تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     27-03-2018

خوداحتسابی

کبھی کبھی کوئی ایک لفظ یاجملہ جودل سے نکلتا ہے سننے والوں کے دل میں ترازو ہوجاتا ہے اور عمر بھر کے لئے ان کا دم ساز بن جاتا ہے۔اس روز بھی ایسے ہی ہوا۔ ایوان ِصدارت میں انسدادِبدعنوانی کے حوالے سے ایک تقریب تھی جس میں صدرِمملکت جناب ممنون حسین اور نیب کے سربراہ جناب جسٹس جاوید اقبال شریک تھے۔ مقررین میں غیرملکی تنظیموں کے سربراہ بھی شریک تھے یہ تقریب انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن کے حوالے سے تھی۔ جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ادارے کے طریقِ کار کی وضاحت کی جس میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے تین مختلف سطحوں Prevention,Awareness اور Enforcement پرکام کیاجارہاہے۔ اس کے بعد جسٹس صاحب نے لکھی ہوئی تقریرسے ہٹ کر گفتگو شروع کی اوریہی وہ مقام تھا جہاں دل سے نکلنے والی آواز سننے والوں کے دلوں میںگھر کرجاتی ہے۔وہ کہہ رہے تھے معاشرے میں بدعنوانی ختم کرنے کاسب سے اہم نکتہ خوداحتسابی ہے۔جس میں باہر کی سزا سے زیادہ ضمیر کی خلش کاخوف ہو اوراگر ہرشخص، چاہے وہ کسی بھی شعبے میںہو، ہر لمحے اپنا احتساب خودکرے تومعاشرے میں بدعنوانی کی شرح نیچے آسکتی ہے۔یہ آواز مجھے کئی برس پیچھے لے گئی۔ مجھے یوں لگا میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کی کلاس میں بیٹھا ہوں۔ آج ہمارے سیشن کا آخری دن ہے۔ سجاد شیخ صاحب ہمیں آخری لیکچردے رہے ہیں لیکن آج کالیکچر انگریزی ادب کے حوالے سے نہیںبلکہ زندگی کے حوالے سے ہے۔ سجاد شیخ صاحب کاذکرآتے ہی ایک آئیڈیل ٹیچر کاتصور ذہن میں آتاہے۔شیخ صاحب محنت، دیانت اور شرافت کا مرقع تھے۔ ہمیشہ کلاس میں لیکچر کی بھرپور تیاری کے ساتھ آتے۔ کلاس میں کبھی کسی کا مضحکہ نہ اڑاتے۔ مجھے یادنہیں ہمارے ایم اے کے پورے سیشن میں انہوںنے کبھی چھٹی کی ہو ۔ہم اکثر دعاکرتے کبھی تو ایسا دِن آئے جب شیخ صاحب کالج نہ آئیں۔ آخر وہ دن آہی گیا جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا اس دن ہماری دعا قبول ہوتی نظرآئی۔ صبح سے روز موسلادھار بارش ہورہی تھی‘ ہماری کلاس جوبلی ہال کی بالائی منزل سے متصل کمرے میںہوتی تھی۔جہاں کے روشن دان سے باہر کا منظر نظر آتا تھا۔ شیخ صاحب کو سیٹیلائٹ ٹاؤن سے آنا ہوتا تھا‘ کبھی ویگن‘ کبھی ٹیکسی‘ کبھی بس میں۔ اس روز سارے راستے جل تھل تھے۔ آسمان پر سیاہ گھٹاؤں نے گردوپیش کو تاریک کر دیا تھا۔ دن میں بھی رات کا گماں ہوتا تھا۔ ہمیں یقین ہو چلا تھا آج شیخ صاحب کا آنا محال ہے۔ یہ تصور بھی کتنا خوش کُن تھا کہ آج کلاس نہیں ہو گی ا ور ہم کالج روڈ پر واقع زم زم کیفے میں جائیں گے جہاں شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے ملتی تھی اور جہاں ہم چھوٹی چھوٹی چٹوں پر فرمائشی گانے لکھ کر دیتے اور گراموں فون ریکارڈ پر ہماری پسند کے گیت چلائے جاتے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ بارش میں توچائے اورگیتوں کا لطف اور بڑھ جائے گا ۔ لیکن ہمارے تصور کا شیش محل اچانک ایک چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے جب ہمارے ایک ہم جماعت کی چیختی ہوئی آواز آتی ہیـ''شیخ صاحب‘‘۔ ہم سب روشن دان سے باہر کا منظر دیکھتے ہیں جہاںموسلا دھار بارش میں تیز ہوا کے زور سے الٹی سیدھی ہوتی چھتری کے ہمراہ شیخ صاحب آ رہے تھے۔ اس روز شیخ صاحب کوہمارے ایک دوست نے کہا سر ہم توسمجھے تھے آج آپ نہیں آسکیں گے ۔ شیخ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے Only death can part us (صرف موت ہی ہمیں جدا کر سکتی ہے) اور پھر ایک دن واقعی موت نے ان کو ہم سے جدا کر دیا، لیکن یہ اُس دن کی بات ہے جب ہمارے سیشن کا آخری دن تھا اور شیخ صاحب ہمیں کا رزار ِحیات کے لیے تیار کر رہے تھے۔شیخ صاحب نے ہمیں تین چیزوں کی تلقین کی۔ وہ بولے: سب سے پہلی چیز پابندی وقت ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائیں وقت کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔ دوسری اہم چیز اپنے کام سے لگن اور پیشگی پلاننگ ہے۔ کبھی اپنے کام کو Taken for grantedنہ لیں۔ شیخ صاحب کے مطابق تیسری اہم چیز دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرنا ہے۔ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ ہر انسان چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا ، امیر ہو یا غریب اس کی عزت نفس ہوتی ہے آپ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں پوری کوشش کریں کہ آپ کی کسی حرکت، کسی بات اور عمل سے دوسروںکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ان تین باتوں کا ذکر کرنے کے بعد شیخ صاحب نے کہا اور اب میں آپ کو سب سے اہم بات بتانے لگا ہوں اور وہ یہ کہ ان تین نصیحتوںپر عمل درآمد کسی بیرونی خوف اور لالچ کے بجائے آپ کے اندر کی آواز پر ہونا چاہیے دوسرے لفظوں میں آپ کے اندر ایک مانیٹر آپ کو صحیح اور غلط میں فرق بتاتا رہے جو آپ کو ان تین نصیحتوں کو ہمہ وقت یاد دلاتا رہے۔ جب آخری دن کا آخری لیکچرختم ہوا اور ہم کمرے کی سیڑھیاں اتررہے تھے تو دل کی عجیب سی کیفیت تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور سوچا اب ان سیڑھیوں پر شاید ہمارے قدم دوبارہ نہیں پڑیںگے۔ اس دن کوبیتے تقریباً چاردہائیاں ہونے کو آئی ہیں۔ اس عرصے میں شیخ صاحب کی تین نصیحتیں ہمیشہ میری ہم سفررہیں۔ میں سوچتا ہوں کیسے ایک استاد کی باتیں اوراس کاعمل اس کے شاگردوں کو متاثرکرتاہے۔ کیسے احتساب کا اندرونی مانیٹر ہمیں اقدارسے جوڑ کر رکھتا ہے۔ کئی سال پہلے مجھے کینیڈا کی براک یونیورسٹی (Brock University) میں ایک کانفرنس میں جانے کااتفاق ہوا۔ کانفرنس کے دوران چائے کے وقفے میں وہاں کے ایک نوجوان پر وفیسر سے ملاقات کا ہوئی۔ تفصیلی ملاقات کے لیے اگلے روز چار بجے کاوقت طے ہوا۔میں وقت مقررہ پر تیسری منزل پرواقع پروفیسر کے آفس پہنچا تو وہ بند ملا۔ میں نے سوچا شایدوہ میٹنگ کے بارے میں بھول گیا ہو۔ میںجانے کے لیے واپس مڑ ہی تھاتو دیکھا کہ نوجوان پروفیسر تقریباً دوڑتا ہوا آفس کی طرف آرہاتھا۔لفٹ آنے میںدیر تھی وہ سیڑھیاںپھلانگتا ہوا آیاتھا۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا‘ معاف کرنا مجھے دیر ہوگئیI hate to miss the appointments اس بات کو کئی برس گزر چلے ہیں اب بھی میرے حافظے میں اس دن کی یاد آج تک روشن ہے۔ یہ ہے وہ اندر کا مانیٹر جو آپ کو وعدے کے ایفا پرمجبور کرتاہے۔ پاکستان میں کئی بار ایسے واقعات سننے کوملتے ہیں کہ سواریاں ٹیکسی اور رکشے میں اپنا قیمتی سامان بھول جاتی ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور یارکشے والا یہ سامان بحفاظت ان کو واپس پہنچادیتاہے۔ یہ سب کچھ ایک اندر کے مانیٹر سے ممکن ہے۔
خوداحتسابی کے تصور کو پروان چڑھانے میںہمارے سماجی ادارے اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔ اس میں خاندان، تعلیمی و مذہبی اداروں اور میڈیاکامرکزی کردار ہے۔بچے کی شخصیت انہی اداروں سے تشکیل پاتی ہے لیکن اس کے لیے ایک کڑی شرط ہے اور وہ یہ کہ استاد بچوں کوجس بات کی نصیحت کرے وہ اوصاف خود اس کے اندر پائے جاتے ہوں ۔بالکل اسی طرح جیسے سجاد شیخ خودبھی وقت کے پابندتھے‘ ہمیشہ لیکچرتیار کرکے کلاس میں آتے تھے اورکبھی کلاس میں کسی کی تضحیک نہیںکرتے تھے۔ اسی لیے جب انہوںنے تین نصیحتوں کوہمارے پلوسے باندھا توہمیشہ کے لیے ہماری شخصیت کاحصہ بن گئیں۔
آج کئی دہائیوں بعد ایوانِ صدر کی تقریب میں جناب جسٹس جاوید اقبال کے خوداحتسابی کے تصور نے مجھے سجادشیخ اوران سے جڑی ہوئی باتوں کی یاد دلادی۔ کبھی کبھی کوئی ایک لفظ یاجملہ جو دل سے نکلتا ہے‘ سننے والوں کے دل میں تراز و ہوجاتاہے او ر عمر بھر کے لئے ان کا دم ساز بن جاتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved