تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     24-03-2018

رجب المرجب

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک جس دن سے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا،تقدیرِ الٰہی میں اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے،ان میں سے حرمت والے مہینے چار ہیں،(توبہ:36)‘‘۔ملتِ ابراہیمی میں ان چارمہینوں کے احترام میں جنگ وجدل کی ممانعت تھی، اوردین میں تحریف کے باوجود یہ روایت چلی آرہی تھی ۔ قریشِ مکہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور اسی سبب ملتِ ابراہیمی کی پیروی کے دعویدارہونے کی وجہ سے اس حُرمت کے قائل تھے،لیکن انہوں نے دین کو اپنی خواہشات کے تابع کررکھا تھا،لہٰذا جب وہ ان حرمت والے مہینوں میں جنگ کرناچاہتے تومہینوں کی ترتیب میںمصنوعی طریقے سے ردوبدل کرکے ان کو اپنے وقت سے آگے یاپیچھے کردیتے تھے۔کفارِ مکہ کی طرف سے مہینوں کی ترتیب میں اس تبدیلی کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں '' نَسِیٔ‘‘ سے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' مہینہ کو مؤخر کرنا محض کفر میں اضافہ کرنا ہے،اس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتاہے،وہ کسی مہینے کوایک سال حلال قرار دیتے ہیں اوراسی مہینے کو دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کرلیں ،سو جس مہینے کو اللہ نے حرام کیاہے اس کوحلال کرلیں ، (توبہ:37)‘‘۔
ان چار حرمت والے مہینوں کا بیان حدیثِ پاک میں آیا ، رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوَداع کے موقع پرفرمایا:''بے شک زمانہ لوٹ پھر کے اس ترتیب کے مطابق آگیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن سے چلی آرہی ہے ، سال بارہ مہینے کا ہے ، ان میں سے چار حرمت والے ہیں:(اُن میں سے )تین مہینے متواتر ہیں:ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور(چوتھامہینہ) رجبِ مُضَر ہے (یعنی اس کی حرمت قبیلۂ مُضَرکی طرف منسوب )ہے، جوجُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتاہے،(صحیح بخاری:4662)‘‘۔ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں حج کے لیے آمد ورفت رہتی ،جبکہ رجب کے مہینے میں لوگ عمرے کے لیے آتے، اس لیے ان مہینوں میں آپس کی جنگوں کو موقوف کردیتے اور اگر ناگزیر سمجھتے تو مہینوں کی ترتیب میں ردّوبدل کردیتے۔ 
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قریشِ مکہ کی خود ساختہ تقدیم وتاخیر کی وجہ سے مہینوں کی ترتیب بدل چکی تھی ، لیکن 10ہجری میں جب رسول اللہ ﷺنے اپنی حیاتِ مبارَکہ کا پہلا اورآخری'' حجۃ الاسلام‘‘ ادا فرمایا،اسے محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں'' حجۃ الوَداع‘‘ کہا جاتاہے، توقریشِ مکہ کی تقدیم وتاخیر کے باوجود لوٹ پھر کر مہینے اپنی اصل ترتیب کے مطابق آگئے جو ابتدائے آفرینش سے چلی آرہی تھی۔ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے تھے:''اے اللہ! تو ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرمااور (سلامتی کے ساتھ)رمضان کا مہینہ نصیب فرما،(المعجم الاوسط: 3951)‘‘۔رجب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مشہوررِوَایات کے مطابق معراج النبی ﷺ کامُحَیّر العُقول معجزہ اس مہینے میں وقوع پذیر ہوا اور وہ ایک مستقل موضوع ہے ۔ 
ان حُرمت والے مہینوں میں ملّت ابراہیمی کے تسلسل میں شریعتِ مصطفوی ﷺ میں بھی جنگ وجَدَال کی ممانعت تھی،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(اے رسول! )لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں ، آپ کہیے: اِس ماہ میں جنگ کرنابڑا گناہ ہے اور (لوگوں کو) اللہ کی راہ اور مسجدِ حرام سے روکنا اور اللہ سے کفر کرناہے ،(البقرہ:217)‘‘۔ان مہینوں میں راستوں کے پرامن ہونے کی وجہ سے دوردراز سے لوگ بلاخوف وخطر حج اور عمرے کے لئے آتے تھے اور انہیں مارے جانے یا لُٹ جانے کا خوف نہیں ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی نسبت کی اس فضیلت کو سورہ القریش میں بھی بیان فرمایا ہے ،لیکن قریش ان مہینوں کی ترتیب بدل کر ان کی حرمت کو پامال کرتے تھے۔ پس مسلمانوں پر یہ لازم قرار دیاگیا کہ وہ ان مہینوں کی حرمت کو اپنی اصل کے مطابق قائم رکھیں اور جنگ میں پہل کرنے سے اجتناب کریں ۔ لیکن اگر کفار جنگ میں پہل کریں ، تو مسلمان ہاتھ باندھ کر بیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ انہیں اجازت ہوگی کہ اپنا دفاع کریں اور اس صورت میں حرمت کی پامالی کا وبال مسلمانوں پر نہیں آئے گا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور تمام محترم چیزوں کا بدلہ ہے ، سو جو شخص تم پر (ان مہینوں میں)زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اُس نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تقوے والوں کے ساتھ ہے،(البقرہ:194)‘‘۔دوسرے مقام پر فرمایا: ''اور برائی کا بدلہ اُس کی مثل برائی ہے،(الشوریٰ:40)‘‘۔ان دو آیات میں مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ اگر ان پر حرمت والے مہینے یا مقدس مقام پر دشمن ظلم اور تَعَدّی کرے توانہیں تَعَدّی کے جواب میں تَعَدّ ی کا حق حاصل ہے ۔ دراصل ظلم وتَعَدّی کے بدلے کو تعدّی سے تعبیر کرنا اور برائی کے بدلے کو برائی سے تعبیر کرنا یہ ظاہری مشابہت کی وجہ سے ہے ، ورنہ درحقیقت ظلم کا بدلہ عدل ہے ، تعدّی کا بدلہ حرمت کی حدود کی پاسداری ہے اور برائی کا بدلہ اس کے کئے کی جزا ہے۔ 
ہمارے اس خطے میں 22رجب کے ''کونڈوں‘‘کی روایت معروف ہے کہ امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نام پر فاتحہ ہوتی ہے ، جس میں لکڑہارے کی منظوم داستان پڑھی جاتی ہے اور اس فاتحہ کی میٹھی ٹکیاں یا روٹیاں ایک خاص جگہ پر بٹھا کر کھلائی جاتی ہیں اور اس میں استعمال شدہ برتنوں کو ندی وغیرہ کے پانی میں ٹھنڈا کیاجاتاہے۔ ایصالِ ثواب کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اور شریعت کی نظر میں یہ ایک پسندیدہ بات ہے ، لیکن خاص طرز کے کھانے یا خاص جگہ پر کھلانے یا خاص تاریخ پر کھلانے کو لازم سمجھنا، اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے اور یہ شریعت پر زیادتی ہے،بدعت ہے اور جاہلانہ رَسم ہے، بدعت کا مطلب یہ ہے کہ اس تعیُّن کولازم یا باعثِ اجر سمجھ لیا جائے ۔ 
22رجب کو امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نہ تاریخ پیدائش ہے اور نہ تاریخ وصال ، آپ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں ایک روایت 17،ربیع الاول80ہجری ہے ، ایک روایت رجب کی بھی ہے ، لیکن تاریخ مذکور نہیں ہے ، اسی طرح وصال کے بارے میں بھی دو قول ہیں :زیادہ معروف ماہِ شوال 148ہجری اور ایک قول رجب کا بھی ہے، (جِلا ء العیون ، ملاباقر مجلسی ، جلد:2، ص:693)۔
جب میں میٹھی روٹیاں پکا کر سورۂ ملک پڑھی جاتی ہے اور پھر انہیں تقسیم کیا جاتاہے ، ہمیں اس کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملا، لیکن فی نفسہٖ ایصالِ ثواب مشروع ہے ، جائز ہے اور کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے ، لیکن خاص طرح کے تعینات کو لازم سمجھنا درست نہیں ہے۔ 
علامہ مفتی محمد خلیل خان برکاتی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:''ماہِ رجب میں امام جعفر صادق کو ایصالِ ثواب کے لئے کھیر پوری پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں، یہ جائز ہے۔ اس میں ایک بات بڑی غلط رواج پاگئی ہے کہ جہاں کونڈے بھرے جاتے ہیں، وہیں کھائے جاتے ہیں ،یہ ایک غلط حرکت ہے اور یہ غیر شرعی اور جاہلانہ رسم ہے اورجوایک کتاب''عجیب داستان‘‘کے نام پڑھی جاتی ہے ،اس کی کوئی حقیقت نہیں ،یہ نہ پڑھی اور نہ ہی سنی جائے، فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب کریں۔ اللہ کے نیک بندوں کی کرامات برحق ہیں،(سنی بہشتی زیور، حصہ سوم،ص:318)‘‘۔
مفتی وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے کونڈوں کی شرعی حیثیت کے حوالے سے سوال ہوا، آپ نے جواب میں لکھا:''اہلسنت کے نزدیک جیسے ہر فاتحہ جائز ہے،اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ بھی جائز ہے، لکڑہارے کی کہانی من گھڑت ہے۔کھانے کی ہرچیز کے متعلق ادب سکھایا گیا ہے۔ حدیث میں فرمایا:''دستر خوان پر جو گر جائے اُسے اٹھا کر کھا لو‘‘۔ فاتحہ کے کھانے پر قرآن پڑھا جاتا ہے، اس لئے مسلمان اس کا زیادہ ادب کرتے ہیں، اسی وجہ سے لوگوں نے یہ شرط لگا لی کہ وہیں بیٹھ کر کھا لیں ،باہر نہ لے جائیں اس شرط کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، وہاں بھی کھا سکتے ہیں اور باہر بھی لے جاسکتے ہیں،(وقارا لفتاویٰ، جلد: اوّل،ص:202،بزم وقارالدین ،کراچی)‘‘۔
کچھ لوگ اسلامی تاریخ کے حوالے سے کسی عظمت والے دن نفلی روزہ رکھنے کو بدعت کہتے ہیں ، یہ کہنا بھی شریعت پر زیادتی ہے ۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ تعیین کو لازم سمجھنا بدعت ہے اورتعیینِ شرعی کے بغیر حصولِ برکت کے لیے کسی بھی دن اجر وثواب کی نیت سے نفلی روزہ رکھنے، نوافل پڑھنے ، تلاوت اوردُرُود واَذکار پڑھنے اور صدقہ وخیرات کرنے کو بدعت سمجھنا ، یہ بھی درست نہیں ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:'' اور جن چیزوں کوتمہاری زبانیں جھوٹ قرار دیتی ہیں ،ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ، تاکہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے ،(النحل:116)‘‘۔
الغرض تعیینِ شرعی سے مراد یہ ہے کہ تعیُّن کے ساتھ کسی خاص وقت یا خاص دن یا خاص مقام پر کوئی نیک کام کرنا یا ایصالِ ثواب اور پھر اس پر کسی خاص اجر کی توقع رکھنا اوریہ کہ اگر اس سے عدول کرلیا گیا تو وہ اجر نہیں ملے گا یااس اجر میں کمی واقع ہوگی ،یہ درست نہیں ہے اور یہی شعار بدعت ہے، کیونکہ ایسی تعیین شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اختیار ہے ،جیسے آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ کرتے ہوئے حج کے شعائر تعیین کے ساتھ بیان فرمائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved