تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-03-2018

مستقبل

بدعنوانی، نالائقی اور قبضہ گیری سے سیاستدانوں نے اپنا کردار محدود کیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کا ادراک کئے بغیر مستقبل کا لائحہ عمل نہیں بن سکتا۔ 
چیف جسٹس کو انٹرویو نہیں دینے چاہئیں‘ کالم نہیں لکھوانے چاہئیں۔ ان کا مقام اور منصب اس سے بلند ہے۔ کسی بھی شخص کے قد و قامت کا تعین، اخبارات کے تبصروں اور فدائین کی مدّاحی پہ منحصر نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو جاتی امرا کے میاں محمد نواز شریف قائد اعظم سے بڑے لیڈر ہوتے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں لکھنے والوں کا مفاد ان سے وابستہ ہے۔ ایک کے بعد دوسرا میڈیا گروپ ان کے درِ دولت پہ سجدہ ریز ہوا ہے۔ انسانی تقدیروں کے فیصلے مگر زمین نہیں آسمان پہ ہوتے ہیں۔ آسمانی قوانین کبھی نہیں بدلتے۔
دانشوری الگ، متغیر حالات میں، میڈیا کی طرح عدلیہ کا کردار بڑھ گیا ہے اور اس سے بھی زیادہ فوج کا۔ ملک کو پھر سے پٹڑی پہ ڈالنا ہے، کامل جمہوریت تک پہنچنا ہے تو چندے اسے گوارا کرنا ہو گا۔ زندگی کے دوسرے دائروں کی طرح، سیاست میں بھی خلا کبھی نہیں رہتا۔ حبس ہو گا تو آندھی اٹھے گی۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل اگر جمہوری ہوتی۔ پارٹی کے ووٹروں سے پوچھ کر ٹکٹ اگر جاری کئے جاتے۔ تحصیل، اضلاع اور ڈویژن سے لے کر صوبے اور مرکز تک منتخب لیڈر اگر ہوتے۔ بلدیاتی اداروں میں بتدریج قیادت ابھرتی اور صیقل ہوتی چلی جاتی تو میڈیا اور عدلیہ کیا‘ عسکری قیادت بھی اپنی حدود میں رہتی۔ پارلیمنٹ نے اگر اپنا کردار ادا کیا ہوتا۔ اگر پالیسیوں کی تشکیل میں سینیٹ اور ارکانِ اسمبلی پہ انحصار ہوتا۔ صوبائی اور مرکزی کابینائیں اگر فیصلے صادر کرتیں، تو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نام کی کسی چیز کا، ہماری تاریخ میں ذکر نہ ہوتا۔ 
ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی پولیس افسروں کا تقرر اگر حمزہ شہباز کو کرنا ہے۔ 45 بلین ڈالر کی تجارتی راہ داری کے لئے، چین کے دورے میں سلیمان شہباز اور میاں منشاء اگر وزیر اعظم کے ہم رکاب ہوں گے‘ تو اعتراض اٹھے گا۔ تجربہ یہ ہے کہ اوّل شکایت ہوتی ہے۔ پھر غیبت جنم لیتی ہے۔ ردّ عمل بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس میں نفرت گھلنے لگتی ہے، حتیٰ کہ بد گمانی شعار ہو جاتی اور جتھے وجود میں آتے ہیں۔ یہ جو دن رات نون لیگ اور تحریک انصاف کے میڈیا سیل گالم گلوچ کے مقابلے میں جتے ہیں تو یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرے اور بھی ہیں۔ شخصیت پرستی کہ گرداب میں صداقت تحلیل ہونے لگتی ہے۔ کراچی کے نابغے کو کپتان نے پارٹی میں شامل کیا تو کارکنوں کی اکثریت کو صدمہ پہنچا۔ خوشامدیوں نے اس پر یہ کہا : خان کا فیصلہ جسے پسند نہیں، پارٹی سے نکل جائے۔ پارٹی کیا عمران خان کی ہے، ان کارکنوں کی نہیں، دن رات جو اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں اور جن کا اقتدار میں کوئی حصہ نہیں۔ پھر شریف خاندان کی من مانی پر یہ لوگ کس منہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ 
یہ تمیزِ بندہ و آقا کا معاشرہ ہے، سرپرستی کا معاشرہ۔ خود ترحمی اور احساس کمتری اس معاشرے کے امراض ہیں۔ ہمیشہ سے یہ جاگیرداروں اور بادشاہوں کی مِلک تھا۔ انہیں ظلِّ الٰہی کہا جاتا۔ اقبالؔ کے فلسفۂ خودی کا خلاصہ یہی ہے کہ اشرف المخلوقات خود کو پہچانے۔ اپنے آپ پر اعتماد کرنا سیکھے۔ بادشاہوں کے بادشاہ کے سوا، دستِ سوال کسی کے سامنے دراز نہ کرے۔ 
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے 
راہ تو، رہرو بھی تو‘ رہبر بھی تو، منزل بھی تو
دیکھ آ کر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی 
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
شہباز شریف نے اپنے پسند کے افسروں کا لشکر بنا لیا ہے۔ احد چیمے اور فواد حسن فواد قسم کی مخلوق ہی انہیں پسند ہے۔ اہلیت کوئی چیز ہی نہیں۔ درجن بھر وزارتیں، دم میں ڈال رکھی ہیں۔ گویا ابھی یہ مغل بادشاہوں کا عہد ہے۔ مغل پھر بھی صلاحیت کی پروا کرتے، ہمارے عہد میں عدمِ تحفظ کے مارے حکمران، یکسر بے نیاز ہیں۔ بلوچستان کے معزول وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری، مہینے میں صرف دو دن کوئٹہ میں بسر کرتے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور محمود اچکزئی کی سرپرستی، سب عوامل سے انہیں بے نیاز رکھے گی۔ نواز شریف اپنی انا کے گرداب میں اس طرح الجھے کہ آخر کار ڈوب گئے۔ انہیں کس کا سہارا تھا؟ اپنی پارٹی کے اندھے مقلدین کا؟ انکل سام کا ؟ اب وہ کہاں ہیں؟ 
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا 
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا 
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا 
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا 
فوج اکتا گئی تھی، سول معاملات میں مداخلت سے گریزاں تھی، 2007ء کی عدالتی تحریک میں، وہ دن بھی اس ملک نے دیکھے کہ فوجی افسر وردی پہن کر شہر میں جا نہ سکتے۔ سلیم الطبعی کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ حالات سے سبق سیکھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی ایک ایک قدم احتیاط سے اٹھاتے رہے۔ جنرل راحیل شریف کا انتخاب میاں محمد نواز شریف نے خود کیا تھا۔ ان کی خوبیوں نہیں بلکہ خود تصور کردہ، ان کی خامیوں کی بنا پر۔ چند ہفتے بھی گزرے نہ تھے کہ کوس لمن الملک بجانے کا بھوت ان پہ سوار ہوا۔ باقی تاریخ ہے۔
یہی جنرل قمر باجوہ کا معاملہ تھا‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ مہینوں فوجی درباروں میں سول بالا دستی کی وہ جنگ لڑتے رہے۔ کور کمانڈروں، افسروں اور جوانوں کو سمجھاتے رہے کہ بالاتری منتخب حکومت کی ہونی چاہئے۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ مفاہمت کے حکومتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے، ایک کے بعد دوسری تدبیر، ایک کے بعد دوسری کاوش کی۔ ڈان لیکس کے معاملے میں، جتنا پیچھے وہ ہٹ سکتے تھے ہٹے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ 
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی 
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
بادشاہی اللہ کی ہے اور ہمیشہ اسی کی رہے گی۔ دستور کے تحت چلائے جانے والے ایک جمہوری معاشرے میں سلطانی جمہور کی ہوتی ہے۔ حکمران عوام کے نمائندے، ترجمان اور امین ہوتے ہیں، بالا دست قہرمان نہیں۔ حکم چلانے کی خواہش جبلّی ہے‘ من مانی کرنے کی آرزو۔ تہذیبِ نفس یہ ہے کہ خواہش کو قابو میں رکھا جائے۔ زیارت میں دل و جان سے بابائے قوم کی خدمت کرنے والی نرس نے ان سے یہ کہا تھا : میرا خاندان پنجاب میں ہے، عزیز رشتہ دار سبھی۔ براہ کرم تبادلہ کرا دیجئے۔ قائد اعظم شاد تھے‘ اس پہ مہربان۔ یوں بھی ان کی شخصیت ایک پدرِ مہربان کی تھی۔ تبادلہ اگر کرا دیتے تو قیامت ٹوٹ نہ پڑتی۔ آپ نے مگر انکار کر دیا اور فرمایا : یہ محکمہ صحت کا کام ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ اس نواز شریف کا نہیں، مولانا فضل الرحمن کی خواہش پر‘ عمران خان کی حکومت دھندلانے جو پختونخوا گئے تو فرمایا: یہ پڑی ہے ڈیرہ اسماعیل خاں کی یونیورسٹی، یہ ہے بنّوں کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ۔ مولانا، اس کے سوا بھی کوئی فرمائش ہے تو ارشاد کیجئے۔ ووٹروں کی تلاش میں سندھ براجے تو ایک جلسے میں ارشاد کیا : مانگو جو مانگتے ہو، میری جیبیں نوٹوں سے بھری ہیں۔ 
آصف علی زرداری اور نہ عمران خان، نواز شریف نہ شہباز شریف‘ ملک 22 کروڑ مکینوں کا ہے۔ سیاست دان اگرچہ عوامی اعتماد پہ پورے نہیں اترے‘ اس کے باوجود ملک انہی کو چلانا ہے۔ جدید معاشرہ سیاسی پارٹیوں کا معاشرہ ہے۔ مارشل لاء کا ہر تجربہ ناکام رہا اور آئندہ بھی ناکام رہے گا۔ جمہوریت ہی فرمانِ امروز ہے۔ 
زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔ میڈیا، عدلیہ اور فوج کے بغیر بھی ملک چلایا نہیں جا سکتا۔ بدعنوانی، نالائقی اور قبضہ گیری سے سیاستدانوں نے اپنا کردار محدود کیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کا ادراک کئے بغیر مستقبل کا لائحہ عمل نہیں بن سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved