اوکاڑہ سے میرے شاعر دوست پروفیسر احمد ساقی کا پچھلے ماہ کا ایک میسج آج میری نظر سے گزرا ہے جس میں انہوں نے حال ہی میں کالم کے اندر چھپی میری غزل کے ایک مصرعہ میں غلطی کی نشاندہی کی ہے ع
کہ میں اکیلا نہیں ہوا میرے ساتھ چل رہی ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس کی بحر مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن اور مصرعہ میں لفظ ''مرے‘‘ زائد از وزن ہے۔ شاید کاتب نے ایسا لکھ دیا ہو‘ سو‘ عرض ہے کہ یہ غلطی کاتب یا ٹائپسٹ کی نہیں بلکہ مابدولت نے خود فرمائی ہے اور اس میں لفظ ''مرے‘‘ واقعی زائد از وزن ہے اور مصرعہ یوں ہونا چاہیے تھا ع
کہ میں اکیلا نہیں‘ ہوا ساتھ چل رہی ہے
اس کرم فرمائی پر میں پروفیسر صاحب کا احسان مند ہوں۔ غالباً ایسی ہی کسی غلطی کی نشاندہی برادرم اقتدار جاوید نے بھی کی تھی۔ میں اب تک تو یہی سمجھتا تھا کہ شاعر کے لیے عروضی ہونا ضروری نہیں ہوتا یعنی اگر موزوں طبع ہو تو کافی ہے‘ لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ جائے اُستاد خالی است۔
اب ایک اطلاع یہ کہ خاکسار کی شاعری کے دو مجموعے ''تاخیر‘‘ اور ''توفیق‘‘ کے ناموں سے رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہو گئے ہیں۔ ہر مجموعے میں 121 غزلیں ہیں۔ ایک کا انتساب محمد اظہار الحق اور دوسری کا اصغر ندیم سید کے نام ہے۔ ایک کا پس سرورق آصف فرخی کے قلم سے اور دوسری کا شمس الرحمن فاروقی کی زبانی۔ قیمت تین‘ تین سو روپے ہے۔ دوسرے یہ کہ یہی ادارہ ''اب تک‘‘ جلد چہارم کا دوسرا ایڈیشن بھی چھاپ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کلیات میں شامل چھ مجموعے الگ الگ بھی شائع کر رہا ہے جبکہ ''اب تک‘‘ جلد اول اور جلد دوم سنگ میل پبلی کیشنز لاہور کی جانب سے بھی شائع ہو رہی ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر‘ شاعر اور ملتان سے شائع ہونے والے جریدے ''انگارے‘‘ کے مدیر ڈاکٹر سید عامر سہیل کی مرتب کردہ کتاب بعنوان ''ظفر اقبال۔ ایک عہد‘ ایک روایت‘‘ پاکستان رائٹرز سوسائٹی (کواپرا)لاہور کی طرف سے چھپ چکی ہے جس کی مختصر اطلاع پہلے دے چکا ہوں۔ 500 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا انتساب انہوں نے اپنے بچوں بخت آور بخاری‘ محمد حسن‘ محمد جہانزیب‘ فاطم علی اور اپنی ہم سفر عابدہ احمد خاں کے نام کیا ہے۔ سرورق محمد جاوید نے بنایا ہے۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اول میں انٹرویوز اور مکالمے ہیں۔ انٹرویوز لینے والوں میں کاشف مجید‘ سید عامر سہیل‘ منیبہ زہرا نقوی‘ ایم خالد فیاض اور ڈاکٹر سجاد نعیم شامل ہیں۔
دوسرے حصے کا عنوان ہے: تنقیدی مطالعات (بحوالہ ظفر اقبال)۔ اس کے لکھنے والوں میں افتخار جالب (دو مضمون)‘ انتظار حسین‘ محمد سلیم الرحمن‘ شمس الرحمان فاروقی‘ شمیم حنفی‘ مشفق خواجہ (دو مضمون)‘ شہزاد احمد‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ سمیع آہوجا‘ انیس ناگی‘ عبدالرشید‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر قاضی افضال حسین‘ ڈاکٹر ابرار احمد (دو مضمون)‘ حسین مجروح (دو مضمون)‘ ڈاکٹر قاضی جمال حسین‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن (دو مضمون)‘ ڈاکٹر عارف ثاقب‘ حمیدہ شاہین‘ ڈاکٹر جواز جعفری‘ مشتاق شبنم‘ علی اکبر ناطق‘ فرحت عباس شاہ‘ ڈاکٹر افتخار بیگ‘ ڈاکٹر مزمل حسین‘ ڈاکٹر عابد سیال‘ جاذب قریشی‘ عمران ازفر‘ الیاس بابر اعوان‘ سرور جاوید‘ ظفرالنقی‘ نسیم عباس احمر‘ منیبہ زہرا نقوی‘سمیرا کلیم اور سیدہ سیفو ۔
حصہ سوم کا عنوان ہے: تاثرات‘ فلیپ‘ اقتباسات
اس میں حصہ لینے والوں کے اسم ہائے گرامی : عبداللہ حسین‘ بانو قدسیہ‘ احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ محمد حنیف رامے‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ منیر نیازی‘ محمد اظہار الحق‘ افتخار عارف‘ فہمیدہ ریاض‘ اصغر ندیم سید‘ قمر جمیل‘ کشور ناہید‘ احمد جاوید‘ محمد خالد‘ سلیم کوثر‘ نذیر قیصر‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ اختر عثمان اور اظہر غوری۔
''چند باتیں‘‘ کے عنوان سے ابتدائیہ سید عامر سہیل نے خود لکھا ہے جبکہ اس پیش لفظ ہی کا ایک اقتباس پس سرورق‘ خاکسار کے ساتھ اپنی تصویر کے ساتھ اس طرح سے ہے :
''ظفر اقبال کی شاعری اور تصور شعر کے حوالے سے منفی‘ مثبت بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر دو حوالے سے افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے۔ کسی کی رائے میں وہ ایک بے مثل شاعر ہے اور کسی کے خیال میں وہ لفظوں کا بازی گر ہے اور جان بوجھ کر ایسے تجربات کرتا ہے جو کسی حد تک مضحکہ خیز بھی ہوتے ہیں نیز وہ ہر لمحہ قاری کو چونکانے کے جتن میں مصروف دکھائی دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔اور اس انداز میں لاتعداد باتیں کہی اور لکھی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ‘ ان کی اُردو نثر (کالم اور تنقیدی مضامین) اپنے بے باکانہ اظہار اور سفاکانہ رائے کی وجہ سے خود ان کی تخلیقات کی تفہیم کو غیر جانبدارانہ نہیں ہونے دیتے؛تاہم یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ ساری تحسین وتنقیص کے باوجود ان کا شعری سفر ارتقاء پذیر رہا ہے۔ اُنہوں نے کبھی اپنے آپ کو نہیں دُہرایا‘ یا کم از کم دُہرانے کی کوشش نہیں کی‘‘۔ ''آب رواں‘‘ کے مستند شاعرانہ اسلوب کہ جو ان کی شناخت بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا‘ پر خود ہی خط ِتنسیخ کھینچ دیا۔ یہ حوصلہ یقینا اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد رکھنے والا تخلیق کار ہی کر سکتا ہے اور ہر بار خود کو نیا کرنے کی یہی خوبی ظفر اقبال کا تخلیقی امتیاز ہے۔ ظفر اقبال پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جامعات میں کئی تحقیقی مقالہ جات تحریر ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک ان کی تخلیقی شخصیت پر کوئی مربوط کتاب سامنے نہیں آئی ہے۔ زیر نظر اسی صورتحال کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی ہے۔(اکادمی ادبیات کی طرف سے بھی ایسی کتاب شائع ہو رہی ہے)۔
تاہم اس کتاب کا اگر اتنا تعارف بھی نہ کروایا جاتا تو مرتب کے ساتھ ساتھ ناشر کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی کیونکہ اگر بعض دوسری کتابوں پر تفصیلی تبصرہ آ جاتا ہے تو اس کا کیا قصور ہے؟
تھوڑی جگہ بچ گئی ہے اس لئے شعر و شاعری ہو جائے۔
ابر مشکل ہے تو چل سایۂ دیوار ہی دے
جب چلوں گا تو اسے ساتھ چلا لوں گا میں خود (احمد فرید)
میں جہاں دستکیں دیتا رہا دیوار تھی وہ
اور جسے سمجھا تھا دیوار وہ دروازہ تھا (احمد ساقی)
ابھی یہ ترکِ تعلق ذرا اُدھورا ہے
ابھی میں خواب میں چلتا ہوں تیرے گھر کی طرف (ساحر علی)
تاعمر ہُنر سیکھتے ہیں لوگ جو اختر
اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے (اختر عثمان)
اک غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اِک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے (خرم مشتاق)
آج کامطلع
یاد کی کوٹھڑی میں بیٹھا ہوں
یوں تری حاضری میں بیٹھا ہوں