1970ء کے الیکشن کے دھوم دھڑکے میں‘ صرف سیاست دانوں اور کارکنوں کی تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران‘ دیگر سیاست دان اپنی روایت کے مطابق بڑی سنجیدگی اور مدبرانہ چہروں کے ساتھ تقریریں کیا کرتے۔ اگر کوئی مولوی صاحب مائیک پر ہوتے اور دور کہیں سے گانے کی آواز سنائی دیتی تو ''مجاہدینِ اسلام‘‘ ڈنڈے لہراتے ہوئے گلیوں میں پھیل جاتے۔ جس گھر سے ریڈیو کی آواز سنائی دیتی‘ اس کے دروازے پر ڈنڈوں سے طبلہ بجنے لگتا‘ جو کسی تال پر نہیں ہوتا تھا۔ بعض مولانا حضرات تو ایسے سخت گیر ہوتے جو مائیک ہی سے دھاڑنے لگتے اور جس گھر سے میوزک کی آواز سنائی دیتی‘ وہاں کے رہائشی گھر بیٹھے بٹھائے ''جہنم کا ایندھن‘‘ بن جاتے۔ بچوں کا پڑھنا مشکل ہو گیا تھا خصوصاً امتحانات کے دنوں میں‘ یا پھر رمضان المبارک کی راتوں میں‘ مولوی حضرات کا آپس میں مقابلہ ہوتا کہ کون ایک رات میں پانچ سیپارے پورے کرتا ہے اور کون دو‘چار؟ بعد میں تو اس مقابلے میں جیت ہار کا سوال ہی اٹھ گیا۔ اب بیشترمساجد میں یوں ہوتا ہے کہ ہرشب قرآن پاک مکمل سنایا جاتا ہے۔
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسے جمانے کے لئے سیاسی ترانوں کا استعمال شروع کیا۔ پہلے پہل وہ جلسہ جمانے کے لئے اپنی جماعت کے پروگرام کو موسیقی کے ساتھ ''بجایا‘‘ کرتے۔ ماہر موسیقاروں کا انتخاب کیا جاتا جو سیاسی ترانوں کی دھنیں تیار کرتے۔ سیاسی ترانے گانے والے بڑے بڑے مغنی اور سر تال کے ماہر سنگرز‘ اپنی سریلی اور مدھر آوازوں میں جلسے کے لئے حاضرین اکٹھے کیا کرتے۔ جب کوئی بڑا لیڈر تقریر کرتا‘ تو اسے سانس لینے کا وقفہ مہیا کیا جاتا۔ درمیان میں سیاسی گانے شروع ہو جاتے۔ مغنیوں‘ شاعروں‘ سیاست دانوں اور آرکسٹرا کے میل جول سے‘ جو سریلا ماحول پیدا ہوتا‘ دوسرے تمام
سیاست دان‘ اس روایت کو غلط قرار دیتے۔ منہ بناتے‘ حقارت سے تبصرے کرتے اور اشاروں سے ظاہر کرتے کہ یہ باجے بجانے والے سیاست دان‘ کہاں سے آ گئے۔ عمران خان کا مذاق اڑایا جاتا۔ لیکن نوجوانوں کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جوق در جوق خان صاحب کے جلسوں کی طرف بھاگتے نظر آتے۔ عمران نے سیاسی جلسوں کو جدید دور کی ایک سرگرمی میں بدل کے رکھ دیا۔ روایتی جلسوں میں تقریریں کرنے والے‘ عمران کے جلسوں کا رش دیکھ کر‘ اندر ہی اندر سلگنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے جلسوں کے روایتی طور طریقوں میں رہ کر‘ عمران خان کا مقابلہ کیسے کریں؟ آخر مسلم لیگ (ن) نے حوصلہ کیا۔ اپنی پارٹی اور لیڈر کے حق میں گیت لکھوائے۔ ان کی موسیقی تیار ہوئی۔ اب حالت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکھ رکھائو کے عادی لیڈر بھی‘ اپنی تقریروں کو موسیقی سے آراستہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
سیاسی جلسوں میں شاعر حبیب جالب سریلی آواز میں شعر سنایا کرتے۔ ایک طرف جالب کی دلوں کو موہ لینے والی شاعری‘ اس سے اوپر شاعر کی پُرسوز آواز اور موسیقی میں ان کی نغمگی‘ حاضرین کے بڑے بڑے ہجوم کو مسحور کر دیتی۔ اس تہذیب و تمدن میں ڈوبے ہوئے صالح حضرات‘ جالب کی موسیقیت پر تیوریاں چڑھانے لگتے۔ کچھ زیادہ ثقہ قسم کے لوگ تو جالب کا نام سن کر بھنویں چڑھا لیتے اور موسیقی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کا ذکر‘ ناپسندیدگی کے انداز میں کرتے۔ سارے ثقہ سیاست دان اور مذہبی جماعتوں کے مقررین‘ بہت ہی زیادہ
ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے۔ سب سے پہلے عمران خان کے سروں بھرے جلسوں میں ہجوم بڑھنے لگے۔ عمران کی دیکھا دیکھی‘ نواز شریف نے موسیقی کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد دوسری جماعتوں کے مقررین بھی حسب توفیق‘ موسیقی کے بل بوتے پر‘ حاضرین کو جمع کیا کرتے لیکن ان نقالوں کی موسیقی‘ عوام الناس کے ذوق پر پوری نہیں اترتی تھی۔ بڑے سیاسی جلسوں میں سریلے اور رسیلے ترانے سنانے والے‘ اپنی فنکاری تو خوب دکھاتے لیکن حبیب جالب کی کمی کو عمران خان نے ایک نئے انداز میں پورا کیا۔ گزشتہ شب حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے صالحین کے انداز میں‘ تقریروں کے درمیان‘ متبرک موسیقی میں سیاسی گیت سنے۔ میرے سامنے جماعت اسلامی کے امیر‘ مولانا سراج الحق مائیک پر کھڑے تھے اور انہیں وقفہ دلانے کے لئے ریکارڈ کیا گیا ترانہ لائوڈ سپیکر پر بجایا جا رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا کہ مولانا سرا ج الحق کے ہاتھوں‘ پیروں اور سر کی حرکات میں‘ موسیقی سے کوئی مناسبت ہے یا صالحین نے‘ اپنے سیاسی ترانوں کے لئے کوئی نیا ہی طریقہ ایجاد کیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امیر جماعت اسلامی کو‘ میں نے صالحین کے جلسے میں‘ عوامی موسیقی کے ہار مونیم‘ طبلے‘ بانسریوں اور طرح طرح کی موسیقی کے ساتھ دیکھا۔ ہو سکتا ہے اب صالحین بھی اپنے جلسوں میں بیٹھ کر ''وجد‘‘ میں آنے لگیں۔ عوامی موسیقی صالحین کی طرف دھیرے دھیرے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی رکاوٹ حبیب جالب نے دور کی۔ موسیقی کا ایک دوسرا رنگ نعت خوانوں نے برقرار رکھا۔ وہ اپنے انداز کے ساتھ شاندار ترنم‘ پاکیزہ دھنوں اور روح افزا سازوں کے ساتھ کلام سنانے لگے۔ غرض یہ کہ محدود محفلیں اب بڑے بڑے میدانوں کے ہجوموں تک جا پہنچیں۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انتہائی عمدہ ترنم اور سروں میں نعتیں سنانے والے مقبول نعت خوان‘ آج بھی شاعروں سے زیادہ معاوضے لیتے ہیں۔