تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     20-03-2013

منافقت

ایک طویل عرصے سے میرے ملک کے عوام کو یہ دلیل بار بار زور و شور سے سنائی جاتی ہے کہ جمہوریت اس لیے ناکام ہوتی ہے کہ یہاں پر آزادانہ الیکشن نہیں ہوتے۔ کبھی یہ الزام فوج، ایجنسیوں اور گزشتہ سالوں سے ایک نو دریافت ترکیب اسٹیبلشمنٹ کے سرد ھر دیا جاتا ہے کہ اُس کی مداخلت کی وجہ سے فلاں پارٹی یاگروہ اقتدار میں آیا۔ کبھی قبیلہ، برادری ، زبان اور قوم کے تعصبات کو صاف شفاف الیکشنوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو جمہوریت ایک ایسا سنہرا راستہ ہے جس میں عوام کی حقیقی رائے سے انہی کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا دھوکہ اور فریب ہے جسے دانشوروں،تجزیہ نگاروں اور جمہوریت کے علمبرداروں کے خوابوں نے تخلیق کیا۔ کیا دنیا کے جن ملکوں میں کئی سو سال سے جمہوریت اپنے پنجے گاڑ چکی ہے، وہاں الیکشن کسی قسم کی مداخلت اور طاقت ورگروہوں کی بالادستی کے بغیر ہوتا ہے؟ کیا وہاں واقعی لوگ اپنے حکمران‘ اعلیٰ ترین انسانی اقدار… انصاف، دیانت، انسانی برابری، اخلاقی برتری اور معاشرتی فلاح جیسے اصولوں کو سامنے رکھ کر چنتے ہیں؟ امریکہ سے لے کر انگلینڈ اور فرانس سے لے کر اٹلی تک اگر کوئی شخص الیکشن کے موسم میں قوموں کے اتار چڑھائو اور مزاج کا مطالعہ کرے تو حیرت میں ڈوب جائے کہ کئی سو سال تک الیکشن اور جمہوریت کی عادی یہ اقوام کسی طرح اس پورے عمل کو ایک وقتی میلے اور ہیجان کی طرح لیتی ہیں۔ چند ایک تبصرہ نگاروںکی مخصوص اقلیت جو عالمی اور ملکی معاملات پر غور کرتی ہے اُس کو چھوڑ کر عوام کی اکثریت ایک بہائو کے زیر اثر ، ایک جادو اور سحر کے عالم میں گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور پھر جس کا جادو زیادہ چل جائے۔ ایک وقتی طور پر کیا جانے والا سطحی فیصلہ جسے ووٹ کہتے ہیں، اس قوم کو اگلے پانچ سالوں کے لیے اُس کی تقدیر کے بارے ہونے والے فیصلوں سے یوں نکال کر باہر پھینک دیتا ہے جیسے مکھن میں سے بال۔ پھر اس ملک کے ساتھ جو کرنا ہے وہ کانگریس نے یا پارلیمنٹ نے کرنا ہوتاہے۔ یہ پارلیمنٹ، یہ صدر یا وزیر اعظم کہاں سے آتے اور کیسے آتے ہیں‘ انہیں کون لاتا ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے ووٹ سے آتے ہیں، یہ ہمارے نمائندے ہیں‘ ہم نے انہیں منتخب کیا ہے۔ لیکن یہ وہ دھوکہ ہے جس میں پوری قوم مبتلا رہتی ہے بلکہ اُسے بار بار مبتلا کر کے اس دھوکے کا مستقل اسیر رہنے دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت، الیکشن اور عوامی نمائندگی گزشتہ ایک صدی سے دو چیزوں کی محتاج اور دستِ نگر ہے۔ اگر یہ دو چیزیں کسی قابل، ایماندار اور پوری قوم میں اہل ترین شخص کو حاصل نہ ہوں تو جیتنا تو دور کی بات ہے وہ اس میدان میں اترنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔یہ دو چیزیں ہیں پارٹی فنڈ اور میڈیا۔ پارٹی فنڈ اصل میں فاتحین کو دی جانے والی کمک کا نعم البدل ہے۔ وہ کمک کہ جب سکندر، چنگیز اور ہلا کو جیسے لوگ ملکوں کو فتح کیا کرتے تھے تو قبیلے یا علاقائی راجے انہیں گھوڑے، افرادی قوت اور مالی امداد فراہم کرتے تھے‘ اور جب ملک فتح ہو جاتا توکمک فراہم کرنے والے کسی کو گورنر‘ کسی کو سپہ سالار بنا دیا جاتا ،کوئی اس کمک کے بدلے میں وزارت لیتا اور کوئی دس ہزاری منصب۔ حکمران طبقہ آج بھی وہی ہے جس کی دولت سے ان جمہوری ملکوں میں اربوں ڈالر کے پارٹی فنڈ قائم ہوتے ہیں اور پھر الیکشن مہم کی چکا چوند مہم شروع کی جاتی ہے جس میں میڈیا کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان میں آتا ہے۔ لوگوں کو ایک مصنوعی قیادت کی جھلک انتہائی خوشنما طریقے سے دکھائی جاتی ہے۔ اس بااصول جمہوری طریقے کی سطحیت ملاحظہ کیجئے۔ رچرڈنکسن اپنے پہلے الیکشن کے بارے میں لکھتا ہے کہ چونکہ اس کا مقابلہ کینیڈی کے ساتھ تھا جسے میڈیا نے ایک جاذبِ نظر ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا تو وہ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ کئی قسم کی کریمیں اور لوشن لگا کر ٹیلی ویژن پر آتا، سو طریقے خوبصورتی کے اپنائے، لیکن اُس کے سامنے میرا چراغ نہ جل سکا۔ اس شاندار جمہوری الیکشن یا سطحی ’’مقابلہ حسن‘‘ کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ بل کلنٹن کے الیکشن جیتنے کے بعد اُس کو ووٹ دینے کی بنیادی وجہ کے بارے میں سروے ہوئے تو عورتوں کی اکثریت نے بتایا کہ انہوں نے کلنٹن کو اس لیے ووٹ دیئے کہ وہ ان کے خوابوں میں آتا تھا۔ ایک خمار، ایک جنون، میڈیا کی چکا چوند اور لوگوں کو ایک میلے کی طرح اپنے نمائندے چننے کا احساس برتری اس طرح دلایا جاتا ہے کہ انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ جن کو منتخب کرنے جا رہے ہیں ان کی طنابیں کن کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جن کا سرمایہ اس پورے نظام میں جان بھرتا ہے۔ امریکہ کے ان سرمایہ داروں نے 32ٹریلین ڈالر ٹیکس سے بچنے کے لیے کیمن آئی لینڈ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ رقم امریکہ کے کل جی ڈی پی15ٹریلین ڈالر اور کل قرض16ٹریلین ڈالرکو ملا کر بننے والے31ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن ان لوگوں کے سرمائے سے جیتنے والے کانگریس کے ارکان ان ٹیکس چوروں کے خلاف گزشتہ سو سال سے ایک قرارداد بھی پاس نہیں کر سکے۔ یہ وہ جمہوری اور بے بس قیادت ہے جس کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوتا کہ آپ زرعی ٹیکس نہ لگا سکیں، قرضے معاف کرنے والوں کو نہ پکڑ سکیں، ٹیکس چوروں کا احتساب نہ کر سکیں۔ یہ دنیا کے ہر جمہوری نظام کا خاصہ ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام اسی لیے رائج کیا گیا ہے اور اسے اس طرح خوشنما بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ لوگ پانچ سال اس نشے میں مبتلا رہیں کہ یہ ان کی حکومت ہے اور پانچ سال بعد وہ انہیں بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں وہ کن کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، ان لوگوں کا جو انہیں ضمانت دیتے ہیں کہ اگلے انتخابی مرحلے میں ان کا روپیہ اور ان کا میڈیا انہیں دوبارہ سندِ اقتدار پر لا بٹھائے گا۔ اس سارے نظام کی منافقت اس مملکت خداداد پاکستان میں صرف چند روز میں ایسے کھل کر سامنے آئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کی زبانیں روز یہ گردان کرتے نہیں تھکتی تھیں کہ کون چور ہے،بد دیانت ہے، فاسق و فاجر ہے، اس کا فیصلہ کرنا تو عوام کا کام ہے۔ یہ صادق اور امین کی شرط جمہوریت کے منافی ہے‘ جن کو عوام منتخب کریں،خواہ وہ چور ہو بددیانت ہو ، جھوٹا ہو،اسے ہی حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام پر چور اور بددیانت کو حکومت کا حق حاصل ہے، لیکن جب ان سب سیاسی لیڈروں کے اپنے انتخابات کا فیصلہ آیا، نگران حکمران چننے کی بات ہوئی، تو 62اور63کی تمام شرائط کھل گئیں… ایماندار ہو، غیر جانبدار ہو، صادق اور امین ہو، امریکہ کا غلام نہ ہو، ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا ملازم نہ ہو، کسی طبقے یا گروہ کے لیے تعصب نہ رکھتا ہو۔ کیسی شرائط عائد کی جا رہی ہیں، کیسے فرشتے اور متقی ڈھونڈے جا رہے ہیں!جن لوگوں نے تین ماہ اقتدار میں رہنا ہے وہ تو ان شرائط پر پورا اتریں کہ انہوں نے ان سیاستدانوں کے درمیان انصاف سے الیکشن کروانا ہے لیکن جو پانچ سال کے لیے برسر اقتدار آئیں وہ بے شک ٹیکس چورہوں، بددیانت ہوں، کرپٹ ہوں ، جھوٹے ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved