تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-03-2018

سٹیفن ہاکنگ کا خط

پچھلے دو دن کراچی میں گزارے ۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس محمد کریم آغا پر مشتمل بینچ کے رو برو احتساب کے ایک مقدمے میں بحث کے لیے۔ 
عدالت سے باہر نکلے تو ایک صاحب دوڑتے آئے۔ پوچھا: آپ نے میرا خط پڑھا؟۔ نہ جان پہچان ، نہ تعارف۔ مجھے خاموش پا کر کہنے لگے: ضرور پڑھئے گا، خط میں قوم کی نجات کا فارمولا درج ہے ۔ 25 سال لگا کر میں نے وہ نسخہ دریافت کیا ہے‘ جو پاکستان کے بانیوں کے ذہن میں نہیں آیا۔ 
اسلام آباد واپسی پر ایسے ہی مجرّب نسخوں پر مشتمل خطوط کا انبار منتظر پایا ۔ خط پبلک لائف رکھنے والوں کے اعزازات میں امتیازی اعزاز ہوتا ہے ۔ کس قیامت کے یہ نامے، میرے نام آتے ہیں۔ دھمکیوں والے خطوط ، بشارتوں، خوشخبریوں پر مشتمل خط۔ بینکنگ سسٹم سے لے کر بین الاقوامی تجارت تک کے بے لوث فارمولے۔ بے نظیر انکم سپورٹ کی انعامی رقم ۔ ادھیڑ عمر کی مردانہ مصروفیات کے صدری نسخے ۔ وظیفے ، کام کی باتیں، جنّ، بھوت پریت ، کالے جادو کے خاتمے اور نیلی آنکھوں کی مفت مہربانی کے حصول کے لیے 100 فیصد کامیاب چلّے۔ وزیرِ ریلوے جتنے انعامی بانڈز کے انعامات ۔ امریکہ کا ویزا برطانیہ میں تعلیم ، کینیڈا کی شہریت اور آسٹریلیا میں فارم ہائوس۔ ہر قسم کے پریشان حالوں کے مسائل کا حل۔ مخلصانہ تجاویز ، بے لوث مشورے اور قوم کے بہتر مستقبل کا روڈ میپ ۔ ہر موضوع پر خط آتے ہیں ۔ کراچی میں قدیر اعوان نامی وکیل ملے۔ کہنے لگے: میرے ویب پیج پر لوگ اکثر پوچھتے ہیں‘ کیا آپ بابر اعوان ہیں۔ اسی طرح کے دانش ور8-10 صفحے کے مختصر خط میں اپنا تعارف ، خدمات اور ''اختصاریے‘‘ بھیجتے ہیں۔
میرے سٹاف کی پکی عادت ہے کہ وہ ہر لفافہ کھولتا ہے اور خط بھی۔ یہ عادت انہیں بار بار مٹھائی کے ڈبے اور فروٹ کی ٹوکریاں کھولنے سے پڑی ہے۔ پیر کے آستانے کی طرح وکیل کے چیمبر میں ایسے ڈبے اور ٹوکرے اکثر آتے ہیں۔ دفتریوں نے از خود کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے: پھٹنے والے آموں ''EXPLODING MANGOES‘‘ کی طرح کوئی مشکوک فروٹ یا برفی مجھ تک سلامت نہ پہنچے ۔ بے چارے راجہ بازار کی قلاقند سے قندھاری انار تک مجبوراً کھولتے ہیں ۔ پھر انھیں ان دی لائن آف ڈیوٹی یہ سب چکھنا پڑتا ہے۔ 
ایسا ہی ایک دریدہ خط میرے سامنے آیا‘ جو جنابِ انور مقصود کے نام تھا‘ لیکن ڈاکیے نے تھوک کے حساب سے جو خط میرے ہاں پھینکے ان میں سٹیفن ہاکنگ کا یہ خط بھی شامل تھا۔ سٹیفن نے حال ہی میں یہ عالمِ بالا سے تحریر کیا ہے۔ سٹیفن لکھتے ہیں: پہلے ہفتے میں ہی نا قابلِ یقین نظارے کیے ۔ لیکن پہلے میں آپ کی توجہ اپنی پیش گوئی کی طرف مبذول کراتا ہوں‘ جو میڈیا نے دنیا کے سامنے توڑ مروڑ کر پیش کی۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں دوسرے سیاروں کی مخلوق سے رابطہ نہیں کرنا چاہیے ۔ یہاں پہنچ کر میرا نظریہ درست ثابت ہوا۔ ہماری کہانیوں میں پریاں اُڑنے والی ہوتی ہیں۔ باربی ڈول کی طرح نرم و نازک ۔ لیکن یہاں میں نے سب سے چھوٹے قد کی جو اصلی پری دیکھی وہ 75 میٹر لمبی تھی ۔ عمر تقریباً ڈیڑھ لاکھ سال ۔ 20فٹ لمبے ناخن، گہرا نیلا رنگ ، بوگن بیل جھاڑی کی طرح بال۔ 7/8 من کی ناک ۔ وہیل چیئر سمیت میرے قد جتنی آنکھیں ۔ سبز رنگ کے دو میٹر لمبے دانت ۔ مجھے اچانک ایسٹ لندن کے ایشیائی، افریقی، ترکی، چینی اور مشرقی یورپ کے پڑوسی یاد آ گئے ۔ ان خواتین و حضرات سے مل کر مجھے کبھی ڈر نہیں لگا ۔ بے چارے، روزگار کے مارے ہمیشہ انگلش گوروں سے ڈرتے تھے۔ پری نے میری طرف 7.5 میٹر لمبا دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو میری جان نکل گئی ۔ نہ جانے کیوں مجھے اردو کا محاورہ یاد آ گیا‘ جس میں چوہا بلی سے کہتا ہے: ہم لنڈورے ہی بھلے۔ یقین فرمائیے اس لمحے مجھے اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر پہلی دفعہ فخر ہوا ۔ اگلی مُلاقات بھی آپ سے شیئر کرنے کے قابل ہے۔ میں شاہراہِ شہد تلاش کر رہا تھا کہ انڈین وزیرِ اعظم مودی کی بد روح سامنے آ گئی‘ جس کے ایک ہاتھ میں ترشول تھا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار۔ مودی کی بد روح نے میری طرف جمپ لگایا لیکن اس کی ٹانگ میں پڑی زنجیر نے اسے کھینچ کر لمبا گرا دیا۔ تھوڑا آگے چھوٹی سی کرپان سے کھیلتے ہوئے ماسٹر تارا سنگھ اور بنگلہ بندھو شیخ مجیب منہ لٹکائے بیٹھے نظر آئے۔ دونوں کو پریشان حال دیکھ کر میں پاس چلا گیا۔ حال احوال پوچھا۔ کہنے لگے: مودی کی بد روح یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ میں نے ماسٹر تارا سنگھ سے کہا: آپ کے دور میں بھی مودی تھا؟۔ تارا سنگھ نے سر چھوٹو رام کی طرف اشارہ کیا، کہا: ان سے پوچھو۔ تھوڑی دیر بعد خود کلامی کے انداز میں کہنے لگے: مودی ہر دور میں ہوتا ہے۔ سری نگر سے بابری مسجد تک۔ میں نے شیخ مجیب کو شرمندہ شرمندہ دیکھ کر پوچھا: شیخ صاحب کس بات پر نادم ہیں۔ کہنے لگے: اپنی ہر بات پر۔ میں نے سیاسی بحث میں الجھنا مناسب نہ سمجھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک جگہ رش نظر آیا۔ کافی معزز لوگ ایک دراز قامت، پُر رونق چہرے والے، چھریرے بدن کے بزرگ کے ارد گرد جمع تھے۔ بزرگ نے مجھے دیکھتے ہی کہا: آگے آ جائو۔ فرمایا: تمہیں ایک خط ڈکٹیٹ کروانا چاہتا ہوں۔ میں ہمہ تن گوش ہو کر لکھنے بیٹھ گیا۔ خط یوں ہے:
سلام مسنون کے بعد واضح ہو کہ میں نے ابھی ابھی سنا‘ تم اپنے خاندان کی طرف سے میرے جانشین مقرر ہو گئے ہو۔ امید ہے جانشینی کی یہ کارروائی قطری شہزادے کے دفتر میں مکمل ہوئی ہو گی۔ تمہیں معلوم ہے، تمہارے جیسے لوگوں کے بارے میں، مَیں نے تحریک پاکستان کے دوران کہا تھا: میری تھیلی میں کھوٹے سکّے ہیں۔ اب جانشینی کی فرضی کارروائی کے بعد یقین ہو گیا کہ تم کھوٹے نہیں جعلی سکّے ہو۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں نے وکالت کی کمائی، گھر بار،گاڑیاں، لندن والا گھر سب کچھ یہاں آنے سے پہلے قوم کے نام کر دیا۔ اپنی پیاری ہمشیرہ ڈاکٹر فاطی‘ جسے تم فاطمہ جناح کہتے ہو‘ کو بھی کچھ نہیں دیا۔ میں اور میرے خاندان نے نہ کبھی قرض لیا‘ نہ بینکوں کے ڈیفالٹر ڈیکلیئر ہوئے۔ کرپشن، بد انتظامی اور بری حکمرانی سے مجھے شدید نفرت ہے۔ گورنر جنرل کے طور پر ایک دفعہ میری بہن نے ٹوتھ پیسٹ کا بِل سرکاری خرچے میں لکھا۔ میں نے فوری حکم جاری کیا: ٹوتھ پیسٹ کا بِل فاطمہ خود ادا کریں ۔ قوم کے بجٹ سے ادائیگی نہیں ہو سکتی۔ تم اچھی طرح واقف ہو ، میں نے محل تعمیر کیا نہ سات سمندر پار آف شور کمپنی بنائی۔ نہ میری اولاد کے مے فیئر فلیٹ تھے نہ بھائی پر قتل، دہشت گردی کے مقدمات۔ میری صاحبزادی کے نام پر کوئی بے نامی پراپرٹی نہیں۔ صرف یہ بتا دو‘ تم کس کام میں میرے جانشین ہو؟۔ قانونی طور پر جانشین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک اولاد، دوسرا لے پالک بچہ۔ ذرا وضاحت کرو تم کس زمرے میں آتے ہو۔ اگلے دن نیلسن منڈیلا رو رہے تھے۔ شکایت لے کر آئے۔ تم نے قرض اُتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے کی طرح نیلسن کا نام بھی چوری کر لیا۔ امید ہے تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھو گے...
میں نے آگے خط پڑھنا بند کر دیا۔ لفافے کو گِلو لگا کر سیل کر دیا۔ امید ہے چند روز تک مکتوب الیہ محترم انور مقصود کو خط مل جائے گا، ہو سکتا ہے وہ مکمل خط پڑھنے کے بعد اس پر خیال آرائی فرمائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved