کِس کو کیسا ’’کمال‘‘ ملنا چاہیے، یہ فیصلہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بعض بچے ڈرائنگ میں کچھ ایسا ’’یدِ طُولٰی‘‘ رکھتے ہیں کہ کیلا بنائیں تو ڈھول کا گمان گزرتا ہے۔ پتیلی بنانے بیٹھیں تو اجمیر شریف کی درگاہ پر نصب بڑی دیگ کے درشن ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے بچے اگر کوئی فطری منظر پیش کرنا چاہیں تو لگتا ہے کہ کائنات کا نظام اُلٹ پلٹ گیا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہماری ڈرائنگ کا بھی ایسا ہی حال تھا۔ ہم سوچتے کچھ تھے، بناتے کچھ تھے، بنتا کچھ تھا اور لوگوں کی سمجھ میں آتا کچھ اور تھا۔ ایک صاحب نے خاصا زور دے کر ہمیں اِس مشق سے دور کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تجریدی آرٹ کی دُنیا میں نام رکھتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اُن کا ہمسر ہو۔ ویسے ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ سوچیں کچھ، بنائیں کچھ، بنے کچھ اور سمجھ میں آئے کچھ والی کیفیت ڈرائنگ سے نکل کر اب ہمارے کالموں میں در آئی ہے۔ ہم لکھتے کچھ ہیں اور پڑھنے والے سمجھتے کچھ ہیں۔ یوں بھرم رہ جاتا ہے۔ فی زمانہ لڑکیاں بھی امور خانہ داری میں کچھ ایسی ’’مہارت‘‘ رکھتی ہیںکہ لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ گھر داری کے معاملے میں وہ کرتی کچھ ہیں اور دِکھائی کچھ دیتا ہے۔ اور اگر سمجھ میں آ جائے تو سمجھ لیجیے کہ سمجھنے والا تو گیا کام سے۔ ایک نئی نویلی دلہن نے پہلی بار کھانا پکایا۔ شام کو شوہر گھر آیا تو بولی۔ ’’آج میں نے مُرغی کا سالن اور گاجر کا حلوہ پکایا ہے۔‘‘ اِتنا کہہ کر اُس نے دونوں چیزیں ڈِش میں ڈال کر شوہر کے سامنے رکھ دیں۔ شوہر نے کھانوں پر ایک نظر ڈالی اور بولا۔ ’’یہ تو بتاؤ اِن میں گاجر کا حلوہ کون سا ہے!‘‘ ٹی وی پر کوکنگ شو دیکھ دیکھ کر جو تجربات کئے جاتے ہیں اُن کی بدولت لوگوں کو دستر خوان پر کئی بر اعظم ایک دوسرے میں خلط ملط دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہو کہ کِسی گھر کے لوگ اچانک شور مچاتے، توبہ کرتے نِکل بھاگیں تو زیادہ حیران نہ ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دِن پہلے اُس گھر میں شادی ہوئی ہو اور نئی دلہن نے پہلی بار کھانا پکایا ہو! سُسرال والے دُلہن کو تو کچھ دنوں میں سمجھ لیتے ہیں مگر اُس کے پکائے ہوئے کو سمجھنے میں خاصا وقت لیتے ہیں۔ بچیاں چھوٹی عمر میں کارٹون اور تھوڑی بڑی عمر سے ڈرامے دیکھتی آرہی ہوں تو یہی ہوگا۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت کے بجائے محض ’’طربیت‘‘ کا دُم چَھلّا لگا ہو تو زندگی کے ہر معاملے میں سالن کی بکری اور حلوے کا شیر ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہوئے ملیں گے۔ بات گھر چلانے والیوں کی ہو یا مُلک چلانے والوں کی، قدرت کے اُصول سب پر ایک ہی انداز سے اطلاق پذیر ہوتے ہیں۔ جو لوگ پیدا ہی ملک کے معاملات چلانے کے لیے ہوئے ہیں اُنہیں اگر چھوٹی عمر سے بہتر تعلیم و تربیت نہیں ملے گی اور بیشتر وقت کھیل تماشوں میں گزرے گا تو عمل کی دُنیا میں آکر وہ کھیل تماشے ہی کریں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کھیل سیاست دانوں کا ہوتا ہے اور تماشے کا کردار ملک و قوم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ عوام جنہیں ملک کے بہتر نظم و نسق کے لیے منتخب کرتے ہیں اُن کی بھی ڈرائنگ بہت کمزور ہے۔ بے چارے بناتے کچھ ہیں اور بن کچھ جاتا ہے۔ نیت تو بہبودِ عامہ کے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ہوتی ہے مگر ہائے رے ہماری حِرماں نصیبی کہ یہ منصوبے چند قدم چل کر ہانپنے لگتے ہیں اور ذاتی مفاد کی منزل پر دم توڑ دیتے ہیں۔ جنہیں عوام بہ رضا و رغبت اپنی خدمت پر مامور کرتے ہیں وہ کام شروع تو ’’کارروائی‘‘ کی نیت سے کرتے ہیں مگر نا اہلی کے ہاتھوں پہنچ جاتا ہے ’’واردات‘‘ کی منزل تک۔ ہم جنہیں بہت چاؤ سے اور ڈھیر سارے ارمانوں کے ساتھ منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ عمل کی دنیا میں نئی نویلی دلہن کی سی ذہنیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ وہ رات دن ایک کرکے مُرغی کا سالن اور گاجر کا حلوہ بناکر بہت پیار سے عوام کے سامنے رکھتے ہیں مگر بُھوک کی شِدّت کے ہاتھوں حواس سے بیگانے عوام سالن اور حلوے کا فرق سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اور یوں نااہلی اور بد نیتی کا الزام ’’منتخب‘‘ دُلہنوں پر عائد کردیا جاتا ہے۔ اب پھر جمہور اور جمہوریت کے نکاح کی تجدید کا وقت آیا ہے۔ رسمیں ادا کی جارہی ہیں۔ اللہ کرے کہ اِس بار لوگوں کو ڈھنگ کی ڈِشیں ملیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایوان میں پہنچنے والے نئے نویلے ارکان اختیارات کے چولہے پر صوابدیدی پتیلی میں قومی وسائل کا چکن قورمہ پکاکر چٹ کر جائیں اور عوام دیکھتے ہی رہ جائیں۔ عوام کی سمجھ کی بھی ہمیں تو سمجھ نہیں آتی۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر آنے والے نئی سیاسی ڈِشیں تیار کرتے ہیں تو اُنہیں سراہنے کے بجائے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے قصور وار تو عوام ہوئے نا جو نئی نویلی حکومت کی تیار کی ہوئی ڈِشوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ یہی دیکھیے کہ حال ہی میں سابق ہونے والی حکومت نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے شیر اور بکری کا ایک گھاٹ پر پانی پینا ممکن بنایا تو لوگ مخالفت اور تنقید پر تُل گئے۔ حکومت اور اپوزیشن نے بیشتر معاملات میں اتفاق رائے کو یقینی بنایا تو اہل وطن نے مُک مُکا کا شور مچاکر آسمان سر پر اُٹھالیا۔ اب لوگ الزام لگاتے پھر رہے ہیں کہ حکومت نے جاتے جاتے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ بات پھر وہی آگئی کہ لوگ سالن کو حلوہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ لوگوں کو خوب فیض پہنچانا تھا اور ساتھ میں کچھ اپنا بھلا بھی کرنا تھا۔ تحلیل ہوتی ہوئی اسمبلیوں کے ارکان نے اپنے لیے ’’چند‘‘ فوائد یقینی بنائے۔ اور عوام کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے عظیم منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ لوگ بہت طنز کیا کرتے تھے کہ صدر صاحب ہر منصوبے کا سنگِ بنیاد ایوان صدر یا کسی گورنر ہاؤس میں رکھتے ہیں اور افتتاح بھی وہیں کرتے ہیں۔ اِس بار وہ ایران تشریف لے گئے اور سنگِ بنیاد رکھتے وقت سائٹ پر بہ نفس نفیس موجود تھے۔ حکومت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے وقت لوگوں کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو رشتہ طے کرنے کے معاملے میں کیا جاتا ہے۔ رشتے کے معاملے میں دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی امور خانہ داری میں ماہر ہو۔ نمائندے منتخب کرنے کے معاملے میں یہی بات پیش نظر رہنی چاہیے۔ ملک کو بدلنا ہے تو قوم کو اپنا ووٹ کا حق بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا۔ کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے لوگ منتخب ہوں جن کے تیار کئے ہوئے منصوبے اور کئے ہوئے اقدامات سمجھ میں آئیں۔ یعنی عوام کو اُن سے یہ نہ پوچھنا پڑے کہ مُرغی کا سالن کون سا ہے اور گاجر کا حلوہ کون سا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved