تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     20-03-2013

ہیجڑوں کا ’’میمو گیٹ سکینڈل‘‘

میرا معمول ہے کہ صبح آٹھ بج اٹھ جاتا ہوں جبکہ خاتونِ خانہ9 بجے کے بعدآنکھ کھول پاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ میںکبھی دو ڈھائی بجے سے پہلے نہیں سوتا۔ بیگم صاحبہ چونکہ رَت جگا کرنے میں میری سنگت کر رہی ہوتی ہیں اس لیے سات آٹھ گھنٹے سونا اپنا گھریلو استحقاق سمجھتی ہیں۔ ان کے برعکس میں پانچ چھ گھنٹے سونے کے بعد اپنے کام کاج کے لیے دوبارہ کمربستہ ہو جاتا ہوں۔ گزشتہ روز صبح اخبارات کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا کہ یکے بعد دیگرے ملک کے کئی ایک نامور ہیجڑوں کی ٹیلی فون کالیں موصول ہوئیں۔ فون کرنے والوں میں بوبی، ریما جان، عاشی بٹ، ٹھکرائن اور نصیبوں والی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاشم ہیجڑے کے ایشو پر بطور برادری ان کی توہین کی گئی ہے‘ خواجہ سرا وہ نمبر ون برادری ہے جو سب سے پہلے پہنچ کر عوام کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے‘ ہاشم ہیجڑے کی طرف سے اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں دھمال ڈالنے کے واقعہ پر جس طرح سے انہیں اچھوت قرار دیا گیا وہ قابل مذمت ہے۔ سویرے سویرے میرا ہیجڑوں کے قائدین سے اچھا خاصا ٹاک شو ہو گیا۔ وہ جوشیلے انداز میں تالیاں مارتے ہوئے اپنے دلائل دے رہے تھے اور میں دبے لفظوں میں اُن کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ ہیجڑوں کے سُر اونچے تھے اور میرے کافی نیچے۔ وجہ یہ تھی کہ میں تھوڑی دور سوئی ہوئی اپنی اہلیہ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میری سب احتیاطی تدبیریں الٹی ہو گئیں‘ میرے مسلسل بولنے کی وجہ سے وہ بیزار ہو کر اُٹھ چکی تھیں۔ بیگم نے سویرے سویرے ڈرائنگ روم کم بیڈ روم میں آئے صحافت کے اس سونامی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا: ’’کیا اس وقت آپ ملک کا نگران وزیر اعظم ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘ نثار حسین بھگ مرحوم نامور طبلہ نواز اور موسیقار طافو کے بڑے بھائی تھے۔ آپ کی کہی باتیں فنکاروں کی دنیا میں اقوال زریں کی سی اہمیت رکھتی ہیں۔ بھگ صاحب اپنے بھائیوں طافو برادران کے ساتھ بازار حسن ٹبی تھانہ کے پہلو میں واقع اپنی حویلی میں رہا کرتے تھے۔ بازار حسن کبھی طوائفوں کے ساتھ ساتھ ہیجڑوں کا بھی جنکشن ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ ہوا کہ بھگ صاحب کے بڑے بیٹے الطاف تابو کا ایک ہیجڑے سے جھگڑا ہو گیا۔ کووں کی طرح ہیجڑوں کا ایکا بھی مشہور ہے۔ ہیجڑے سیاسی اتحاد یا میثاق نہیںکرتے بلکہ اپنی ساتھی کی جان‘ مال اور عزت کی حفاظت کرتے ہوئے اکثر جارحانہ اقدامات پر بھی اتر آتے ہیں۔ تابو کی کہانی میں بھی اسے ہیجڑے کے ساتھ لڑنا مہنگا پڑا۔ ایک ہیجڑے سے اُلجھنے کی پاداش میں تابو پورے گروہ کا ٹارگٹ بن گیا۔ وہ لہولہان جب اپنی حویلی میں داخل ہوا تو اس کے چچا اور تایا زاد بھائی ہیجڑوں کو سبق سیکھانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تب بھگ صاحب نے اپنے بیٹے تابو اور اپنے بھتیجوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: بیٹا! ہیجڑوں سے کبھی نہ لڑنا‘ وجہ یہ ہے کہ اُن کی گالیاں عورتوں والی اور گھسن (گھونسے) مردوں والے ہوتے ہیں۔ صحافت کے بعض ’’تفتیشی افسروں‘‘ نے ہیجڑوں کے خلاف قلم توڑ لکھا ہے۔ انہوں نے مقدمہ بنایا ہے کہ سیاسی قائدین کی طرف سے ہیجڑوں کے رقص دیکھنے کا عمل انتہائی غیرمناسب ہے‘ وہ قلمی خود کش دھمال کو رقص قرار دے رہے ہیں حالانکہ دھمال رقص کے دائرہ میںآنے کے بجائے عقیدت‘ عشق اور محبت کے والہانہ اظہار کا نام ہے۔ دھمال صوفیائے کرام سے ان کے عقیدت مندوں کی برسہا برس سے قائم کی روایت کا نام ہے۔ آٹھ سو سال سے زائد عرصہ سے حضرت لعل شہباز ؒ کے مزار پر ان کے عقیدت مند مرد، عورتیں اور ہیجڑے دھمال ڈال کر اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہیجڑے کی طرف سے دھمال کو رقص کا نام دے کر کلچر اور ثقافت کے دائرہ سے خارج کرنے کا اختیار کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے کلچر اور ثقافت کی تشریح انفرادی اور اجتماعی سطح پر کی جانے لگی ہے۔ کلچر اور ثقافت ایک ’’اَن لمیٹڈ‘‘ یعنی لامحدود شے ہے جو ماضی سے حال تک اور حال سے مستقبل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔ ہیجڑوں اور ان کی دھمال کو غیرثقافتی عمل قرار دینے والے کیا اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیںکہ ہیجڑہ بننے کا عمل صرف نفسیاتی خواہشات کے اظہار کا نام نہیں یہ جینیاتی، نفیساتی، سماجی اور معاشی عوامل کا مظہر بھی ہے۔ ہیجڑوں کا تذکرہ قدیم یونانی تہذیب میں ملتا ہے۔ برصغیر میں ہیجڑوں کو مغل درباروں حتیٰ کہ زنان خانوں تک رسائی حاصل تھی۔ مردوں اور عورتوں کی طرح ہیجڑے بھی انسانی تہذیب اور معاشرے کے افراد ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ہیجڑے نے اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کا ایک بھائی جج، دوسرا ڈاکٹر اور تیسرا صحافی ہے‘ اس کی بہن گائناکالوجسٹ ہے لیکن لڑکپن میں وہ اپنے اندر کے ہیجڑے کو گھر والوں اور اہل علاقہ سے چھپا نہ پایا جس کے باعث اسے گھربار چھوڑنا پڑا۔ اس نے بتایا کہ اسلام آباد میں دھمال ڈالنے والا ہیجڑا اس کی بیٹی بنا ہوا ہے۔ ہاشم کا تعلق ملتان سے ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں گرو شفقت شاہ چنیوٹ والی کا چیلا بنا تھا۔ لاہوری ہیجڑے نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ وہ لگ بھگ چالیس سال پہلے جگت گرو الحاج غلام رسول کا چیلاہوا تھا۔ گرو غلام رسول کا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے تھا اور اس کی چوکڑی سوا لاکھ چیلوں پر مشتمل تھی۔ گرو غلام رسول کا اصول تھا کہ وہ صرف کشمیری برادری میں مانگتا تھا اور انہی کی شادی بیاہ اور لڑکوں کی پیدائش پر جایا کرتا تھا۔ لاہور ی ہیجڑے نے بتایاکہ سابق چیف جسٹس لاہور خواجہ شریف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، منیر ڈار، توقیر ڈار، حاجی مقصود بٹ ، میاں یوسف صلاح الدین، سہیل ضیا بٹ، میاں شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف کی پیدائش پر اس کے گرو الحاج غلام رسول نے ہی لوری سنائی تھی۔ خواجہ تعریف گلشن المعروف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل بٹ المعروف گوگی بٹ کو لوری بھی حاجی گرو نے ہی دی تھی۔ الحاج غلام رسول کے علاوہ ہیجڑوں کے جگت گروئوں میں حاجی اللہ دتہ، حاجی مان، اماں کنواری، اماں منوں اور اماں چٹکی سمیت دیگر شامل ہیں۔ اماں چٹکی پورے پاکستان کے ہیجڑوں کے تنازعات کے فیصلے سناتی ہے اور سب ہیجڑے ان فیصلوں کو دل و جان سے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ لاہوری ہیجڑے نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں ہیجڑوں کی تعداد 21 لاکھ سے زائد ہے۔ اس نے بتایا کہ سب ہیجڑے ووٹ دینے اور سیاسی جماعت جوائن کرنے میں آزاد ہیں لیکن اگر ان کی برادری میں شامل کسی فرد پر مشکل بن جائے تو وہ ایک ہو جاتے ہیں۔ ہاشم ہیجڑا برادری کا ایک معزز رکن ہے اس کی بے عزتی کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی پوری برادری کی توہین کرے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی برادری میں پڑھی لکھی مورتیں بھی ہیں۔ مورتوںسے مراد بھی ہیجڑے ہی ہوتا ہے۔ ہیجڑوں کو خواجہ سرا، کوتی، زنانہ، بگا، کھدڑا اور آغا کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی برادری کے پڑھے لکھے افراد نے گزشتہ سالوں میں پوری دنیا کے ہیجڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ لاتعداد ہیجڑوں کے اپنے فیس بک اکاوئنٹ ہیں جن پر وہ اپنی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے وہ بھارتی ہیجڑوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ لاہوری ہیجڑے نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی ہیجڑے دشمن نہیں ہمارے دوست، سہلیاں اور بہنیں ہیں‘ ہم نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ لاہور ی ہیجڑے نے اپنے مخصوص انداز میں تالی بجاتے ہوئے کہا: صحافی بابو ہم ہیجڑے ہیں کوئی جمہوری حکمران نہیں جو پانچ سال تک اپوزیشن والوں اور میڈیا سے ٹھاپیں کھاتے رہے ہیں۔ ہیجڑے نے فیصلہ کن انداز میں تالی بجاتے ہوئے کہا کہ اگر اماں چٹکی نے ہاشم کے ’’دھمال میموکیس‘‘ میں ہیجڑوں کو کال دے دی تو اس ملک میں سونامی آ جائے گا۔ ہیجڑے کی وارننگ پر مجھے بھگ صاحب یاد آ گئے جن کا فرمان ہے کہ… ہیجڑوں سے لڑنا نہیںچاہیے کیونکہ ان کی گالیاں عورتوں اور گھسُن مردوں والے ہوتے ہیں۔ صحافت کے تفتیشی نوٹ فرما لیں!!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved