تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     22-03-2018

یہ چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے؟

انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار ہے۔ یہ کہاوت میں نے بہت پہلے بچپن میں سنی تھی۔ انگلستان کے ایک دانا شخص اور سابق وزیر اعظم گلیڈ سٹون کا یہ قول ہمارے ہاں کافی مشہور ہے، مگر کوئی اس پر غور نہیں کرتا۔ اسے اہمیت نہیں دیتا۔
برسوں پہلے میں جب لاء سکول سے فارغ ہوا، تو نظام انصاف کے بارے میں خوش امید تھا۔ میرا ارادہ اپنے آبائی قصبے میں کام کرنے کا تھا‘ مگر اس سے پہلے میں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک نامور قانون دان کی شاگردی اختیار کر لی، تاکہ آزاد کشمیر جانے سے پہلے ان سے کچھ کام سیکھ لیا جائے۔ اس شاگردی کے دوران میں نے جو سب سے پہلی چیز دیکھی وہ یہ تھی کہ وکلاء کے اکثر منشی مقدمے کو التوا میں ڈالنے، اور اگلی تاریخ لینے میں بہت ماہر تھے۔ میں سویرے سویرے سیشن کورٹ کی طرف نکل جاتا۔ یہاں منشی فائلوں کے انبار سمیت درختوں کے نیچے بیٹھے ہوتے۔ جونہی کوئی موکل آتا منشی جی فوراً اس سے اس تاریخ کی فیس وصول کرتے، اور شام سے پہلے ان کو اگلی تاریخ لے کر دے دیتے۔ میں نے خاص طور پر یہ مشاہدہ کیا کہ کوئی منشی جب بھی عدالت سے اگلی تاریخ مانگتا تو اکثر اوقات بغیر وجہ پوچھے اسے اگلی تاریخ دے دی جاتی۔ اگر کوئی پوچھ بھی لیتا تو اس کے پاس کئی بہانے ہوتے۔ مثلاً وکیل صاحب نہیں ہیں۔ گواہ نہیں ہے۔ زمین یا جائیداد کی نقل نہیں ملی ہے وغیرہ۔ یہ منشی لوگ ہر تاریخ پر اپنے لیے اور اپنے وکیل کے لیے الگ رقم وصول کرنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح موکل کا کام ہر تاریخ پر حاضر ہونا، منشی جی کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنا، اور اپنا مقدمہ ملتوی کرا کر واپس جانا ہوتا۔ احاطۂ عدالت میں موجود سینکڑوں منشی دن بھر اس کارروائی میں لگے رہتے۔ اس دوران وکلاء حضرات بار روم میں بیٹھے چاہے سگریٹ نوش کرتے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوتے‘ یا نئے گاہکوں کی تلاش میں ہوتے۔
ایک دن جب میرے استاد خوشگوار موڈ میں تھے، تو میں نے کہا کہ سر! مجھے لگتا ہے‘ یہ غریب لوگ جو انصاف کی تلاش میں یہاں آتے ہیں، ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ ان کے مقدمات میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس کی بڑی حد تک ذمہ داری تو ہم وکلاء پر عائد ہوتی ہے۔ میرے استاد نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولے: تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے جب نئی نئی وکالت شروع کی تھی، تو میرا بھی یہی خیال تھا۔ بلکہ میں نے انصاف کی رفتار تیز کرنے کے لیے دو چار جھگڑے بھی کیے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ مجھے اس نظام کا حصہ بننا پڑا۔ وکالت کوئی انقلابی پیشہ نہیں ہے۔ ہم لوگ یہاں نظام بدلنے نہیں آتے۔ ہمیں نظام کا حصہ بن کر چلنا پڑتا ہے۔ اس نظام کے پیچھے بہت طاقتور اور بے رحم لوگ بیٹھے ہیں۔ اگر ہم بغیر تیاری کیے ، انفرادی طور پر اس نظام سے ٹکرائیں گے، تو اس سے کسی موکل کو تو انصاف ملنے سے رہا، البتہ ہماری وکالت تباہ ہو جائے گی۔ یہ لڑائی صرف اجتماعی طور پر لڑی جا سکتی ہے، جس کے لیے کوئی تیار نہیں۔ 
تھوڑے دنوں بعد میں اپنے آبائی قصبے راولا کوٹ چلا گیا۔ یہ اس وقت ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، مگر صورتحال یہاں بھی مختلف نہ تھی۔ یہاں بھی ہمارے منشی حضرات پورا دن وصولیاں کرنے اور اگلی تاریخیں دینے میں گزارتے۔ اور وکلاء حضرات باہر بیٹھے دھوپ تاپتے رہتے۔ آج برسوں بعد میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے تازہ ترین صورت حال کے لیے ایک وکیل دوست کو فون کیا۔ اس نے منشی، پیشی اور اگلی تاریخ کی وہی پرانی کہانی سنائی ، مجھے لگا گویا وقت ایک جگہ تھما ہوا ہے۔ کوئی بارہ برس پہلے میں نے کینیڈا میں وکالت شروع کی، تو ابتدائی ایام میں اپنے پرانے تجربے سے کچھ فائدہ اٹھا کر، ایک آدھ بار اگلی تاریخ لینے کی ناکام کوشش کی، اور سبق سیکھا کہ یہاں ایسا کرنا مشکل ہے۔ کسی انتہائی لازمی وجہ کے بغیر آپ کو جج، مخالف پارٹی کا وکیل یا خود آپ کا اپنا موکل اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ آپ کی وجہ سے مقدمہ التوا کا شکار ہو۔
پاکستان میں اس وقت اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ یہ خبر میں نے اگلے ہفتے ایک بڑے اخبار میں پڑھی۔ مجھے افسوس ہوا مگر حیرت نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کا انٹرویو پڑھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اپنے خاندان کے ایک کیس کو عدالتوں میں چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے‘ حالانکہ اس دوران ان کے خاندان کے دو افراد ہائی کورٹ کے جج، اور ایک وکیل رہا۔ بڑا تاریخی خاندان ہے۔ ان کے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے، تو عام آدمی کی کیا اوقات ہے؟ اس پر انصاف کی راہداریوں میں کیا گزرتی ہو گی۔ ہماری عدالتوں میں یہ جو لاکھوں کی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں، ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جو انتہائی غریب ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ہر پیشی پر قرض اٹھا کر، فاقہ کشی کر کے منشی اور وکیل کی خدمت میں کچھ روپے پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ جواب میں ان کو صرف اگلی تاریخ ملتی ہے۔ 
جلد اور سستا انصاف فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے لیے وہ مناسب قانون سازی کرے۔ بجٹ مختص کرے۔ مالی وسائل مہیا کرے۔ اور ججوں کی تعداد میں اضافہ کرے، یا دیگر ضروری اقدامات کرے۔ انصاف کے لیے ظاہر ہے زیادہ وسائل کی ضرورت ہے‘ مگر جو وسائل ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے بھی کچھ ایسے فوری اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جن سے حالات کی سنگینی میں کمی آ سکتی ہے۔ اگر صرف وہ کام روک دیے جائیں جو باعثِ تاخیر بنتے ہیں‘ جیسے وکلاء کی طرف سے اگلی تاریخیں لینا، مقدمات کے التوا کے لیے مختلف حربے استعمال کرنا، جج کی طرف سے التوا اور تاخیر پر کوئی اعتراض نہ کرنا، اور گواہ کا تاریخوں پر نہ حاضر ہونا‘ پولیس کا ریکارڈ پیش کرنے میں تاخیر وغیرہ ‘تو حالات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ 
پاکستان میں وکلا کے نظم و ضبط کا مسئلہ بہت ہی گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ ضابطۂ اخلاق اور نظم و ضبط بہت ڈھیلا ڈھالا ہے۔ وکلاء کو عموماً اپنے پیشے میں بڑی سے بڑی غفلت، بد دیانتی اور لا پروائی پر سزا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ ان کو کوئی ہرجانہ نہیں ادا کرنا پڑتا۔ کوئی انضباطی کارروائی نہیں ہوتی۔ موکل ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ میں نے دیکھا کہ ترقی یافتہ دنیا میں اکثر وکلاء لاء سوسائٹی سے اس طرح ڈرتے ہیں، جس طرح پرانے وقتوں میں پرائمری سکول کے بچے سخت مزاج استاد سے ڈرتے تھے۔ ہمارے نظام انصاف کاآدھا مسئلہ تو صرف وکلا کے لیے سخت ضابطۂ اخلاق اور انضباطی کارروائی سے حل ہو سکتا ہے۔ جج حضرات کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ اگلی تاریخ کی درخواست کو صرف ناگزیر حالات میں ہی منظور کر سکتے ہیں۔ گواہ کی غیر حاضری کے خلاف سخت سزا مقرر کی جا سکتی ہے۔ پولیس کو بروقت چالان پیش کرنے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ 
دوسرے شعبوں میں نقائص پر نگاہ رکھنا اچھا عمل ہے۔ خرابیاں ہر جگہ ہیں، بہت ہیں۔ ہمارا پورا نظام گل سڑ رہا ہے۔ اس کی سرانڈ ہر جگہ ہے۔ مگر اپنی چارپائی کے نیچے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ چراغ تلے اندھیرے والی بات ہو گی ۔ ہمارے نظام انصاف کا بہت ہی برا حال ہے۔ ہماری عدالتوں میں رشوت چلتی ہے۔ دھکم پیل ہے۔ گالی گلوچ ہے۔یہ بڑے جج حضرات کا کام ہے، وہ یہ دیکھیں کہ ماتحت عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا لوگوں کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے۔ کیا مجسٹریٹ اور ماتحت جج دیانت داری سے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وکلاء اور جج حضرات کے پیشہ ورانہ اخلاقیات کا معیار سخت کیا جائے۔ انضباطی عمل کو سخت اور تیز رفتار بنایا جائے۔ ان اقدامات سے ایک پیسہ خرچ کیے بغیر قابل ذکر تبدیلی یقینی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved