میں جناب شمس الرحمن فاروقی کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ ظفر اقبال نے جو شاعری کرنا تھی‘ کر چکے۔ اسی لیے میں اپنی شاعری کو‘ جو آج کل کر رہا ہوں‘ خانہ پُری کہتا ہوں بلکہ یہ بھی کہ یہ غزلیں ہیرا پھیریاں ہی سمجھی جائیں جیسا کہ چور چوری سے جاتا ہے‘ ہیرا پھیری سے نہیں اور‘ اس ہیرا پھیری میں اگر کبھی کوئی کام کا شعر نکل آئے تو کیا بُرا ہے کیونکہ شعر کبھی بنتا ہے اور کبھی نہیں بھی بنتا۔ شعر کہتا اس لیے ہوں کہ‘ جیسا کہ پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ مجھے شعر کہنے کی بھوک لگتی ہے۔ غزل کا اساسی موضوع عشق ہے اور غزل بھی آپ سے یہ عشق ہی کہلواتا ہے بلکہ اس کام پر لگائے رکھتا ہے اور ایک پھٹا پرانا عشق میں بھی گلے میں ڈالے پھرتا ہوں کہ محبت اور حماقت کے لیے عمر کی کوئی شرط نہیں ہے‘ ثبوت کے طور پر یہ شعر ؎
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہوا تُو
شاعری چھوڑتا اس لیے بھی نہیں ہوں کہ اب آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔ سو‘ یہ عشق ہے چاہے جتنا بھی بے ضرر اور ہومیو پیتھک کیوں نہ ہو۔
اور‘ جہاں تک محبت کا تعلق ہے تو جنسِ لطیف کیلئے کشش تو اللہ میاں نے انسان کی کیمسٹری میں ہی رکھ چھوڑی ہے‘ اس لیے جو شخص محبت نہیں کرتا شاید وہ انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے‘ اور یہ بے مقصد ہو تو اور بھی مزیدار ہو جاتی ہے‘ مثلاً ؎
کوئی مطلب ہے محبت کا نہ مقصد ہے کوئی
ذائقے ہیں مگر اس زہر کے اندر کتنے
تاہم‘ یہ کوئی خُوبی نہیں بلکہ عیب اور مجبوری ہے کیونکہ اخلاقی طور پر اس کا کوئی جواز نہیں ہے‘ لیکن اگر اور بھی بداخلاقیاں آپ سے سرزد ہو رہی ہوں تو ایک یہ بھی سہی۔
اس سے غزل کا موضوع محدود ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ جدید غزل ان حدوں کو پھلانگ چکی ہے۔ میں نے اپنی شاعری میں ان حدوں کو بھی توڑا اور جی بھر کے توڑا ہے۔ لیکن اب طبیعت خاصی امن پسند ہو گئی ہے۔ وقت وقت کی بات بھی ہے‘ اور اس طرز پر اس لیے بھی قائم ہوں کہ اجتہاد کی اب نہ کیفیت ہے نہ ضرورت کہ یہ کام پہلے ہی کافی بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سرانجام دے چکا ہوں۔ شاعری میں پنگے بازیوں کی گنجائش تو بہت ہے لیکن یہ کام آپ ہمیشہ ہی نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے لہٰذا اس برگِ سبز ہی کو تحفۂ درویش سمجھا جائے کہ اب اگر کوئی شعر بدمزہ بھی ہو تو مزیدار شعر بھی کافی ہو چکے ہیں۔ میرا اپنا خیال کم از کم یہی ہے۔
بُری شاعری کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کبھی کوئی اچھا شعر نکل آئے تو اس سے تلافی بھی ہو سکتی ہے سو‘جولانیٔ طبع کا زمانہ گزر چکا ہو تو کچا پکا‘ جو کچھ بھی برداشت کیا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ بلکہ میں نے تو اس زمانے میں بھی کوئی دعویٰ نہیں باندھا تھا۔ اب کی تو بات ہی اور ہے نیز یہ عادت تو بقول حالیؔ اس گلی میں جانے ہی کے برابر ہے یعنی ؎
چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی کا جانا
عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
شعر تو بقول شخصے وہ ہوتا ہے جسے پڑھتے ہی آدمی دوسروں کو سنانے کیلئے بیقرار ہو جائے کہ یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ میری تلافی بعض نئے شعرا کافی حد تک کر رہے ہیں اور جن کی شاعری میں اکثر اوقات پیش کرتا بھی رہتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری میں تھوڑی بہت حصہ داری میری بھی ہے کہ شاعر کا پیرایۂ اظہار ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے لیکن اُس وقت خوشی دو چند ہو جاتی ہے جب کسی بالکل نئے اور غیر معروف شاعر کا شعر مجھے یوں سمجھیے کہ روک لیتا ہے!
مجھے اپنی نام نہاد شاعری پر اتنا ناز نہیں جتنا اس بات پر ہے کہ غیر معروف شعراء کو جتنا پروجیکٹ اور پروموٹ میں نے کیا ہے کہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو اور اگر کسی اور نے یہ کام کیا ہے تو مجھے اس ہستی کا نام ضرور بتایا جائے۔ سو‘ میں اگر بری شاعری پر پکڑا بھی جائوں گا تو نئے شعراء کی حوصلہ افزائی کے صلے میں میری رہائی اور بخشش کا بھی پورا پورا امکان موجود ہو گا۔ میں اس کام اور خدمت پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہوں اور جو میری شاعری کو نہیں مانتے وہ میری اس عاجزانہ کوشش کا اعتراف ضرور کریں گے جبکہ اپنی شاعری کو میں خود کب مانتا ہوں!
اور اب حسبِ معمول خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:
خوش گمانی ہے کچھ گمان میں بھی
جان آنے لگی ہے جان میں بھی
کچھ زمیں پر بھی چاند تارے ہیں
اور زمینیں ہیں آسمان میں بھی
کچھ وضاحت بھی تھی غلط اپنی
فرق ہے آپ کے بیان میں بھی
تھے نشانے بھی جا بجا‘ لیکن
تیر تھا ایک ہی کمان میں بھی
تنگ آ کر نکل پڑے گھر سے
غیر محفوظ تھے مکان میں بھی
کوئی گاہک نظر نہیں آتا
اتنا سودا نہیں دُکان میں بھی
لڑکھڑاتے نہیں ہیں پائوں فقط
لُکنت آنے لگی زبان میں بھی
بھرتا جاتا ہے نائو میں پانی
کئی رخنے ہیں بادبان میں بھی
وقت اچھا گزر رہا ہے‘ ظفرؔ
برے لوگوں کے درمیان میں بھی
آج کامطلع
عمر ہی کا تحفہ ہے‘ عام بھول جاتا ہوں
شکل یاد رہتی ہے‘ نام بھول جاتا ہوں