تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-03-2018

پہلی زندگی یا دوسری ؟

دوسری زندگی (Second Life)کے بارے میں ہمیں سب سے پہلے یونیورسٹی کے ایک استاد نے بتایا تھا۔یہ ایک گیم ہے ۔ یہ زندگی کے تلخ حقائق میں گھرے ہوئے لوگوں کے لیے ایک جائے پناہ بلکہ نخلستان ہے ۔ وہ لوگ ، جو زندگی کی ناکامیوں تلے دب چکے ہیں ۔سیکنڈ لائف اور اس طرح کی دوسری گیمز صرف گیم ہی نہیں بلکہ یہ توایک متوازی زندگی ہے ۔ یہاں آپ روزمرہ زندگی کے تمام کام کرتے ہیں؛حتیٰ کہ گیم کے اندر ہی کھانا کھاتے، لباس خریدتے اور بال سنوارتے ہیں ۔ آپ کی باقاعدہ دوستیاں اور دشمنیاں ہوتی ہیں ۔ آپ مختلف کاموں ، مثلاً ٹیکسی چلانے سے روپیہ اکھٹا کرتے ہیں۔ آپ جائیدادیں خرید تے ہیں ۔ آپ ہتھیار خریدتے ہیں ۔ اپنی جائیداد پہ قبضہ کرنے والوں کو سبق سکھاتے ہیں ۔ بڑی بڑی شخصیات سے آپ کی جان پہچان ہوتی ہے۔ 
اس وقت تک مجھے تصوراتی زندگی (Virtual Life)کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ میں نے GTA Vice Cityکے نام سے ایک گیم کھیلنی شروع کی۔ جب وہاں پیسے اکھٹے کر کے جائیداد خریدنا شروع کی تو میرے دل و دماغ کی حالت عجیب ہو گئی ۔ جس قدر میں روپیہ اور جائیداد اکھٹی کرتا جا رہا تھا ، اسی قدرمزید دولت اور جائیداد کی طلب بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ جس قدر دشمنوں کا میں خاتمہ کرتا جا رہا تھا ، اسی قدر مزید دشمنوں کو سبق سکھانے ، اپنی دہشت بٹھانے اور پورے vice cityمیں اپنے نام کا ڈنکا بجانے کی خواہش بڑھتی جا رہی تھی ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ جب حقیقی زندگی میں انسان کے ہاتھ میں شہرت، دولت اور قوت آتی ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس ساری صورتِ حال کاتاریک ترین پہلویہ تھا کہ میں کوئی بھی چیز حقیقت میں حاصل نہیں کر رہا تھا ۔ جیسے ہی کمپیوٹر بند، یہ ساری کامیابیاں بھی خاک میں مل جاتیں۔ حقیقی زندگی کے مسائل اپنی جگہ موجود ہوتے ۔ 
یہ مسائل ہیں کیا؟ طالبِ علم کے لیے پڑھائی ، فارغ التحصیل کے لیے روزگار ۔ ایک اور خوفناک حقیقت یہ تھی کہ جب آپ اپنی تصوراتی زندگی (Virtual Life)میں کھو جاتے ہیں تو عملی زندگی میں کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں محنت مزدوری اور روپیہ اکھٹا کرنا بہت مشکل ہے ۔ لوگوں سے لڑائیاں کرنا، ان کی مرمت کرنا ایک ایسا کام ہے ، جس میں انسان کی اپنی مرمت کے امکانات روشن ہوتے ہیں ۔تصوراتی زندگی میں یہ سب بہت آسان ہے ۔ ٹیکسی چلانا ، راستے میں یہ سواری کو اتار کر مارنا ، راہ چلتے کسی کی بھی پٹائی لگا کر اس کے پیسے چھین لینا ، یہ سب کچھ بہت آسان تھا ۔ اس گیم میں اسلحہ اکھٹا کرنا، اپنا پیچھا کرتی ہوئی پولیس کو ناکوں چنے چبوا دینا بھی بہت آسان تھا ۔ آپ کو ایک خراش بھی نہیں آنی اور اگر آپ مر جاتے ہیں تو دوبارہ زندگی شروع کر سکتے ہیں ۔ آپ کو صرف کچھ بٹن ہی تو دبانا ہیں ۔ 
بعد ازاں فیس بک کی شکل میں ایک نئی جہت سامنے آئی ۔ وائس سٹی میں تو آپ اکیلے ہی سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں ۔ فیس بک پر آپ کو جیتے جاگتے انسانوں کا ساتھ میسر ہوتا ہے ۔ آپ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے متنازعہ موضوعات پر تبصرے کر کے لوگوں کی داد وصول کر سکتے ہیں ۔ اپنا ایک فین کلب بنا سکتے ہیں ۔ اس کے لیے آپ کودوسرے لکھنے والوں کے ساتھ بھائی بندی کا رشتہ بھی بناناہوگا۔جتنا آپ دوسروں کا ساتھ دیں گے، اتنا ہی آپ کا ساتھ بھی دیا جائے گا۔آپ کی ایک حیثیت ہوگی ، جو کہ نمبر آف لائکس کے برابر ہوگی ۔ کسی بھی موضوع پر اپنے حق میں کمنٹس دینے والوں میں سے ایک ایک کا آپ کو شکریہ ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ مستقبل میں بھی کمنٹس دیتے رہیں ۔دن بھر میں 3، 4موضوعات پر رائے دینے ، بے شمار لوگوں کے کمنٹ پڑھنے ، ان کا شکریہ ادا کرنے ، منفی کمنٹس کی صورت میں اپنے موقف کا دفاع کرنے ، دوسرے لکھنے والوں کی تحریوں پر منفی اور مثبت تاثرات ادا کرنے کے لیے آپ کو روزانہ 6، 7گھنٹے چاہئیں ۔ یہ 6، 7گھنٹے 10، 12گھنٹوں میں بھی بدل سکتے ہیں اور ان کا کوئی مقرر وقت نہیں ۔ 
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مقبول کالم نگاروں اور ٹی وی کے کامیاب لکھاریوں نے بھی اپنے فین پیج بنائے۔ وہ پہلے ہی مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں۔ وہ کسی بھی موضوع پر اپنا جامع اور مختصر سا تبصرہ لکھ کر جاری کر دیتے ہیں ۔ نیچے ایک ایک تبصرہ کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت اور مہلت ان کے پاس موجود نہیں ہوتی ۔ پھر بھی اگر کوئی آپ کی کسی تحریر پر نہایت طنزیہ تبصرہ کرے اور اسے خاطر خواہ تعداد میں لوگ پسند (Like)بھی کریں تو ظاہر ہے کہ آپ کو برا تو لگے گا ۔اگر یہ طنزیہ تبصرہ کرنے والا بھی فیس بک کا ایک بڑا لکھاری ہوگا تو آپ دونوں کے درمیان انا کی ایک جنگ شروع ہو جائے گی۔ ۔۔اور انا کی جنگ بعض اوقات سالوں بھی جاری رہ سکتی ہے ۔ 
اس ساری صورتِ حال کا سب سے سنگین پہلو وقت کا خوفناک زیاں ہے۔ اس سب کھیل تماشے میں انسان مکمل طور پر مست ہو جاتاہے ۔ ٹانگیںپھیلائے پورا دن وہ بیٹھارہتاہے ۔ اس تصوراتی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا ہے، جب کہ حقیقت میں اس کی جیب خالی ہوتی ہے ۔ بیوی بچے اور ماں باپ دعا کے ہاتھ اٹھائے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمارے لعل کو تصوراتی زندگی سے نکل کر حقیقی زندگی میں کچھ کرنے کی توفیق نصیب ہو ۔ دنیا والوں کے سامنے عقل و دانش کے موتی لٹانے والا کاش حقیقی زندگی میں ڈھنگ کا کوئی کام بھی کر سکے ۔ ادھر وہ صاحب اپنی اس خیالی اور تصوراتی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ میں کیا چیز ہوں ، ارسطو جیسے دانشور کی بیوی اسے بیکار سمجھتی تھی ۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آتاہے ۔ ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا۔میرے بکھرے ہوئے بال دیکھ کر وہ بولا ، آج تو آئن سٹائن لگ رہے ہو۔ میں نے کہا، اگر بال بکھیرنے سے آدمی آئن سٹائن بن سکتا تو پاگل خانے آئن سٹائنوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ آئن سٹائن نے زندگی میں بال بکھیرنے کے علاوہ بھی بہت سے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے تھے ۔ اسی طرح ہر وہ شخص ، جس کی بیوی اس سے تنگ ہے ، ارسطو نہیں ۔ ارسطو نے بیوی کو تنگ کرنے کے علاوہ بھی بہت سے کام کیے تھے۔ 
بڑے لکھنے والوں پر حملہ آور ہونے والوں کی ایک اپنی نفسیات ہے۔ اگرمیں لکھنے والے کی حیثیت سے قائدِ اعظم پر تنقید شروع کر دوں تو یہاں یہ نفسیاتی پہلو کافرما ہے کہ میں محمد علی جناح سے زیادہ عقل والا ہوں ۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے کشف المحجوب پر ایک تنقیدی مضمون تحریر کر دیا تھا؛حالانکہ وہ خود سرکاری ٹی وی میں ملازم تھے ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک سرکاری ملازم شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کے نقائص پر گفتگو کر رہا ہے ۔ 
دنیا بڑے تماشے کی جگہ ہے لیکن آج کی دنیا میں ایک فیصلہ ہر نوجوان کو کرنا ہے۔ اسے حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہے ۔ یا پھر تصوراتی زندگی کے خوشنما سراب میں کھو جانا ہے ۔ یہ بہرحال یاد رہے کہ اس ''دوسری زندگی ‘‘ کی سب کامیابیاں بہرحال سراب ہی ہیں اور سراب نے کبھی کسی کی پیاس نہیں بجھائی ۔ کیا بہتر یہ نہیں کہ انسان پہلی زندگی ہی میں کچھ کردکھانے کی کوشش کرے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved