریں؟ کیا ہمیں کسی جانب سے یہ ڈر ہے کہ اگر ہم نے نماز کی پابندی کی‘ ہم نے کسی کا حق نہ کھایا تو ہمیں مار دیا جائے گا ؟ ہمیں ڈنڈوں سے پیٹا جائے گا؟ جب ہم بھاگ بھاگ کر گناہ کی جانب دوڑ رہے ہیں‘ جب ہم کمزور پر ظلم کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ڈرتے‘ جب ہم اپنے ہمسائے کو تنگ کر کے اس کی زندگی اجیرن بناتے ہوئے ذرا نہیں گھبراتے‘ جب ہم ملاوٹ کی آخری حدوں کو چھونے سے بھی شرم محسوس نہیں کرتے‘ جب ظلم اور زیادتی کو ہم اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں تو پھر کیا یہ سوچ کر ہم اپنے مقدس مقامات کی حفاظت سے منہ موڑ سکتے ہیں کہ ہم کون سے پورے کے پورے اسلام پر عمل پیرا ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved