روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اتوار 18 مارچ کو ایک مرتبہ پھر مزید چھ سال کے لئے صدر منتخب ہو گیا۔ ان انتخابات میں پیوٹن نے76 فیصد ووٹ حاصل کیے‘ جبکہ ٹرن آؤٹ68 فیصد رہا۔ بظاہر یہ پیوٹن کی ایک بہت جامع اور بڑی فتح معلوم ہوتی ہے کہ وہ 2024ء تک روس کا صدر رہے گا۔ ایک صحافی کے اگلے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے سوال پر پیوٹن نے مسکرا کر جواب دیا تھا کہ ''مذاق مت کرو یار... تمہارا کیا خیال ہے کہ میں سو سال تک کرسی پر بیٹھا رہوں گا‘‘۔
تمام تر مغربی پراپیگنڈے کے باوجود انتخابات میں اس سطح کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی جس سے یہ نتیجہ بدلا جا سکتا تھا۔ پیوٹن کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں کوئی ٹھوس مدمقابل امیدوار ہی نہیں تھا۔ مغربی میڈیا الیکسی ناولی کی حمایت کر رہا تھا جو پہلے ہی کرپشن کے الزامات میں نااہل قرار دیا جا چکا تھا۔ الیکشن والے دن اس کو رہا کر دیا گیا اور اس نے انتخابات کو غیر نمائندہ اور جعلی قرار دینے اور دلوانے کی مہم بھی چلائی لیکن وہ کریملن کا جشن خراب کرنے میں ناکام رہا۔ مغربی میڈیا کے پراپیگنڈے کے برعکس ناولی اگر اجازت حاصل کرکے بھرپور مہم چلا بھی لیتا تو اس کا جیتنا شاید ممکن نہیں تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے پیوٹن نے روس میں قوم پرستی اور ماضی کی سپر پاور والی شان و شوکت اور روسی جاہ و جلال کی استواری کی نعرہ بازی مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ پیوٹن روس کے عوام کو یہ باور کروانے کی مہم چلاتا رہا ہے کہ ہر کوئی روس کا دشمن ہے اور روس کو اپنی ماضی کی قوت دوبارہ استوار کرنے کے لئے پیوٹن کی ضرورت ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی ایک خاتون امیداوار پیوٹن کو سیاسی طور پر پروان چڑھانے والے سیاسی بیوروکریٹ کی بیٹی کسینیا سوب چک تھی جس کو 1.7 فیصد ووٹ پڑے جبکہ روس کی کمیونسٹ پارٹی کا امیدوار پیول گردینن تھا جو دوسرے نمبر پر آیا اور تمام تر کٹھنائیوں کے باوجود اس نے 11 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس کا پروگرام وسیع نیشنلائزیشن اور دوسرے ریڈیکل اقدامات پر مبنی تھا‘ لیکن مغربی اور روسی میڈیا کی یلغار اور کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے کھل کر پیوٹن کی مخالفت کے فقدان کی وجہ سے وہ زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکا۔ لیکن اس میں ایک اہم عنصر جمہود میں عوامی مزاحمت کی پسپائی کی عارضی صورتحال بھی شامل ہے۔
ناولی کا پروگرام مغرب پرستی اور انہی کی طرز پر معیشت اور جمہوریت کی استواری تھا‘ جبکہ کسینیا محض لبرل کے طور پر سامنے آئی۔ روس کی موجودہ کمیونسٹ پارٹی کوئی لینن والی بالشویک (کمیونسٹ پارٹی آف رشین ریپبلک) نہیں ہے بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر سوشل ڈیموکریٹک قسم کی ایک بہت چھوٹی پارٹی ہے جو پیوٹن کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مصالحت کی پالیسیاں اپناتی ہے۔ اس قسم کے حزب اختلاف سے پیوٹن کو کوئی خطرہ یا چیلنج بھلا کیسے ہو سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ روس میں عوام سماجی محرومی اور معاشی بحران کا شکار ہیں اور اس سے تنگ بھی ہیں لیکن ان کے سامنے نہ تو کوئی ٹھوس اور جرأت مند پارٹی ہے اور نہ ہی کوئی لیڈر۔ سٹالن کے سوویت یونین کے دور میں تو عوام کو کافی حد تک بنیادی ضروریات‘ چاہے غیر معیاری ہی سہی‘ لیکن کسی حد تک میسر ضرور تھیں۔ 1924ء کے بعد سوویت یونین کے بالشویک انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہوا۔ اس میں معروضی طور پر کلیدی وجوہات‘ خصوصاً جرمنی، چین، فرانس، اٹلی اور کچھ دوسرے ممالک میں انقلابات کی ناکامی‘ سب سے اہم تھیں۔ موضوعی طور پر افسر شاہی نے اس کو ایک طبقاتی سے بدل کر روسی انقلاب بنا کر اپنی حاکمیت قائم کر لی جس نے ایک باقاعدہ آمریت کی شکل اختیار کر لی۔ کروز چیف سے لے کر گوربا چوف تک‘ سٹالن کے بعد آنے والے تمام روسی سربراہ مملکت بنیادی طور پر اسی افسر شاہی کا حصہ تھے۔ سرمایہ داری کے خاتمے اور ایک منصوبہ بند معیشت کی وجہ سے سوویت یونین میں بہت بڑی اور تیز ترین ترقی ہوئی۔ روس ایک پسماندہ زار شاہی کے رجعتی بادشاہت والے غریب ملک سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور ایک سپر پاور اسی 'بغیر نجی ملکیت والی معاشی طرز پیداوار‘ کی وجہ سے بنا تھا۔ بالشویک انقلاب کے بعد والے50 سالوں میں جہاں امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار (GNP) میں 6 گنا اضافہ ہوا تھا‘ وہاں سوویت یونین کےGNP میں 52 گنا اضافہ ہوا تھا‘ لیکن سوشلسٹ معیشت کے لئے مزدور جمہوریت ایسے ہی درکار ہوتی ہے جس طرح انسانی جسم کے لئے آکسیجن لازم ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی زوال کے بعد سوویت یونین کی اقتصای زوال پذیری بھی ہوئی ہے۔
1980ء کی دہائی تک ایک طرف معاشی بدحالی اور دوسری طرف سیاسی و سماجی جبر سے عوام اکتا کر نڈھال ہو چکے تھے۔ بغاوت پھر بھی نہیں ہوئی تھی لیکن اسی موضوعی بحران کی وجہ سے سوویت یونین کا انہدام ہوا تو روس کے بیشتر لیڈر خود سرمایہ دار بننا شروع ہو گئے۔ سوویت یونین پندرہ ریاستوں میں بکھر گئی۔ ان ریاستوںکے ''کمیونسٹ‘‘ حکمرانوں نے قوم پرستی کو اپنی دولت اور طاقت کے لئے بار بار جنون کی طرح ابھارا‘ لیکن سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روس کی معیشت میں شدید بحران اور گراوٹ آئی جس سے عوام کی محرومی کی شدت اس حد تک بڑھی کہ وسیع تر آبادی ایک صدمے کی حالت میں چلی گئی۔ اس عرصے میں نیچے سے کوئی تحریک نہ ہونے کی صورت میں روس میں جو نیا حکمران طبقہ پیدا ہوا‘ پیوٹن اس کا لیڈر بن کر ابھرا۔ اس نے ایک طرف جبر اور دوسری جانب منصوبہ بند معیشت کے شاندار انفراسٹرکچر پر تیل اور دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ سرمایہ انویسٹ کرکے کسی حد تک نیم استحکام پیدا کیا‘ لیکن روس کا حکمران طبقہ کسی ترقی پسند سرمایہ دارانہ انقلاب کی پیدا وار نہیں تھا‘ بلکہ ایک طرف اس کا اقتصادی کردار جارحانہ تھا اور دوسری جانب وہ بدعنوانی اور جرائم میں بھی ملوث تھا۔ اس طرح روسی نیشنلزم کا سہارا داخلی اور خارجی دونوں میدانوں میں لینا پڑا۔ مغربی سامراجی جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد رالیں بہا رہے تھے ان کو پیوٹن کے گروہ نے وہ مراعات نہیں دیں بلکہ منصوبہ بند معیشت کی دولت اور وسائل پر خود قبضہ کر لیا اور روس سے لوٹی ہوئی دولت سے لندن اور دوسرے بڑے شہروں میں مہنگی جائیددادیں خریدیں۔ مغربی حکمران روس سے لڑائی بھی مول نہیں لے سکتے تھے اور دوسری جانب اقتصادی مداخلت سے ان کی اجارہ داریاں کچھ نہ کچھ منافعے حاصل تو کر رہی تھیں۔ اس لیے پُر انتشار توازن کے رشتے پیدا ہوئے جو مسلسل عدم استحکام کا شکار ہیں۔
امریکی سامراج کا معاشی زوال اور یورپی سرمایہ داری میں بحران کا بھی پیوٹن نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے‘ لیکن روس میں عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے پیوٹن نے بیرونی تنازعات کو ہوا دے کر روسی عظمت کی نعرہ بازی سے حب الوطنی کا جنون پیدا کرتے ہوئے کریمیا اور یوکرائن پر قبضے کرکے ان کو کسی حد تک ایک ٹھہرائو اور جمود میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس میں سرمایہ دارانہ استواری کے بعد معیار زندگی میں شدید گراوٹ آئی ہے اور عدم مساوات شدت سے ابھری ہے۔ پیوٹن کا روسی شائونزم ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا۔ روس کے عوام نے پہلے سٹالن ازم اور پھر سرمایہ دارانہ استواری کی بھیانک ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پیچھے گئی ہے۔ سیاسی شعور کی کسی حد تک پستی انہی منفی تجربات کی وجہ سے ہے‘ لیکن ''اکتوبر‘‘ کی یہ سرزمین... اس عظیم میراث سے بھی تعلق رکھتی ہے جو 1917ء کا عظیم بالشویک انقلاب تھا۔ جلد یا بدیر سٹالنزم کے جبر اور سرمایہ دارانہ استواری کا صدمہ مٹ کر رہے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب روس کے محنت کش عوام ایک مرتبہ پھر تاریخ کے میدان میں اتریں گے اور اپنے عظیم لیڈروں لینن اور ٹراٹسکی کے نقش قدم پر کہیں بلند پیمانے پر ایک نیا ''اکتوبر‘‘ برپا کریںگے‘ لیکن اس مرتبہ یہ سوشلسٹ انقلاب کسی سوویت یونین کی ''قومی‘‘ سرحدوں میں جکڑ کر دم نہیں توڑے گا‘ بلکہ پورے کرہ ارض پر ایک 'یو ایس ایس آر‘ کی تشکیل اور تعمیر کا نقطۂ آغاز بنے گا۔