تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-03-2018

این آر او نہیں ہوگا

تدبیر کنند بندہ‘ تقدیر کنند خندہ... اور اقبال نے یہ کہا تھا:
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ
امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات کے ہنگام وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کا سٹاف موجود نہ تھا۔ نوٹس نہ لکھے گئے۔ کیا میاں محمد نواز شریف کے ایما پر ایسی گفتگو ہوئی‘ جسے خفیہ رکھنا ہے؟ نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف امریکی پالیسیوں کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں ''مودی کا یار‘‘ کہا جاتا ہے۔ کٹھمنڈو میں چار سال ادھر‘ بھارتی وزیراعظم سے ان کی خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جس بھارتی صنعت کار جندال کو اس ملاقات کا سہولت کار کہا گیا ‘ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد‘ میاں محمد نواز شریف اپنے فرزند حسین نواز کے ہمراہ‘ دلّی میں اس کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ پاکستانی ہائی کمیشن کو اس ملاقات کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ کچھ دوسری ملاقاتوں کی بھی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل جناب جندال پاکستان تشریف لائے۔ کہا جاتا ہے کہ ویزے کے بغیر۔ اور کوہِ مری میں‘ میاں صاحب کی عالیشان رہائش گاہ پر ان سے ملے، جس کی شاہانہ آرائش پر پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی لٹتی ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف نریندر مودی کے یار ہیں؛ تاہم کچھ سوالات ہیں‘ جن کا جواب نہیں ملتا۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی نہایت جوش و خروش کے ساتھ بھارت کے ساتھ مراسم بہتر بنانے کی انہوں نے تبلیغ شروع کر دی تھی۔ ایک سے زیادہ بار انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کی ثقافت ایک ہے۔ ''وہ آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی‘‘۔ انہوں نے کہا تھا‘ حالانکہ ہندو سرے سے گوشت کھاتے ہی نہیں۔ رہی ثقافت تو وہ متحارب اور متصادم ہے‘ ہم آہنگ نہیں۔ یہی قائدِاعظم کا بنیادی استدلال تھا: بھارتیوں کے ولن ہمارے ہیرو اور ان کے ہیرو ہمارے ولن ہیں۔ مثلاً محمود غزنوی‘ مثلاً شیوا جی... ہمارا اور ان کا طرزِ تعمیر‘ حتیٰ کہ موسیقی تک مختلف ہے۔
بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے‘ جب پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ‘ تخریب کاری کے ایک بڑے جال کی نگرانی کرنے والے کلبھوشن یادیو کا نام تک لینے سے گریز کرتا ہے۔ کشمیر میں وہ پاکستانی فوج کو بھارتیوں سے زیادہ ظلم کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ پھر شہباز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بھائی قائدِاعظم کے جانشین ہیں ۔ 
نون لیگ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے‘ پاک فوج کے سربراہ‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ لاہور جا کر میاں محمد نواز شریف سے ملے۔ بھارت اور طالبان سے مذاکرات کی بے تابانہ خواہش پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ جنرل نے ان سے کہا کہ بھارت سے مراسم کو معمول پر لانے کا عمل مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں یہی قاعدہ اور قرینہ ہے اور یہی حکمت کا تقاضا۔ قتل و غارت پر تلے طالبان کے باب میں مشورہ دیا کہ بات چیت آئین کی حدود کے اندر ہونی چاہیے‘ نظام الاوقات (Time Frame) طے کر لیا جائے۔ مولوی حضرات کو شامل نہ کیا جائے‘ وگرنہ وہ اس عمل کو اغوا (Hijack) کر لیں گے۔ میاں صاحب نے معاملہ مولانا سمیع الحق کو سونپ دیا۔ من مانی کرتے ہوئے‘ جنہوں نے ایک اور مولوی صاحب کو کمیٹی کا ممبر بنا دیا۔ نظام الاوقات طے کرنے سے بھی گریز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان کے حوصلے بڑھ گئے۔ قتل و غارت کا سلسلہ اور بھی بڑھ گیا۔ پشاور کے ایک چرچ میں لگ بھگ ایک سو عبادت گزاروں کے چیتھڑے اڑا دیئے گئے ۔ پاک فوج کے ایک بہادر سپوت میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو گھات لگا کر شہید کر دیا گیا۔ شدید عوامی دبائو کے نتیجے میں‘ مذاکرات کا یہ سلسلہ معطل کرنا پڑا؛ اگرچہ کمیٹی کے ایک ممتاز رکن میجر عامر‘ پہلے ہی نالاں تھے کہ مولانا اور ان کے مداح عرفان صدیقی مسخرے پن پر تلے تھے۔
ایک طویل ملاقات میں جنرل کیانی نے‘ اس ناچیز سے کہا تھا کہ نائن الیون کا حادثہ بھی اگر برپا نہ ہوتا‘ تب بھی امریکی افغانستان میں ضرور اترتے۔ یہی نہیں‘ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ طویل عرصے تک وہ کابل میں قیام کے آرزو مند ہیں۔ یہاں سے وہ چین کے علاوہ وسطی ایشیا‘ روس‘ ایران اور پاکستان پر نگاہ رکھنے کے آرزو مند ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی مٹی میں پوشیدہ ناقابلِ یقین مالیت کی معدنیات کا استحصال کرنے کے بھی۔
بھارت اب انکل سام کا سب سے بڑا تزویراتی حلیف ہے۔ تجارتی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی خواہش ڈھکی چھپی نہیں۔ اسی لیے چینیوں نے‘ پاک فوج سے اس میں ضامن کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے لیے مزید ایک ڈویژن فوج بھرتی کی گئی۔ ممکن ہے کچھ اضافہ بھی کرنا پڑے۔ لگ بھگ دو سال قبل پاک فوج کے ایک اور ممتاز جنرل نے مجھے بتایا تھا: وزیراعظم پاکستان کا مطالبہ ہے کہ پاک فوج‘ پاکستانی سرحد سے لے کر‘ کابل سے آگے تک ریلوے لائن بچھانے میں مدد فراہم کرے۔ فوجی قیادت نے منصوبے کا جائزہ لیا اور اسّی نکات کی نشان دہی کی۔ اس میں تکنیکی‘ مالی اور تزویراتی پہلو شامل تھے۔ متعلقہ جنرل سے وزیراعظم نے کہا: جنرل صاحب! ریلوے لائن آپ بچھانا ہی نہیں چاہتے۔ جنرل نے کہا: جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے۔ پاکستان سے زیادہ اس میں بھارت کا فائدہ ہے۔ میدانوں ، پہاڑوں اور وادیوں سے گزرتے، جس مقام تک اتفاق فائونڈری کے مالکان ریل پٹڑی کھینچ لے جانے کے آرزومند تھے‘ وہاں خام لوہے کی کانیں ہیں... اور ان پر سرمایہ کاری سجن جندال نے کی ہے۔
''امریکہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے‘‘ فرانسیسی مدبر ڈیگال نے کہا تھا۔ پاکستان کے باب میں‘ امریکی پالیسی‘ بھارت اور افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی پر صرفِ نظر ہی سے واضح نہیں۔ فقط ایسی این جی اوز کی سرپرستی ہی سے نہیں‘ جو امریکہ کے لئے جاسوسی کے علاوہ‘ ہمیشہ بھارتی مؤقف اور نون لیگ کی پرجوش تائید کرتی ہیں۔ سب سے اہم پہلو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ انکل سام اسے سمیٹ دینے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت ہی نہیں بلکہ اس کے لے پالک اسرائیل کو بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر شاہین تھری میزائل سے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ اگر کبھی اسرائیل نے حجازِ مقدس کا قصد کیا‘ جو اس کے عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے‘ تو ترکیہ کے علاوہ‘ پاکستانی افواج اس کی مزاحمت کریں گی۔ سب سے بڑھ کر اور سب سے ڈٹ کر۔ منکرینِ حدیث کی بات دوسری ہے ورنہ چودہ سو سال پہلے اللہ کے آخری رسولؐ یہ اعلان فرما چکے۔ پاکستانی مسلمانوں کو بشارت دے چکے۔ سچ پوچھیے تو پاک فوج بنی ہی غزوۂ ہند کے لیے ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے پاک فوج اور دوسرے آئینی اداروں کو مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے‘ وہ اچانک اور غیر متوقع نہیں۔ بہت دن سے اسلام آباد میں ایک نئے این آر او کی چہ میگوئیاں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تھک چکے۔ امریکہ اور برطانیہ سے کوئی خاص مدد نہیں پہنچی۔ پہنچنے کی زیادہ امید بھی نہیں۔ این آر او کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف کو عدالت نااہل قرار دے چکی اور وہ نااہل ہی رہیں گے۔ نون لیگ کو البتہ الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے اور پوری آزادی کے ساتھ۔ شریف خاندان سے رہ و رسم رکھنے والے اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن کی ناکامی کے بعد‘ خاندان کے کرتا دھرتا شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ اگرچہ اطلاع مصدقہ نہیں؛ تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف کے ایما پر چوہدری نثار علی خان‘ دو بار عسکری قیادت سے بات کر چکے۔ شہباز شریف قابل قبول ہو سکتے ہیں؛ بشرطیکہ عدالت انہیں گھر کی راہ نہ دکھا دے۔ اندیشہ موجود ہے مگر پسِ پردہ ملاقاتوں کی بنا پر اس ناچیز کا اندازہ ہے کہ فوجی قیادت‘ چھوٹے میاں کو میدان میں دیکھنا پسند کرے گی۔ ممکنہ طور پر نثارعلی خان ان کے رفیقِ کار ہوں گے۔ پرویز رشید کی ناراضی اور ژولیدہ فکری کا سبب یہی ہے۔ اس کے علاوہ کہ شریف خاندان نے بلدیاتی اداروں کو بیدردی سے آئندہ عام الیکشن میں جھونکنے کا ارادہ کیا ہے‘ خطرناک اطلاع یہ ہے کہ وہ بعض ججوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہی مافیا کے حربے۔
تدبیر کنند بندہ‘ تقدیر کنند خندہ... اور اقبال نے یہ کہا تھا:
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved