پاک بھارت تصادم اب گزرے دنوں کی بات ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے‘ بلاوجہ اپنے وسائل کشیدگی میں ضائع کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ یہ دونوں ملک نہ صرف ایٹمی طاقت بنے بلکہ تباہ کن توانائی کے ذخیرے بھی جمع کر چکے‘ توانائی کی دلدل سے کوئی ایک فریق‘ دوسرے کے لئے تباہی کا ایندھن استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ دونوں ملکوں کا ابتدائی دور تھا‘ جب انہوں نے چند روز کے فرق سے ایٹمی تجربات کئے۔ جس روز ان دونوں ملکوں نے اپنی ایٹمی طاقت کی آزمائش کی‘ اسی لمحے دنیا کو معلوم ہو گیا کہ اب برصغیر کے یہ دونوں حریف ایٹمی جنگ کے‘ بے نتیجہ تصادم سے کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بلاشبہ بھارت نے ایٹمی تجربات کے بعد‘ اپنی احمقانہ جوہری طاقت کے بل بوتے پر‘ پاکستان کو دبائو میں لانے کے خواب دیکھنا شروع کئے۔ ایٹمی طاقت بننے کے دو عشروں بعد‘ مذکورہ دونوں ممالک کی نو دریافت شدہ جوہری طاقت‘ انہیں ایک دوسرے پر برتری نہیں دلا سکی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اور صرف دفاعی مقاصد کے لئے ہے۔ اگر ہم ایٹمی قوت سے محروم ہوتے تو بنیا ذہنیت سے خیرکی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ بھارت کو جیسے ہی موقع ملا‘ اس نے کشمیر کے غالب حصے پر قبضہ کرنے میں‘ ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین سیاسی کشمکش‘ آزادی کے فوراً ہی بعد شروع ہو چکی تھی۔ مغربی پاکستان کو روزِ اول ہی سے موثر فوجی طاقت میسر آگئی تھی۔ جب پاک فوج نے اپنے دفاعی انتظامات مکمل کر لئے تو مشرقی پاکستان کے آزادی پسند شہریوں کو‘ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا‘ جو ان کے تصور میں بھی نہیں تھے۔ مغربی پاکستان کی نشوونما فوجی تصور کے سائے میں ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت‘ مغربی پاکستان کو اپنے لئے بازئو شمشیر زن تصور کرتے تھے۔ ان کے لئے آزادی کا مطلب یہ تھا کہ مغربی پاکستان اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ذریعے‘ انہیں بھی تحفظ فراہم کرے گا۔ جبکہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ آزادی کے فوراً بعد زرمبادلہ کی طاقت سے محروم رہے۔ فوری طور پر مشرقی پاکستان کی پٹ سن‘ ان کے لئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بن گئی۔ ہر فرد کی طرح ہر قوم بھی ممکنہ جارحیت سے بچنے کے ذرائع پر بھروسہ کرتی ہے لیکن مشرقی اور مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے آزادی کو کسی اور ہی انداز میں دیکھا۔ مغربی پاکستان کا خطہ تاریخی طور پر جنگی تجربوں سے گزر چکا ہے۔ بڑے سے بڑا حملہ آور بھی پنجاب اور سندھ کی مزاحمت کا خاتمہ نہ کر سکا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران‘ انگریز اپنی کالونیاں تلاش کر رہا تھا۔ جب مغربی طاقتوں کو مشرق میں شکست ہوئی تو غلامی سے نجات کے بعد‘ برصغیر کے رہنے والوں کا آزادی کا تصور مختلف شکل اختیار کر گیا۔
بھارت نے آزادی کے نتیجے میں گرد و نواح کے چھوٹے ملکوں پر تسلط جمانے کا ارادہ کیا۔ ان میں سری لنکا‘ نیپال‘ میانمار‘ افغانستان‘ مالدیپ‘ بھوٹان اور اقصائے چین شامل ہیں۔ میں نے جن ملکوں کے نام لئے ہیں‘ بھارت ابھی تک انہیں اپنی توسیع پسندی کا لقمہ نہیں بنا پایا۔ البتہ مشرقی پاکستان‘ واحد جغرافیائی اکائی تھا‘ جس پر بھارت اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد‘ بھارت کے ایٹمی تجربات کے ساتھ ہی ‘ پاکستان نے بھی اپنی ایٹمی طاقت کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حقیقت منظر عام پر آ گئی تو بھارت کو اپنی سٹریٹیجی بدلنا پڑی۔ مشرقی پاکستان پر اس کا فوجی قبضہ لقمۂ تر‘ کی طرح تھا۔ نیپال‘ سری لنکا اور میانمار ایسے ممالک ہیں جن پر بھارت کا فوجی قبضہ زیادہ مشکل نہیں۔ موجودہ حالات میں وہ اپنے چھوٹے ہمسایوں پر جبری قبضہ کر کے‘ عالمی رائے عامہ کے دبائو میں آ جاتا۔ اس لئے سیاسی دبائو سے ہی کام چلا رہا ہے۔ اس کے لئے بڑا مسئلہ پاکستان ہے۔
بھار ت کے اندر کی صورت حال‘ وہاں کے حکمران طبقوں کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر فوجی قبضہ کر کے‘ جو سوچا تھا کہ وہ اس علاقے کو‘ طاقت اور جبر کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لے آئے گا‘ ویسا نہیں ہوا۔ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کے لئے جو طویل جدوجہد کی ہے‘ اس کی شاید ہی کوئی مثال‘ ہمارے خطے میں موجود ہو۔ بھارت نے کئی مرتبہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کو‘ طیش دلا کر مکمل فوجی تسلط قائم کرنے کی کوشش کی لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طویل ترین جنگ آزادی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کی جنگ آزادی طول اور شدت اختیارکرتی جا رہی ہے‘ آج وہ اپنے مقبوضہ علاقے سے آگے بڑھ کر‘ دلی کے توسیع پسندانہ عزائم کی شدید مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کے لئے قومی آزادی کی جنگ اب روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ جنگ آزادی کی طوالت سے‘ نہ صرف قابض بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں بلکہ سول بیوروکریسی کے حوصلے بھی زیادہ شدت سے ٹوٹ رہے ہیں۔
جیسے بڑے سے بڑے قلعے کی بلند و بالا دیواروں کو‘ مسمارکرنے کے لئے‘ ایک ایک اینٹ نکالنا شروع کی جاتی ہے اور آخر کار وہ قلعہ منہدم ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال بھارت کی دفاعی قوت اور بیورو کریسی کی کارکردگی کو مسلسل زک پہنچا رہی ہے۔ گزشتہ دو تین برسوں سے‘ جنگ کی طوالت کے ساتھ ساتھ‘ بھارتی افواج کی پست ہمتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوصلہ شکن ماحول سے چھٹیوں کے بہانے نجات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند‘ براہِ راست قابض فوجی دستوں پر حملے کرنے لگے ہیں بلکہ ان کے دفاعی مراکز پر قبضے کر کے‘ بھارت کی دفاعی مشینری کے حوصلے توڑ رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کے حوصلے دم توڑنے لگے ہیں۔ اور اب نوبت خود کشیوںتک جا پہنچی ہے۔ اس ماحول میں بھارتی فوجیوں کی ہمت جواب دے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اچانک صورت حال میں تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ فیصلہ میدان جنگ میں نہیں‘ مذاکرات کی میز پر ہو گا۔ اور اب اس میں زیادہ عرصہ باقی نہیں۔