ہم زندگی بھر کس بات کے لیے سب سے زیادہ کوشاں رہتے ہیں؟ یہ سوال ہر انسان کے لیے ایک الگ دنیا میں جانے اور درست اندازہ لگانے کی کوشش کرنے جیسا ہے۔ ہر انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ مقاصد اور طریق کار کا فرق انسان کی کوششوں کا رخ بھی متعین کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ زیادہ دولت حاصل کرنے کو زندگی کی سب سے بڑی ترجیح اور مقصد قرار دیتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے شعبے میں بھرپور کامیابی آپ کی اولین ترجیح ہو۔ کچھ لوگ صرف شہرت کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک عزت اور احترام ہی سب کچھ ہے۔ آپ بھی جب ذہن پر زور دیں گے تو اندازہ ہوگا کہ آپ کے نزدیک جو چیز سب سے اہم ہے وہ دوسروں کی ترجیحات اور مقاصد سے قدرے مختلف ہے۔
اِدھر اُدھر کی تمام باتیں ذہن سے جھٹک کر سوچا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہم ہر معاملے میں حقیقی مسرت، فرحت اور لطف چاہتے ہیں۔ دولت بھی اسی لیے ہوتی ہے کہ فرحت کا سامان ہو۔ شہرت بھی انسان کو پرلطف زندگی بسر کرنے کے قابل بناتی ہے۔ احترام پاکر دل کو راحت ملتی ہے، لطف میسر آتا ہے۔ فرحت، مسرت اور لطف کا احساس مختلف درجات کا حامل ہوسکتا ہے۔ زندگی بھر کی مشقت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لطف پائیں اور ہر دم زیادہ سے زیادہ مسرت سے ہم کنار رہیں۔
آپ خواہ کسی شعبے میں ہوں، کامیابی اسی وقت بامعنی ثابت ہوتی ہے جب آپ اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ کام میں بھرپور دلچسپی آپ اسی وقت لے سکتے ہیں جب آپ اپنے مشغلے کو کام بنائیں یا پھر کام کو مشغلے میں تبدیل کرلیں۔ معاشی سرگرمی ہم سے ایک جُداگانہ ذہنیت کی متقاضی ہوتی ہے۔ جب ہم گھر میں اہل خانہ یا خاندان کے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں تب ہمارا مزاج کسی الگ کیفیت کا ہوتا ہے اور کام پر جانے کے بعد ہمارے مزاج میں خاصا فرق دکھائی دینے لگتا ہے۔ معاشی سرگرمی میں جُت جانے پر ہم کسی اور دنیا کے باسی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم زندگی بھر معاشی سرگرمیوں کو کسی اور دنیا میں قدم رکھنے کے مترادف قرار دیتے رہتے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ ہم میں سے بیشتر کو معاشی سرگرمیوں سے وہ لطف نہیں ملتا جو ملنا چاہیے۔
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ مگر یہ کیا کہ ہم زندگی کی بنیادی سرگرمی بے دِلی سے انجام دیں۔ اِس صورت میں تو ہمارے لیے صرف مسائل بڑھتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں اچھی کارکردگی اس امر سے مشروط ہے کہ ہم اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے کام کو پسند کریں۔ اگر وہ مکمل طور پر ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو تب بھی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ کسی نہ کسی حد تک اسے اپنے لیے قابل قبول سمجھیں یا قابل قبول بنائیں۔
یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم کسی صورت حال سے خاصی توقعات وابستہ رکھتے ہیں تو نتائج ناموافق نکلنے کی صورت میں ہمارے دل کو رنج بھی بہت پہنچتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کسی بھی صورت حال سے زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ نہ کریں۔ ایسی صورت میں ہر نتیجہ آپ کے لیے قابل قبول ہی ہوگا۔ کوئی بھی معاملہ آپ کو مسرت سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دوسروں کو ہم سے کیا فیض پہنچ سکتا ہے۔ دوسروں سے زیادہ کی توقعات وابستہ کرتے وقت ہمیں بھی دوسروں کو زیادہ دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ زندگی کا کاروبار اسی طور چلتا اور چلایا جاتا ہے۔ معاشی اور غیر معاشی تعلقات کی یہی سب سے پائیدار بنیاد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہر معاملے کو لین دین کی سطح پر دیکھنا شروع کردیں۔ ہر معاملہ لین دین کی طرح نہیں نمٹایا جاسکتا۔ ہمیں کسی حد تک ایثار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسی میں حقیقی مسرت کا راز پوشیدہ ہے۔
جب ہم اپنے معاملات کے مثبت پہلو پر نظر رکھتے ہیں تو دل کو سکون میسر ہوتا ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ سب کچھ اچھا چل رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کے بارے میں منفی انداز سے سوچنے ہی پر ہم مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور زندگی کو پرلطف بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ غیر معمولی توقعات وابستہ کرنے کی عادت اور منفی سوچ ہمیں ہر طرح کے لطف سے دور کردیتی ہیں۔
کسی بھی صورت حال کے چند منطقی نتائج ہوتے ہیں۔ اگر ہم ممکنہ منطقی نتائج کو نظر انداز کرکے محض خوش فہمی کی بنیاد پر چند توقعات وابستہ کرلیں تو جلد یا بدیر خرابی نمودار ہوکر رہتی ہے۔ ہر معاملہ اپنے پہلو میں تھوڑا بہت لطف ضرور رکھتا ہے۔ یہ ہماری صلاحیت اور صوابدید پر منحصر ہے کہ ہم لطف اور مسرت کی منزل تک کس طرح پہنچتے ہیں۔
بہت سے چھوٹے چھوٹے معاملات مل کر ایک بڑی مسرت اور پرلطف ماحول کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر ہم بڑی مسرت کی تلاش میں رہیں تو بہت سی چھوٹی مسرتیں بھی ہم سے روٹھ جاتی ہیں یا پھر ہم انہیں پا کر اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ مثبت طرزِ فکر و عمل ہی ہمیں پرلطف زندگی کی طرف لے جانے کا وسیلہ بنتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ زندگی کسی غیر ضروری پریشانی سے دوچار نہ ہو تو لازم ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں اور ہر صورت حال میں خوش رہنا سیکھیں۔
کسی بھی صورت حال میں اپنے آپ کو متوازن رکھنا، سکون سے ہم کنار رہنا آپ کے لیے واضح آپشن کی طرح ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت حال میں اپنے آپ کو صرف رنج پہنچنے دینا ہے تو کوئی بھی آپ کی کچھ مدد نہیں کرسکتا۔ ہر معاملہ اپنے دامن میں بہت سے نتائج رکھتا ہے اور ہر نتیجہ بہت حد تک ہماری سوچ اور رویے پر منحصر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انتہائی پریشان کن صورت حال کی کوکھ سے بھی سکون برآمد ہوتا ہے مگر اس منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو بہت کچھ سیکھنا اور قربان کرنا پڑتا ہے۔
زندگی کے ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی مسرت اور لطف حاصل کرنا آپ کے بس کی بات ہے۔ آپ کی سوچ اور عمل پر کسی کا کوئی اختیار تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ جو کچھ آپ چاہیں گے وہی ہوگا۔ اگر آپ نے اپنے دل کو رنج دیتے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو کوئی بھی آپ کو اس ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر آپ چاہیں کہ ہر معاملے کے دامن میں مسرت اور لطف تلاش کرنا ہے تو کوئی بھی آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ زندگی آپ کے دامن میں مسرت بھرنا چاہتی ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ آپ کے ہر پل سے مسرت اور لطف برآمد ہونا چاہیے یا صرف دکھ اور پریشانی؟