انکشاف یہ ہوا کہ اللہ بہت مہربان ہے۔ اس کی رحمت کے طفیل‘ اس کے کچھ بندے بھی۔ نہیں معلوم وہ سویر کب طلوع ہو گی‘ صدیوں سے جس کا انتظار ہے۔ لیکن اس روز اس کی ایک جھلک ہم نے دیکھ لی‘ جنتِ ارضی کی جھلک۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ایک پسماندہ گائوں کا گھر اور اتنا اجلا۔ ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا‘ سفیدی سے چمکتے ہوئے۔ کسی آنگن میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نہ تھا۔ صاف ستھری گلیاں اور مکینوں کے پرسکون چہرے۔ پنجاب کے دیہات کی پہچان جوہڑ‘ کوڑے سے اٹے گلیارے اور میلے کچیلے بچے ہوتے ہیں۔ سہمی ہوئی خواتین اور پژمردہ چہرے۔ ان میں سے ایک چیز بھی یہاں نہیں تھی۔
کہانی کا آغاز ساڑھے تین برس پہلے یکم ستمبر 2014ء کو ہوا۔ ایک اخباری کالم میں اس کی تصویر کشی ممکن نہیں۔ شاید ایک تر دماغ ہدایت کار‘ ان مناظر کے اجالے‘ ترنگ اور کیف کو بیان کر سکے۔ ایک دوسرا ہی عالم تھا‘ کبھی جس کا تصور تک نہ کیا تھا۔
ٹھہرے ہوئے لہجے میں اس لمبے تڑنگے صحت مند آدمی نے بعدازاں بتایا: میرا خیال ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اعتبار سے‘ یہ دنیا کا بدترین علاقہ تھا۔ کتنی ہی دیہاتی عورتیں پانچویں یا چھٹے بچے کو جنم دیتے‘ دنیا سے سدھار جاتی ہیں۔ غربت‘ نحوست اور مایوسی نے صدیوں سے اس دیار میں پنجے گاڑ رکھے تھے۔
''مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس موضوع پر بات نہ کروں‘‘ اس نے کہا ''یہ ایک مذہبی جہت رکھتا ہے‘‘ مسجد کے اجتماع میں مگر اس نے جسارت سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ صاف صاف اس نے کہا: ''جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔ خدا کے لیے اتنے ہی بچے پیدا کرو‘ خواتین کی صحت‘ جتنی کی متحمل ہے‘‘۔
''ہم نے انہیں کوئی خواب نہ دکھایا۔ کسی نوازش یا عنایت کا وعدہ نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ خود وہ ایک خواب دیکھیں‘ ان کے راستے میں پڑا ہر کانٹا چن دیا جائے گا۔ انہیں خود جدوجہد کرنا ہو گی اور اللہ کبھی کسی کی جدوجہد رائیگاں نہیں کرتا‘‘۔
ہمیشہ سے لوگ وہی روایتی فصلیں کاشت کرتے آئے تھے‘ گیہوں اور دھان۔ پیداوار المناک حد تک کم تھی۔ اڑھائی سے ساڑھے تین ایکڑ تک‘ زرعی اراضی کے چھوٹے چھوٹے قطعات۔ ناخواندگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی گرد آلود زندگی۔ کاشت کا موسم آتا تو اہلِ دیہہ بیج‘ کھاد اور کرم کش ادویات کے لیے آڑھتی کا رخ کرتے۔ قیمت کا تعین ظاہر ہے کہ فروخت کنندہ کے ہاتھ میں تھا۔ شرح سود دس فیصد ماہانہ۔ فصل برداشت ہو چکتی تو آڑھتی کے دروازے پر لا کر ڈال دی جاتی۔ اب وہ جانے اور اس کا کام۔
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو!
کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں‘ ابھر نہیں سکتے
ناقابلِ یقین یہ معجزہ کس طرح رونما ہوا؟ اللہ کے بندوں کو خیرات اور صدقات کے حوالے کرنے کی بجائے‘ قرض حسنہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بیج اور کھاد کے لیے‘ جس کو جتنا روپیہ درکار ہو‘ ذاتی ضمانت پر لے لے۔ قرض انہیں درکار ہی کتنا تھا۔ کتنا بیج‘ اڑھائی تین ایکڑ میں ڈالا جا سکتا ہے‘ کتنی کھاد بکھیری جا سکتی ہے اور کرم کش دوا کا چھڑکائو کتنی بار کیا جا سکتا ہے؟ یہی تیس‘ چالیس‘ پچاس ہزار روپے۔ پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ دنیا فائونڈیشن‘ جی ہاں‘ روزنامہ دنیا اور دنیا ٹی وی چلانے والے ادارے نے رقم فراہم کرنے کی ذمہ داری لی اور پوری طرح نبھا دی۔
صاف ستھرے لباسوں میں ملبوس‘ وہ دیہی مسجد کے ہال میں جمع تھے۔ ایک آدمی‘ ان میں سے اٹھا اور ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں اس نے حکایت کا آغاز کیا: صدیوں سے چلا آتا‘ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کھیت ناہموار تھے۔ کہیں پانی کھڑا رہتا اور کہیں پہنچ نہ پاتا۔ انہیں ہموار کیا گیا اور Laser Leveling کے ذریعے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ گویا گھر کا صحن ہو۔ پانی کا استعمال کم اور پیداوار بڑھتی گئی‘حتیٰ کہ دوگنا سے زیادہ ہو گئی۔
پانچ صدیاں اُدھر‘ دلّی سے بہت دور سہسرام کی جاگیر‘ باپ نے اپنے جواں سال فرزند کو سونپ دی۔ ایسے ہی بدحال کسان‘ ایسی ہی ویرانی۔ کھیتوں کھلیانوں کا اس نے جائزہ لیا اور کہا: مقررہ پیداوار سے جتنی زیادہ ہو‘ نصف کی بجائے‘ دوتہائی حصہ کسانوں کا حق ہو گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ان کی جون بدل گئی۔ فرغانہ سے آنے والے ترکوں کو اناج سے زیادہ باغات سے دلچسپی تھی مگر یہ ایک پشتون نوجوان تھا۔ عزم و ہمت اور سلیقہ مندی سے سرشار۔ اس کا نام شیر شاہ سوری تھا اور برصغیر کی تاریخ کبھی اسے بھلا نہ سکے گی۔ وہی جو ظہیرالدین بابر کے دستر خوان سے اٹھا اور چند سال میں مغل اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ برصغیر کو جس نے بندوبست اراضی کا تحفہ دیا۔ ڈاک کا نظام تشکیل دیا۔ پشاور سے کلکتہ تک جی ٹی روڈ بنائی۔ بنگال سے اٹک تک پانچ برس کے مختصر سے اقتدار میں درجنوں قلعے تعمیر کئے‘ جو آج بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ گردش لیل و نہار‘ جن کی دیواروں سے سر ٹکراتی ہے۔
قصور کے اس موضع میں 3162 گھروں پر مشتمل‘ سات دیہات ہردومحمدکے‘ لونے کی‘ ڈھلم‘ ڈھلا‘ بادے والا‘ کھوہ‘ مرالی اور کھودے میں‘ زرعی رقبے کی بنیاد پر 1002 گھروں کا انتخاب کیا گیا۔ لگ بھگ 9 کروڑ روپے کے 3731 قرضے جاری ہوئے۔ فی کس اوسط قرض 28281 روپے۔ واپسی؟ 100 فیصد۔ فصل کٹتے ہی کسان ادائیگی کر دیتے ہیں۔ تین سال پہلے چاول کی اوسط پیداوار‘ 35.46 من فی ایکڑ تھی‘ جو اب 41.46 ہو چکی۔ اس طرح گندم کی یافت 30.9 من ایکڑ سے بڑھ کر 42.84 ہو گئی۔
بظاہر یہ ایک سادہ سی داستان ہے۔ مگر اپنے خم و پیچ اور تنوع کے ساتھ بیان کی جائے تو سننے والے عش عش کر اٹھیں۔ مثال کے طور پر‘ اکثر لوگوں نے استری کیے لباس پہن رکھے تھے۔ سو فیصد بچے اب سکولوں میں داخل ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے میڈیکل کیمپ۔ اکثر ان میں ملک کی بہترین گائناکالوجسٹ ڈاکٹر یاسمین راشد تشریف لاتی ہیں۔
سرکاری سکولوں کا حال تو ظاہر ہے کہ پتلا ہے‘ مگر گائوں کے باہر الائیڈ سکول کی شاندار عمارت سر اٹھائے کھڑی ہے۔ اس جلیل درس گاہ کے مقابل‘ کھیل کا ویسا ہی وسیع و عریض میدان ہے‘ جیسا کہ کبھی بہترین سرکاری اداروں میں ہوا کرتا۔
ایسا انقلاب جہاں کہیں رونما ہوتا ہے‘ اس کا بہترین اظہار انسانی رویوں میں ہوا کرتا ہے۔ لونی کے گائوں کی گلیوں میں گھومتے‘ جب ایک گھر میں ہم داخل ہوئے تو مکین نے کسی خاص تپاک کا مظاہرہ نہ کیا۔ ''تسی لفٹ ای نہیں کرا رہے؟‘‘ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا۔ اتنے میں کمسن بچے کے ساتھ خاتون خانہ گھر میں داخل ہوئی اور اس نے کہا: آپ کی نہیں تو اور کس کی تکریم ہو گی؟ ''کیا آپ نے دنیا اخوت فائونڈیشن سے کبھی کوئی قرض لیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ ''بالکل نہیں‘‘ اس نے کہا۔ ''میں بکریاں پالتا ہوں‘ میری کوئی زرعی اراضی نہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بلا سود قرض سے وہ جانوروں کی تعداد بڑھا سکتا ہے اور زیادہ پیسہ کما سکتا ہے۔ ''پیسہ کیا کرنا ہے؟‘‘ بے نیازی سے اس نے کہا۔
تین صدیاں ہوتی ہیں۔ چوری سے توبہ کرکے مزدوری شعار کرنے والا ایک دہقان‘ ایک روپیہ نذر کرنے‘ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قریب بیٹھے داراشکوہ کی طرف انہوں نے اشارہ کیا اور فرمایا: اسے دے دو‘ روپے کی اسے بہت ضرورت رہتی ہے۔
عرض کیا کہ ایک مختصر سی تحریر میں کہانی سمٹ نہیں سکتی۔ گھر گھر‘ گلی گلی‘ گھومتے‘ تکان بہت ہو گئی۔ زراعت کے وفاقی سیکرٹری فضل عباس میکن‘ ڈاکٹر صاحب کے برادر نسبتی فرید لغاری تمام وقت ہمراہ تھے۔ ایک عجب سرشاری کی کیفیت۔ دوسروں کا مجھے معلوم نہیں‘ اپنا عالم یہ تھا کہ مہینوں میں جمع ہونے والی مایوسی یک بیک دھل گئی۔
اللہ بہت مہربان ہے۔ اس کی رحمت کے طفیل‘ اس کے کچھ بندے بھی۔ نہیں معلوم وہ سویر کب طلوع ہو گی‘ صدیوں سے جس کا انتظار ہے۔ لیکن اس روز اس کی ایک جھلک ہم نے دیکھ لی‘ جنتِ ارضی کی جھلک۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا