تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-03-2018

کوئی رہتا ہے‘ اس مکاں میں ابھی

ایک شاعر ہوا کرتے تھے‘ انجم رومانی‘ ہم انہیں بھول گئے۔ ان کا ایک شعر یہ ہے۔
دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی
ابھی ابھی ایک جواں سال آدمی نے دروازے پر دستک دی۔وہ لنگڑا کے چل رہا تھا۔ وہ جھجک کا شکار تھا۔ فون پر اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ میرے مرحوم استاد حسن المرتضیٰ خاور کا فرزند ہے۔
خاور صاحب مرحوم تعمیر ملت ہائی سکول رحیم یار خان میں میرے استاد تھے۔ سراپا شفقت‘ شہد کی طرح شیریں۔ استاد کی حیثیت سے اپنی دوسری ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ‘ ایک ایک جماعت میں گھوم کر ان طلبہ کو تلاش کرتے‘ جو اظہار کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتے۔ پھر ان کی تربیت کا وہ آغاز کرتے۔ موزوں تلفظ‘ درست شین قاف‘ الفاظ کا زیروبم۔ رفتہ رفتہ کوئی ان میں سے چمک اٹھتا اور ایک دن کسی تقریری مقابلے میں کوئی انعام جیت لاتا۔ خاور صاحب کی کبھی قرار نہ پانے والی جستجو‘ اس کے باوجود برقرار رہتی۔ ''ایک اور دوسرے جملے کے دوران لمحے بھر کا وقفہ ہونا چاہئے۔‘‘ وہ کہتے۔ یہ انہی کی تربیت کا ثمر تھا کہ ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو یہ ناچیز بھی حصہ بٹانے لگا۔
بیٹے نے بھی تدریس کو شعار کیا۔ حالات خراب‘ تعلیم معمولی مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور آخرکار ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کرلی۔ اسی ہنگام شریف خاندان سے اس کا رابطہ ہوا۔ ڈیڑھ دو درجن بچوں کو پڑھایا‘ لکھایا اور اب زندگی کی شاہراہ پر وہ دمک رہے ہیں۔
عرق ریزی کرنے والے استاد کی زندگی میں لیکن کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ اگلے گریڈ میں ترقی تک نہ مل سکی جس کا یقینا وہ حق دار تھا۔ سینکڑوں طلبہ کو تقریر کا فن سکھایا۔ بعض ستاروں کی طرح چمکے مگر استاد کی زندگی میں اجالا نہ ہو سکا۔ بار بار خادم پنجاب اور ان کے فرزند کی خدمت میں باریابی کا شرف پایا‘ پھر بھی نہیں۔ انگریزی زبان میں وہ مہارت تامہ رکھتا ہے۔ نظام تعلیم کی بنت سے خوب واقف ہے۔ ایسے ایک تدریسی نظام کا تصور رکھتا ہے‘ کنکر جس میں ہیرے بن جائیں۔ درد کی ایک دل گداز کیفیت کے ساتھ‘ اس نے پوچھا: ہماری کوئی سنتا کیوں نہیں‘ ہمارے سوالوں کا کوئی جواب کیوں نہیں دیتا؟ضیا شاہد کی کتاب ''میرے بہترین کالم‘‘یہی سوال دہراتی ہے‘ ہماری کوئی سنتا کیوں نہیں۔ ہمارے سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتا۔
اس سوال کو وہ عام آدمی کی زبان سے بیان کرتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر ہی‘ محض ایک کردار کی تصویر اجاگر کرتے ہوئے۔ اپنے بہترین لوگوں کے ساتھ‘ بدترین سلوک ہم کیوں روا رکھتے ہیں؟ ان کی خیرہ کن صلاحیتوں کو‘ بے نیازی کے صحرا میں‘ کیوں سسکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ جو اگر بروئے کار آئیں تو ویرانے گلستاں ہو جائیں۔
مجھے ان کی وہ تحریر‘ سب سے زیادہ اچھی لگی تھی‘ جس میں انہوں نے ایک حجّام کا قصہ بیان کیا ہے۔ میو ہسپتال کے مریضوں کی حجامت بنانے کے لیے وہ آیا کرتا۔ ایک حجّام کے ہنر میں کیا نادرہ کاری ہو سکتی ہے؟ برصغیر کی ادبی روایت میں سے کوئی حجّام ایک منفرد کردار ہو سکتا ہے مگر اس کا کمال نہیں۔ ضیا شاہد کی کہانی پڑھی تو بہت دیر دل میں بھونچال سا رہا۔ اپنے کام سے کوئی اتنا مخلص بھی ہو سکتا ہے؟ بندگان خدا کے باب میں اتنا حسّاس بھی؟ ادب کا وظیفہ غالباً یہی ہے کہ ہمیں غوروفکر پہ آمادہ کرے۔ کبھی ہمیں جھنجھوڑ کے رکھ دے۔ آئینے کے سامنے لا کھڑا کرے۔ احساسِ زیاں کے ساتھ لہو اگر نہ گرما سکے تو شرمسارہی کر دے۔ ادب؟ ہاں‘ میں نے کہا‘ ادب۔ Ghost Writing ہی سہی صحافت بھی ایک طرح کا ادب ہے۔ یہ راز جس لکھنے والے پر نہیں کھلتا‘ خواہ ہزاروں صفحے سیاہ کر دے‘ کبھی کسی دل پہ دستک نہیں دے سکتا۔
کالموں کے اپنے مجموعے میں ضیا شاہد نے ایک نوجوان کا ذکر کیا ہے۔ ایک دن ان کی میز پر جو آٹھ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ چھوڑ گیا تھا۔ ''یہ میری پہلی تنخواہ ہے سر! اور اس خیال سے میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ اس رقم کو کسی بہتر جگہ پہ خرچ کر سکتے ہیں‘‘ اس نوجوان کو مصنف نے کبھی ایک چھوٹی سی نوکری دی تھی۔ کالج میں داخلہ دلانے اور فیس معاف کرانے کے علاوہ آخرکار ایک اعلیٰ سرکاری ملازمت کے حصول میں اس کی مدد کی تھی۔
اس تحریر کی خوبی یہ ہے کہ واعظ بننے اور داد سمیٹنے کی بجائے‘ اخبار نویس یہ کہتا ہے :درحقیقت شعوری طور پہ حاجت مند کی کوئی مدد کی ہی نہیں گئی۔ نوکری اسے یوں مل گئی کہ پرنٹنگ پریس کو ایک ملازم درکار تھا۔ باقی مراحل بھی محض اتفاق سے طے ہوئے۔ ٹھیک اس وقت وہ نمودار ہوا‘ جب کوئی متعلقہ افسر‘ کالج کا پرنسپل یا وفاقی وزیر آس پاس موجود تھا۔ ''میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اس کی سفارش کے لئے‘ ایک قدم بھی چل کر جانا پڑتا تو ٹال دیتا‘‘۔
اس کتاب میں سب سے زیادہ دل گداز داستان شاید ایک گمنام بچی کی ہے۔ ایک خط میں وہ اپنا تعارف کراتی ہے''میں ایک نہایت غریب لڑکی ہوں‘ اسلامیہ گرلز ہائی سکول برانڈرتھ روڈ کی طالبہ‘‘ پچھلے برس زکوٰۃ فنڈ سے کچھ روپے اسے ملے تھے۔ اب کی بار ایک مشکل آن پڑی تھی۔ پرنسپل نے درخواستیں واپس کردیں اور کہا علاقے کے کونسلر سے توثیق کرائیں ''انکل! اپنی بیٹی سمجھ کر آپ میرا یہ کام کردیں‘‘ اس بچی کے نام اس کے انکل نے لکھا ''سالہا سال پہلے‘ جب میں تمہاری عمر کا تھا‘ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے‘ چند روپوں کے عوض‘ رات رات بھر دیواروں پہ اشتہار لکھا کرتا‘‘۔ ''وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘۔ ''ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو‘ میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا‘‘۔ ''میری زندگی میں تو شاید وہ صبح طلوع نہ ہو‘ میری دعا ہے کہ تمہاری زندگی میں ضرور آ جائے‘‘۔
ضیا شاہد کی تحریروں میں‘ عام آدمی بار بار دکھائی دیتا ہے۔ وہ جن کے درمیان ہم جیتے ہیں۔ خود ہم میں سے اکثر کچے گھروندوں اور گرد آلود دیہات سے اٹھے ہیں۔ پھر معلوم نہیں کیوں‘ لکھنے کی میز پہ بیٹھتے ہیں تو یکسر انہیں بھول کیوں جاتے ہیں۔ پھر چیخ چیخ کر تقریر کرنے والا بلاول بھٹو‘ سیالکوٹ کی موقع شناس معالج اور کراچی کے نابغے کی مدد سے‘ انقلاب کا وعدہ کرنے والا عمران خان اور میاں محمد نوازشریف ہی یاد رہ جاتے ہیں۔ مدتوں جن کا سب سے پسندیدہ نعرہ یہ تھا ''میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا‘‘ ہم میں سے کسی نے ان سے کبھی نہ پوچھا‘ آدمی کیسے تقدیر بنا اور بدل سکتا ہے کہ اللہ ہی تقدیریں بناتا اور بدلتا ہے۔ یا پھر میاں محمد شہبازشریف‘ زبانِ حال سے جو یہ کہتے ہیں کہ خیرہ کن تنوع میں برپا حیات کا نظام‘ ان کی ذات کے گرد ‘ اگر نہ گھومے گا تو دھڑام سے گر پڑے گا۔ چاند ستارے اپنی گردش بھول جائیں گے۔
ضیا صاحب کی پوری کتاب میں نے نہیں پڑھی۔ چند صفحات پڑھے تو یہ سوال دل میں ترازو ہوا کہ ہم ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں اور لیڈروں کے محلاّت کی طرف کیوں دیکھتے رہتے ہیں۔ کیا ہم اس موچی سے بھی بدتر ہیں‘ جس نے ضیا شاہد سے کہا تھا '' او بھولے بادشاہو‘ جے دل کا چین اور خوشی نقد رقم سے خریدی جا سکتی تو یہ بڑی بڑی کوٹھیوں والے ہمیشہ خوش رہتے۔ ہم غریب تو دن رات رویا ہی کرتے‘ آنسو ہی بہایا کرتے۔ پر اوپر والے نے انصاف کیا ہے۔ کچھ خوشیاں اِدھر والوں کو دی ہیں‘ کچھ اُدھر والوں کو‘‘۔
ان اوراق کے مطالعے سے یہ کھلا کہ ایک صحافتی سلطنت تعمیر کرنے کے باوجود‘ وہ بچہ کبھی کبھی ضیا شاہد کے دل میں زندہ ہو جاتا ہے‘ جس نے سرائیکی پٹی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں آنکھ کھولی تھی۔ زندگی کے دکھوں اور مسرتوں کو‘ اس کے انتظار اور کرب کو‘ اس کی مایوسیوں اور تمنائوں کو جسم و جان پہ جھیلا تھا۔ اس بچے کو اللہ جیتا رکھے۔
ایک شاعر ہوا کرتے تھے‘ انجم رومانی‘ ہم انہیں بھول گئے۔ ان کا ایک شعر یہ ہے۔
دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved