تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-03-2018

’’سٹروک‘‘ آیا چاہتا ہے

سردی کا زمانہ رخصت ہوا۔ فضا میں خنکی ہے مگر اتنی نہیں کہ برداشت نہ کی جا سکے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ موسمِ گرما کی آمد آمد ہے۔ تین سال قبل کراچی میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہیٹ سٹروک کی آمد ہوئی تھی اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم و بیش دو ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ تین چار برس سے جو ہو رہا ہے وہ اب کی گرمیوں میں بھی ہو گا یعنی اللہ کی رحمتیں اپنے دامن میں سموئے رمضان المبارک شدید گرم موسم میں آئے گا اور اُس کے ساتھ (یعنی ماہِ مبارک کے آخر میں) آئے گا ایک زبردست سٹروک۔ اِسے آپ کہہ سکتے ہیں شاپنگ سٹروک! 
ایک تو گرمی اور اُس پر شاپنگ کی گرما گرمی! الامان الحفیظ۔ ویسے یہ معاملہ سردی دیکھتا ہے نہ گرمی۔ سخت سردی بھی پڑ رہی ہو تو ہمارے ہاں رمضان المبارک کے پہلے نصف کے بعد شاپنگ کا جنون سَروں پر جنّات کی طرح سوار ہو جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ 'اللہ دے اور بندہ لے‘ والی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ 
کہتے ہیں عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ یہ تو بس کہنے کی بات ہے۔ بچے بے چارے مفت میں بدنام ہیں۔ وہ بے چارے کیا بیچتے ہیں۔ اب عید بچوں سے زیادہ خواتین کی ہوتی ہے۔ آنیاں جانیاں بھی انہی کی لگی رہتی ہیں۔ اس معمول سے رگڑ کھا کھاکر بچے بھی اپنے باپوں کی طرح ادھو مُوئے سے ہو جاتے ہیں! یہ تو ہوا اہلِ خانہ کا بیان۔ اور رہے صاحبِ خانہ؟ اُن کے لیے کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
ہو خوشی بھی اِن کو حاصل یہ ضروری تو نہیں 
غم چُھپانے کے لیے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ 
مگر خیر، خواتینِ خانہ کے ناز اٹھانے والے ''مردانِ خانہ‘‘ دل چھوٹا نہ کریں۔ اللہ نے دوسروں کی خوشی ہی میں اُن کی خوشی رکھی ہے! 
میڈیا کی مہربانی سے اب ماہِ صیام کے دوران کئی تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں اور آخری عشرے میں ایک طرف عبادت گزاروں کا جوش و خروش بڑھتا جاتا ہے اور دوسری طرف تماشے بڑھتے جاتے ہیں۔ قوم کا کئی سال تک یہ حال رہا کہ جن لمحات میں اللہ کا قرب تلاش کیا جاتا ہے اُن لمحات کو لایعنی تماشوں کی نذر کرتی رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ دو سال سے ماہِ صیام کے دوران معاملات کچھ قابو میں رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں گرمی کا بھی عمل دخل رہا ہو۔ شدید گرمی پڑ رہی ہو تو کرتب دکھانے والے بھی جلد تھک جاتے ہیں! 
آج کل بیشتر عجیب النوع معاملات میں پہل کرنے کے حوالے سے خصوصی حیثیت کی حامل شہری ریاست دبئی کے ایک شاپنگ مال نے شاپنگ کرتے کرتے تھک جانے والوں کے لیے ''ریسٹ کارنر‘‘ متعارف کرایا ہے۔ یہ ''گوشۂ راحت‘‘ دراصل ان شوہروں کے لیے ہے جن کا سٹیمنا جواب دے گیا ہو مگر بیگمات شاپنگ کرکے نہ تھکی ہوں۔ شاپنگ مال کی تھیم یہ ہے کہ بیگمات اپنا سفر یعنی شاپنگ جاری رکھیں (انہیں بھلا کون روک سکتا ہے!) اور ''معاونِ خصوصی‘‘ کو کچھ دیر آرام کرنے دیں۔ گوشۂ راحت میں بنائے جانے والے سلیپنگ پوڈ میں موبائل چارجر اور یو ایس بی کی سہولت بھی میسر ہو گی۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے، انسان دوستی اِسی کو کہتے ہیں تو اپنی سوچ سے رجوع کیجیے۔ اِس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ تھکے ہوئے شوہروں کو آرام کا موقع فراہم کرنے کا معاملہ بھی مفت نہیں۔ ملحوظِ خاطر رہے کہ جس طور بیگم کی شاپنگ کا سارا خرچ شوہر کو ادا کرنا ہوتا ہے بالکل اُسی طرح شاپنگ کرانے سے پیدا ہونے والی تھکن دور کرنے یعنی آرام کرنے کی قیمت بھی اُسی غریب کو ادا کرنا پڑے گی! دبئی کا شاپنگ مال ایک گھنٹہ آرام کے 40 درہم چارج کرے گا۔ اور اگر تکیہ درکار ہے تو 5 درہم اضافی۔ اِسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار! 
ہمارے ہاں ''شاپنگ ٹیکنالوجی‘‘ نے ابھی اِتنی ترقی نہیں کی کہ بازار میں بیوی بچوں کے ساتھ گھوم گھوم کر تھکن سے چُور ہو جانے والے شوہروں کے لیے آرام کا اہتمام کیا جائے۔ اِس سرزمین کے شوہروں سے ابھی آرام بہت دور ہے! اور یوں بھی ہمارے ہاں شاپنگ مال ایسے وسیع و عریض نہیں کہ بیویوں کو شاپنگ کراتے کراتے ادھ مُوئے ہو جانے والے شوہروں کو آرام کا موقع دے سکیں۔ اگر یہ ٹرینڈ یہاں بھی آگیا تو شاپنگ مالز کی انتظامیہ بے چاری سمجھ نہیں پائے گی کہ شاپنگ کے دوران ادھ مُوئے ہو جانے والے شوہروں کے لیے سلیپنگ پوڈ منگوائے جائیں یا آئی سی یو کا اہتمام کیا جائے! 
ہمارے ہاں بیگمات خیر سے شاپنگ شاپنگ کھیلتی ہوئی اتنی دور نکل جاتی ہیں کہ اُنہیں پکڑ پانا شوہروں کے لیے انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ شاپنگ کے دوران شوہروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بیگمات کو بجٹ کی حدود میں کیونکر رکھا جائے۔ شاپنگ کا گراف جیسے جیسے بلند ہوتا جاتا ہے‘ شوہروں کا بلڈ پریشر بھی بڑھتا جاتا ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ سامان تھامیں یا دل۔ دل بیٹھا جا رہا ہو تب بھی بے چارے شوہر دِل پر ہاتھ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں آس پاس سے گزرتی ہوئی خواتین معنی خیز نظروں سے دیکھتی ہیں اور بیویاں خشمگیں نظروں سے گھورتی ہیں!
بیگمات کی شاپنگ کے گھوڑے کو لگام دینا شوہروں کے لیے ایک مستقل دردِ سر ہوتا ہے۔ بعض جوڑے اس معاملے کو بھی تماشے میں تبدیل کریتے ہیں۔ کچھ یہ تماشا دیکھنے ہی شاپنگ سنٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ ایک شاپنگ سنٹر میں میاں نے بیوی کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ کسی سیلز گرل نے مبارک باد دی کہ آپ دونوں میں اب تک اتنا پیار ہے۔ میاں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہاتھ نہ پکڑا جائے تو یہ کسی بھی دکان میں گُھس جاتی ہے! 
کوئی کتنے ہی جتن کر لے اور کتنا ہی ہاتھ تھامے رہے، ہونی کو بھی بھلا کوئی ٹال سکتا ہے! جو لکھ دیا گیا ہے وہ تو ہوکر رہنا ہے اور ہوکر رہے گا۔ عزیزو! بس تھوڑا سا انتظار اور۔ وہ وقت آیا چاہتا ہے جب شاپنگ سنٹرز کے اندر اور باہر شوہر نام کی مظلوم مخلوق منہ لٹکائے، سامان اٹھائے پائی جا رہی ہو گی۔ اور اِس کیفیت کے مقابل ہو گا خواتینِ خانہ کا بھرپور جوش اور ولولہ۔ نیوٹن کا تیسرا قانون یاد کیجیے۔ ہر عمل کا مساوی اور بالکل مخالف سمت میں ردعمل ہوتا ہے۔ عید کی شاپنگ کے زمانۂ عروج میں کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرف شاپنگ (یعنی بیگمات کے کِھلے کِھلے چہرے) اور مخالف سمت میں ردعمل کے طور پر شاپنگ کے شدید منفی اثرات یعنی شوہروں کے اُترے ہوئے چہرے! خواتینِ خانہ کے سامنے بے چارے صاحبانِ خانہ کریں بھی تو کیا کریں؟ زبردست کا ٹھینگا سر پر۔ یہ تو بیگار کا معاملہ ہے کہ مرضی نا ماضی کرنا ہی پڑے۔ ؎
ناحق اِن مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 
شاپنگ واپنگ آپ کرے ہیں، اِن کو عبث بدنام کیا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved