سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سیا ست کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی اسی طرح وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ کچھ حساس اداروں کو مکمل طور پر اپنے تابع کرنا نہیں بھولتے‘ اور یہی ان کی سیاست میں اب تک کی تمام کامیابیوں کا راز رہا ہے۔ لیکن اس دفعہ نہ جانے کیا ہوا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ملک کی سپریم عدلیہ ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی‘ جس پر گھات لگانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف 1997ء میں جو کچھ کیا گیا‘ سنا ہے کہ اس کے پارٹ2کا سکرپٹ تیار کیا جا رہا ہے‘ جو کسی بھی وقت پردۂ سکرین پر رونما ہو سکتا ہے۔ اس کھیل کے ابتدائی ٹریلر کی چھوٹی سی جھلک 2018ء کے صلح نامہ کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ شنید ہے کہ کچھ لوگوں کی محنت سے ان کے کھلاڑیوں کی تعداد تین سے بڑھ کر پانچ تک پہنچنے والی ہے۔ دوسری جانب ملک کو جس بد ترین معاشی حالت کا شکار بنا دیا گیا ہے‘ اس کی مکمل ذمہ داری شاہد خاقان عباسی اور ان کے قائدپر عائد ہوتی ہے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق پاکستان کی کرنسی کو زمین بوس کرنے کا حکم جاتی امرا سے ہی دیا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان مزید 135 ارب ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی کو ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا کہ اس سے پاکستانی معیشت زمین بوس ہو جائے گی۔ ان کو ذرا بھی خوف خدا نہیں آیا کہ میرے وطن کی کرنسی دنیا بھر کے ممالک سے لین دین میں آدھی رہ جائے گی۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اسی خاندان کے ایک فرد کے بقول حکمران خاندان کا پاکستان سے انتقام شروع ہو چکا ہے؟
میں نے اپنی زندگی کا واضح اصول مرتب کیا ہوا ہے کہ اگر آپ کے پاس ثبوت نہ ہو تو اس کو کبھی بھی اپنی تحریر کا حصہ نہ بنایا جائے۔ میرے پاس ایک انتہائی اہم ترین ادارے کے سربراہ کیلئے پوسٹنگ کے عوض کسی بہت ہی اہم ترین شخصیت کے لیٹر پیڈ پر جاری ایک ارب دس کروڑ روپے وصول کرنے کی تحریر موجود ہے‘ جس میں ان کے کوآرڈینیٹر سمیت دو افراد کے دستخط ہیں‘ جن میں سے ایک صاحب کا اس رسید میں بطور ضامن ذکر ہے۔ ابھی میں اس رسید کی اپنے طور پر تحقیق کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں نے اپنی تحقیق مکمل کر لی تو ان تمام کرداروں کے نام ٹی وی پر عوام کے سامنے لائوں گا۔
اب وہ نا قابل تردید ثبوت سامنے لانا بھی ضروری ہو گیا ہے‘ جو ثابت کرے گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں سوائے 20 برس قبل ایک وصیت کرنے کے‘ کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ مذکورہ وصیت بھی اس وقت کی گئی تھی جب بلاول سمیت بختاور اور آصفہ ابھی چھوٹے تھے اور اس وصیت کے تحت ان کے بالغ ہونے تک محترمہ فریال تالپور اور ان کے شوہر منور تالپور کو اپنی جائیداد کا گارڈین مقرر کیا تھا۔ مذکورہ وصیت کی فوٹو کاپی میں ان کا لندن کا ایڈریس دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی وصیت نہیں۔ میں پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ محترمہ نے دبئی سے پاکستان آنے سے پہلے کسی قسم کی بھی سیاسی یا مالی وصیت نہیں کی تھی اور اس کی گواہی کوئی اور نہیں بلکہ ایک ایسا شخص دے گا‘ جو محترمہ بے نظیر بھٹو فیملی کا سب سے اہم ترین فرد ہو گا (شاہ نواز یا مرتضیٰ بھٹو کی فیملی کا کوئی ممبر نہیں)
میں نے جن خدشات کا ابتدا میں ذکر کیا تھا ان کے مطابق سجاد علی شاہ پر گرائے گئے کوئٹہ میزائل جیسا ایک اور میزائل پھر سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ملک کی سپریم عدلیہ کو بدنام کرنے کیلئے ان پر دھوئیں کے بم پھینکنے کیلئے اداکاروں کی بریفنگ جاری ہے۔ آپ کو یاد تو ہو گا کہ کوئی دو برس پیشتر پشاور ہائیکورٹ کے ایک جج کی گاڑی کو بنوں چھائونی کے سکیورٹی پوائنٹ پر کھڑے فوجیوں نے روک کر جو گستاخی کی تھی‘ ان جج صاحب کی طبیعت پر اس قدر گراں گزری کہ انہوں نے اگلے روز عدالت میں ہنگامہ کیا تو ساتھ ہی لبرلز اور نواز لیگ کے سوشل میڈیا نے فوج کے لتے لینے شروع کر دیئے تھے۔ ان سے معذرت کی گئی‘ اس کے باوجود ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو سکا‘ اور وہ ملک کی اس اہم ترین شخصیت کے قریب ترین ہو گئے‘ جس کے دل میں فوج کے خلاف نفرت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان جج صاحب نے اپنے اور اپنے ''دوست‘‘ کے سمجھے گئے دشمن سے ملٹری چیک پوسٹ پر روکے جانے کی ذلت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا... اور جیسے ہی وہ جج سپریم کورٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے وفاداری کا اظہار کر دیا۔ اب چند روز ہوئے میاں نواز کے وہ ''دوست‘‘ اپنے عہدۂ جلیلہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں‘ لیکن انہوں نے جاتے جاتے بھی بنوں چھائونی کے گیٹ پر سکیورٹی پوسٹ پر اپنی گاڑی روکے جانے پر میاں نواز شریف کے ایجنڈے کی تقویت کیلئے اس میں نفرت کے نئے رنگ بھرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
1993ء میں جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی تھی تو اس حکم کے خلاف میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنی بحالی کیلئے غلام اسحاق خان کے حکم کو بد نیتی پر مبنی قرار دینے کیلئے پٹیشن داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ اقبال ٹائون لاہور میں‘ ایک جج کی رہائش گاہ پر ان کے بیٹے کے گھر کی چھت سے گر کر ہلاکت پر اظہار افسوس کیلئے جمع جج حضرات کی موجو دگی میں کیا گیا۔ میاں شہباز شریف کا دورۂ لندن اور اب نواز شریف کی لندن اڑان کا پلان... شاہد خاقان عبا سی کا دورۂ امریکہ... روپے کی قیمت میں تباہ کن کمی... پی آئی اے اور سٹیل ملز کی نیلامی کا ممکنہ فیصلہ... امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے حق میں رام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنے ملٹری سیکرٹری تو ایک طرف‘ بغیر کسی ایجنڈے اور سیکرٹری خارجہ کے امریکہ کیوں اور کس مقصد کیلئے گئے تھے۔ وہاں ان کی نائب امریکی صدر سے ملاقات کس نے ترتیب دی اور وہاں سی پیک اور گوادر کے حوالے سے کیا پلان کیا گیا۔ آج نہیں تو کل‘ اس کا جواب عباسی صاحب کو دینا ہو گا۔ یہ بھی خبر ہے کہ اس ملاقات میں حسین حقانی کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ دورۂ امریکہ کے دوران وہ کون سی یقین دہانیاں ہیں جو عبا سی صاحب نے ان مالیاتی اداروں کو کرائیں؟ اور میاں صاحب کے حق میں رام کرانے کیلئے پاکستان کے روپے کی قیمت اس قدر زمین بوس کر دی کہ وہ بیرونی قرضہ جو جنرل مشرف کا اقتدار ختم ہونے تک صرف 16 ارب ڈالر تھا‘ آج ''ایک سو پینتیس ارب ڈالر‘‘ تک پہنچا دیا گیا ہے۔
کوئی اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ روپے کی قیمت پانچ روپے تک کم کرنے کا یہ فیصلہ میاں نواز شریف کی مرضی کے بغیر کیا گیا ہو گا؟ سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد افراد‘ جو اپنے طور پر سانس لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں‘ میاں نواز اور شہباز شریف کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے۔