تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     25-03-2018

سوال اپنی جگہ ہے

گزشتہ کالم کا اختتام ان الفاظ پر ہوا تھا: ''جگہ جگہ نوجوان سوال کرتے ہیں، ہمارا ہمسایہ اگر جمہوریت کے راستے پر گامزن رہ سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔ ہماری بود و باش، انداز و اطوار اتنے بھی مختلف نہیں کہ ہم دو مختلف سیاروں کی مخلوق سمجھے جائیں۔ پھر ہم دستور شکنی کے مرض میں مبتلا کیوں ہیں؟ اولاً تو دستور بنا نہیں پائے‘ بنایا تو چلا نہیں پائے۔ نیا دستور بنانے کے شوق میں آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن آج بھی اس کی اہمیت کا ادراک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آخر کیوں؟ پیچھے کی طرف ہمارا سفر کب رکے گا؟ اس سوال کا جواب ہر اس شخص کے ذمے ہے، جو اپنے کام کے علاوہ ہر کام کرنے پر ہر وقت تیار رہتا ہے‘‘۔ سابق سیکرٹری خارجہ محترم شمشاد احمد خان نے کمال مہربانی سے اس کا نوٹس لیتے ہوئے (اپنے کالم میں) اس پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ وہ ایک بالغ نظر دانشور میں، ان کی پُرمغز گفتگو پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن انہوں نے جہاں تان توڑی ہے، فی الوقت اسی پر بات کر لی جائے تو نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ لکھتے ہیں: '' ہم مزید خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ ضروری ہے کہ فوری طور پر موجودہ فرسودہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں کر کے ملکی سیاست کے پرانے غاصبوں، ملک کے دقیانوسی سماجی و سیاسی ڈھانچوں اور کرپٹ اشرافیہ کے زیر قیادت جاری ''سٹیٹس کو‘‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ اب قوم اس نظام کی خرابیاں جلد از جلد دور کرنے کے لئے امید بھری نظروں سے اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے‘‘... خان صاحب نے جن خواہشات کا اظہار کیا اور جن تبدیلیوں کی وہ آرزو رکھتے ہیں، یہ تنہا ان کے دل کی آواز نہیں ، کسی بھی پاکستانی کے دل کو کھولیں تو اس میں یہی کچھ ملے گا۔ اسی آواز پر لبیک کا دعویٰ کر کے کئی بار ''سٹیٹس کو‘‘ توڑا جا چکا ہے۔ دستور کی بساط لپیٹی جا چکی ہے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہر مارشل لاء نے اپنے آغاز پر ایسے ہی دعوے اور وعدے کئے تھے، گویا کوئی ایک بھی کوئی ایسا نتیجہ پیدا نہیں کر سکا جو پائیدار ہو۔ جس دردِ دل کا علاج کرنے کے لئے کئی بار سرجری کی گئی، وہ درد ہنوز وہیں کا وہیں ہے، بلکہ سوا ہو گیا ہے۔ شمشاد احمد خان جیسا مدبر دوبارہ اس ''قماش‘‘ کا نسخہ تو تجویز کر نہیں کر سکتا تھا، اس لئے انہوں نے کمال ہوشیاری بلکہ چابک دستی سے عدلیہ کو آگے کر دیا کہ جو کام کئی بار استعمال کی جانے والی فوجی طاقت نہیں کر پائی، اس کے لئے اب عدلیہ کا کاندھا حاصل کر لیا جائے اور ہمارے عالی دماغ چیف جسٹس ثاقب نثار سے توقعات لگا لی جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے چیف جسٹس ایک درد مند دل رکھتے ہیں، پاکستانیوں کو صحت اور تعلیم سے متعلق بنیادی حقوق دلوانے کے لئے سرگرم ہیں، لیکن کیا وہ ''دقیانوسی سماجی و سیاسی ڈھانچوں اور کرپٹ اشرافیہ کے زیر قیادت 'سٹیٹس کو‘ سے نجات‘‘ دلوا پائیں گے، اس کا دعویٰ نہ ان کو ہونا چاہیے اور نہ ہی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک (یا کئی) قاضی مل کر وہ کام کر گزرے ہوں جس کے لئے باقاعدہ دستور بنائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں قائم کی جاتی ہیں، جو اپنے منشور بناتی، عوام کے سامنے پیش کرتیں اور اگر ان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں تو حکومت بنا کر ان پر عمل کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی جو بنیادی تبدیلی آئی ہے، سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ آزادی کی تحریک کانگرس اور مسلم لیگ نام کی سیاسی جماعتوں نے چلائی کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے تحریک آزادی کو آگے بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملی۔ غلام ہندوستان میں عدلیہ کو رٹ جاری کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ سول اور فوجداری مقدمات کی سماعت کرتی اور (اعلیٰ سطح پر) ان کی اپیلیں سنتی تھی۔ رٹ جاری کرنے کا مزہ تو سیاسی جماعتوں کے زیر قیادت ملنے والی آزادی ہی کے نتیجے میں ہاتھ آیا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو تو یہ ''شرف‘‘ بھی حاصل ہوا کہ اس نے مجلس دستور ساز کی طرف سے عطا کردہ رٹ جورس ڈکش کو آگ کا گولہ سمجھ کر (موثر بہ ماضی) ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا۔ اس منطق کے تحت کہ عوام کے نمائندہ ادارے کا کوئی فیصلہ اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جب تک ملکہ برطانیہ کے رسمی فرمان کے ذریعے مقرر کئے جانے والا گورنر جنرل اس پر توثیقی دستخط نہ کرے۔ اس طرح عوام کے حق حاکمیت کو ایک شاہی نمائندے کے قدموں میں قربان کر دیا۔ اس کا نتیجہ آج تک ''صدقہ جاریہ‘‘ کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ برادرِ محترم نے جو کام عدلیہ کے سپرد کرنے کا عندیہ دیا ہے، خود جناب چیف جسٹس اس کے لئے کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں۔ایک کالم نگار سے ملاقات میں انہوں نے بڑی دل سوزی سے فرمایا: کاش، اللہ تعالیٰ اس ملک کو حضرت عمر فاروق ؓ جیسا کوئی حکمران دے دے۔ وہ اپنے کندھوں کا سارا بوجھ اتار کر اقتدار میں آئے۔ زمین پر بیٹھ جائے اور ستر برسوں سے ترسے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھام لے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ مجھے ایسے فیصلوں کی توفیق دے دے، جن کے نتیجے میں کوئی نیک، ایماندار اور کمپی ٹینٹ شخص سامنے آ جائے، یہ ملک واقعی ملک بن جائے‘‘... اس دعا (آرزو) پر آمین کہنے کے بعد اگر یہ عرض کیا جائے تو نامناسب نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ افراد اپنی مرضی سے پیدا کرتا ہے، وہ اپنی حکمت کے تابع جب اور جہاں جس کو چاہے پیدا فرما دے، جو کام ہم میں سے کسی کے بس میں بھی نہیں، اس کی دعا کے ساتھ ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے کام پر توجہ مرکوز کر دینی چاہیے۔ روزِ محشر ہر شخص سے اس کے دائرہ اختیار ہی کے بارے میں سوال ہو گا، کسی کاشتکار سے صنعتی ترقی میں کوتاہی برتنے کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اور کسی ڈاکٹر سے کسی عمارت کی ناپختگی کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔ ہر مضمون کے پرچے الگ الگ ہوں گے۔ اس لئے جناب چیف جسٹس اگر سارا زور نظام عدل کی اصلاح پر لگا دیں، ہر سطح پر ظالم کو قانون کی لگام ملنے لگے تو ان شا اللہ ہم آگے بڑھ سکیں گے۔
جناب چیف جسٹس کا نام بھی سب سے اوپر ہو گا، انصاف کو ان کی (یا ان جیسی) عدالت میں سمٹ نہیں جانا چاہیے۔ ایسا ہو گا تو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد منظر بدل جائے گا۔ امام مہدی کا ظہور جب ہو گا، دیکھا جائے گا۔ میرا سوال اپنی جگہ، ہنوز جواب طلب ہے‘ اسے مزید واضح کر دیتے ہیں۔ ہندوستان کیا‘ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں لوگ اپنا اپنا کام کیوں کر رہے ہیں؟ وہ دوسروں کا کام کیوں نہیں سنبھالتے؟
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

 

خان صاحب نے جن خواہشات کا اظہار کیا اور جن تبدیلیوں کی وہ آرزو رکھتے ہیں، یہ تنہا ان کے دل کی آواز نہیں ، کسی بھی پاکستانی کے دل کو کھولیں تو اس میں یہی کچھ ملے گا۔ اسی آواز پر لبیک کا دعویٰ کر کے کئی بار ''سٹیٹس کو‘‘ توڑا جا چکا ہے۔ دستور کی بساط لپیٹی جا چکی ہے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہر مارشل لاء نے اپنے آغاز پر ایسے ہی دعوے اور وعدے کئے تھے، گویا کوئی ایک بھی کوئی ایسا نتیجہ پیدا نہیں کر سکا جو پائیدار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved