بھاگنے والا نہیں‘ ڈٹ کر مقابلہ کروں گا : نوازشریف
نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بھاگنے والا نہیں‘ ڈٹ کر مقابلہ کروں گا‘‘ کیونکہ اس عمر میں بھاگنا تو ویسے بھی ممکن نہیں رہتا‘ اُوپر سے ان مقدمات نے چلا چلا کر مزید تھکا دیا ہے‘ نیز اگر بھاگا بھی تو مزید خواری ہو گی اور فیصلے یکطرفہ ہو جائیں گے‘ اس لیے آخری آپشن یہی ہے کہ ڈٹ کر مقابلہ کروں اور فیصلہ کے بعد جہاں بھی بھیجیں گے اسی طرح ڈٹا ڈٹایا چلا جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے خلاف عدالتی فیصلہ زیادتی ہے ‘‘کہ بھلا منتخب وزیراعظم کے خلاف کیسے فیصلہ دیا جا سکتا ہے جبکہ بے انتہا مقدمات اور انکوائریوں کے باوجود کبھی کچھ نہ ہوا ہو‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''قوم کا مستقبل جمہوریت میں ہے‘‘ اور وہ بھی موجودہ وراثتی جمہوریت جس کے دوران بوقت ضرورت نیا لیڈر تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ ''ووٹ کو عزت دو قومی نعرہ بن چکا ہے‘‘ اگرچہ ووٹ کو میری طرف سے دی گئی عزت ہی کافی تھی جو کہ برسراقتدار آ کر ایسی ہی مزید عزت دینے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں۔ آپ اگلے روز جاتی امرا میں مشاورتی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
خدمت کرنے والی قیادت کو عوام کبھی
دل سے نہیں نکال سکتے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''خدمت کرنے والی قیادت کو عوام کبھی دل سے نہیں نکال سکتے‘‘ کیونکہ بے انداز خدمت کی وجہ سے وہ اس قدر نحیف و نزار ہو چکے ہیں کہ ان میں اتنی سکت بھی باقی نہیں رہ گئی کہ اس قیادت کو دل سے نکال سکیں‘ نیز زیادہ خدمت کی وجہ سے ان کے دل سوج کر بڑے ہو گئے ہیں جس کے علاج کے لیے وہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بیرون ملک بسنے والے پاکستانی وطن عزیز کے عظیم سفیر ہیں‘‘ جنہوں نے بھائی صاحب کے کہنے پر قرض اتارو‘ ملک سنوارو کے ضمن میں بے انداز رقمیں بھجوائیں اور اس عظیم تحفے کو انہوں نے آج تک سینے سے لگا رکھا ہے‘ اور وزیراعظم بن کر میں بھی ان سے ایسی ہی درخواست کروں گا کیونکہ ملک زیادہ مقروض ہو گیا ہے اور میرے مالی حالات بھی روز بروز خرابی کی طرف جا رہے ہیں‘ بلکہ اگر وہ ابھی سے مہربانی کرنا شروع کر دیں تو ملک کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی بہتر ہو گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا پر نشر ہونے والی خبر کا نوٹس لے رہے تھے۔
مجھے نون لیگ سے نکلوانے میں چوہدری نثار کا ہاتھ تھا : جاوید ہاشمی
فارغ اور بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''مجھے نون لیگ سے نکلوانے میں چوہدری نثار کا ہاتھ تھا‘‘ اور اب موصوف کو نون لیگ سے نکلوانے کا فرض میں ادا کر رہا ہوں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ میں دوبارہ میری شمولیت بھی موصوف ہی نے روکی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں چوہدری نثار کو جانتا ہوں‘ ان کا احترام ہے‘‘ اسی لیے بڑے احترام کے ساتھ نون لیگ سے ان کی چھٹی کروانا چاہتا ہوں‘ اگرچہ میرا پھر بھی کوئی چانس نکلنے کی توقع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں 12 بار ایم این اے بنا لیکن ایک بار بھی ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دی‘‘۔ لہذا اس بار بھی ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دوں گا کیونکہ اُمید ہے کہ نون لیگ اس دفعہ بھی میری درخواست کا انتظار نہیں کرے گی کیونکہ بڑے میاں صاحب جب ایک بار کوئی ذہن بنا لیں تو پھر اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی جیسے کہ مودی صاحب کے ساتھ ان کا دیرینہ تعلق جوں کا توں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔
علی ارمان ہمارے دوست اور پنجابی‘ اردو کے خوبصورت شاعر ہیں۔ انہوں نے واٹس ایپ پر بتایا ہے کہ فقیہ حیدر ایک نئے شاعر ہیں جو آپ سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن آپ سے ڈرتے بھی ہیں کہ پتا نہیں آپ ان کی شاعری کے ساتھ کیا سلوک کریں گے‘ لہذا میں ان کے کچھ اشعار بھجوا رہا ہوں‘ براہ کرم انہیں دیکھ لیجئے گا۔ میرا خیال تھا کہ اب تک دوستوں کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ میں ہر شعر کو میرٹ پر پرکھتا ہوں اور بہت پیار کرنے کے برعکس اگر کوئی مجھ سے بہت نفرت بھی کرتا ہوں اور اس کی شاعری میں کوئی جان نظر آئے تو میں اس کا حق کبھی نہیں رکھتا۔ نئے اور غیر معروف شعراء کو میں زیادہ توجہ کا مستحق سمجھتا ہوں لیکن وہ جن کی شاعری میں کوئی نہ کوئی چنگاری ضرور ہو‘ اور چونکہ ہر شاعر کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے‘ اس لیے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے ہر شاعر مجھے اپنی شاعری بھجوا سکتا ہے۔ بلکہ میں ایسی شاعری کا خود منتظر رہتا ہوں۔
فقیہ حیدرکے اشعار واقعی مجھے عام روش سے کسی قدر ہٹ کر لگے ہیں اور اس کے اطوار بتاتے ہیں کہ اس کے اندر عمدہ شاعری خاصی حد تک بھری ہوئی ہے‘ چند شعر دیکھیے :
ہوا میں نوحہ کناں اشک صاف کرتے ہوئے
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے
اسی لیے تو خطائیں مری ہیں سب کو پسند
کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے
وہ ڈوبنے کی اداکاری کر کے ڈوبا ہے
وگرنہ میں نے مدد کو ضرور جانا تھا
جسے فضول سمجھ کر مجھے دیا تم نے
وہ زخم میں نے بڑے کام کا بنا لیا ہے
اس لیے چھوڑ دیا بھیس بدلنا میں نے
مجھ کو ہر روپ میں پہچان لیا جاتا ہے
تیرا وجود مجھ میں سما تو نہیں گیا
اے شخص تو کہاں ہے‘ چلا تو نہیں گیا؟
اور‘ اب کچھ مزید شاعری۔۔۔۔
نہیں نہیں میں اکیلا تو دل گرفتہ نہ تھا
شجر بھی بیٹھا تھا مجھ سے کمر لگائے ہوئے (ادریس آزاد)
میں دن ہوں‘ ڈھونڈتا رہتا ہوں شام تک اُس کو
وہ رات ہے‘ مجھے خوابوں میں آ کے ملتی ہے (زبیر قیصر)
سب سے پہلے بھی میں آیا تھا تری محفل میں
سب سے پہلے تری محفل سے اُٹھا میں ہی ہوں (شہزاد رائو)
میں نے دریا کے کناروں کو ملانا چاہا
میری محنت سے تو انکار نہیں ہو گا کیا
اس کنارے سے اگر صاف نظر آتا ہے
پھر سفر پار کا بیکارنہیں ہو گا کیا (علی ارمان)
تُونے مہتاب نکلتے ہوئے دیکھا ہے کبھی
اور مہتاب بھی ایسے کسی دروازے سے
خالی کمرہ مرا کس چاپ سے بھر جاتا ہے
آتا جاتا ہی نہیں جب کوئی دروازے سے (اشرف یوسفی)
آج کا مطلع
سیروسفر کی زحمت اُٹھائے بغیر ہم
پہنچے ہیں بارہا وہاں جائے بغیر ہم